• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گاڑی پوری رفتار سے ویران سڑک پر دوڑے جا رہی تھی، دُور دُورتک کسی آبادی کا نشان تک نہیں تھا،تھر کی گرمی اور پھر رمضان، ہماری کوشش تھی، افطار سے قبل ہی منزل تک پہنچ جائیں، اس لیے سالار نے گاڑی کی رفتار کم نہیں ہو نے دی تھی۔سڑک کے دونوں جانب ریت اُڑ رہی تھی اور سورج آگ برسا رہا تھا۔ سالار نے گزشتہ ہفتے ہی یہ نئی پراڈو لی تھی، اس لیے اس گرمی میں بھی اس کا اے-سی اب تک ٹھنڈک دے رہا تھا۔ ہم ننگر پارکر جا رہے تھے اور اب اتنا سفر کر نے کے بعد اے-سی گاڑی میں بیٹھ کر بھی تھک چُکے تھے۔اچانک گاڑی کے بونٹ سے دھواں نکلنے لگا۔سالار کے منہ سے بے ساختہ نکلا،’’مر گئے،لگتا ہےاس گرمی میں روسٹ بنے گا آج اپنا۔‘‘گاڑی کنارے پر لگا کر جیسے ہی نیچے اترے، تو اچانک ایسا لگا ،جیسے کسی نے جلتے تنور میں پھینک دیا ہو۔ تیزلُو چل رہی تھی اور ایک منٹ ہی میں لُو کے تھپیڑوں نے ہمیں بے حال کر دیا۔ سالار نے بونٹ کھول کر دیکھا اور بولا،’’ ریڈی ایٹرمیں پانی نہیں ہے اور مَیں جلدی میں پانی ساتھ رکھنا بھول گیا۔‘‘میرے پیروں سے تو جیسے جان ہی نکل گئی۔تھوڑی دیر ہم دونوں اس اُمید پر سڑک ہی پر کھڑے رہے کہ شاید کوئی گاڑی گزرے اور ہمیں مدد مل جائے،لیکن گرمی نے ہمیں زیادہ دیر باہر کھڑے نہ ہونے دیا اور ہم دونوں دوبارہ واپس گاڑی میں جا بیٹھے۔ ہمارا دوست جاوید حال ہی میں یہاں اسسٹنٹ کمشنر لگا تھا اور اسی کی دعوت پر ہم یہاں آئے تھے۔’’یار! جاوید کو فون کر۔اپنی گاڑی بھجوا دے۔اس کے اسٹاف کے لوگ خود دیکھ لیں گےآکر۔‘‘مَیں نے سالار کو مشورہ دیا۔

’’یار! ان کو تو یہاں آتے آتے ہی شام ہو جائے گی۔‘‘سالار اپنے موبائل سے جاوید کا نمبر ملاتے ہوئے بولا۔میری نظریں باہر اڑتی ریت پر پڑیں، تو مَیں باہر کی جانب دیکھنے لگا۔کیسی آگ تھی، جس نے ہر چیز کو جھلسا دیا تھا۔ نہ کوئی درخت تھا، نہ کوئی بیل بوٹا،یہاں بسنے والے کیسے رہتے ہیں اس جھلسا دینے والی گرمی میں۔یہاں تو دُور تک کسی مکان کا نشان ہے، نہ ہی بازار کا۔’’بیڑہ غرق، آج تو پکّا خوار ہونے کا دِن ہے۔‘‘سالار کی آواز پر میں چونکا۔’’کیا ہوا؟‘‘مَیں نے پریشانی کے عالم میں اس سے پوچھا۔’’جاوید کا نمبر بند جا رہا ہے۔‘‘سالار بولا۔ـ’’اوہ…‘‘میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔’’اب کیا کریں گے؟‘‘ ’’اب قل پڑھ لو اور کیا کرسکتے ہیں۔‘‘سالار غصے میں موبائل ڈیش بورڈ پر پھینکتے ہوئے بولا۔

مَیں ابھی کچھ کہنے ہی والا تھا کہ سائیڈ مرر میں مجھے دُور سے ایک شخص آتا دکھائی دیا،جس کے سَر پر گھڑا رکھا تھا۔’’ہو گیا کام۔‘‘مَیں نے سالار سے کہا اور گاڑی سے اتر کر باہر آ گیا۔ سالار بھی حیرت سے مجھے تکتا باہر آ گیا۔اس نے میری نظروں کے تعاقب میں دیکھا، مگر اس شخص پر نظر پڑتے ہی بولا،’’مشکل لگ رہا ہے،یہ نہ جانے کتنی دُور سے پانی بَھر کر لارہا ہے۔اس علاقے میں سب سے مہنگی چیز یہ پانی ہے اور یہ اتنی قیمتی چیز ہمیں کیوں دےگا؟‘‘ ’’دے گا یار۔غربت دیکھو یہاں۔کچھ پیسے دیں گے، تو فورا ًراضی ہو جائے گا۔‘‘ ’’صاحب کوئی پریشانی ہے؟‘‘اس شخص نے ہمارے قریب پہنچ کر پوچھا۔ مَیں نے اسے دیکھا، دھوپ کی شدّت اور تپش سے اُس کے کپڑے پسینے میں بھیگے ہوئے تھے،جسم جیسے ہڈیوں کا ڈھانچا تھا۔سَر پر رکھا گھڑا اس نے ایک ہاتھ سے تھام رکھا تھا۔ ’’ہاں۔گاڑی میں پانی ڈالنا ہے اور ہمارے پاس پانی نہیں ہے۔‘‘ سالار نے اسے بتایا۔ ’’تو صاحب یہ پانی آپ ہی کے لیے تو ہے۔‘‘ ’’کیا مطلب؟‘‘ سالار نے حیرت سے پوچھا۔ ’’کچھ نہیں صاحب، آپ بتائو پانی کہاں ڈالنا ہے؟‘‘ مَیں نے اُمید بَھری نظروں سے اسے دیکھا اور بونٹ کھولا، اُس نے گھڑے ہی سے ریڈی ایٹر میں پانی انڈیل دیا۔’’صاحب کوئی خالی بوتل ہے، تو یہ پانی اُس میں بھی بَھر لو، تاکہ آگے مزید کوئی پریشانی نہ ہو۔‘‘مَیں نے نہ چاہتے ہوئے بھی گاڑی سے دو خالی بوتلیں نکال کر اس کے حوالے کر دیں۔اس نے بوتلوں میں پانی بَھرا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔مَیں نے جیب سے کچھ پیسے نکالے اور اسے دیتے ہوئے بولا،’’یہ رکھ لو۔‘‘ وہ مُسکرا دیا۔’’صاحب! آپ مہمان ہو اور مسافر بھی،ہم تَھری لوگوں کے پاس ہے ہی کیا مہمان نوازی کے سوا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ واپس اُسی جانب چل دیا، جہاں سے آیا تھا۔میں اُسے روکنا چاہتا تھا، لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ میں اسے روک نہ سکا۔وہ جس جانب سے آیا تھا، اُسی طرف چل پڑا۔ شاید پھر سے پانی بَھرنے گیا تھا۔ گرمی اتنی تھی کہ اس کے جاتے ہی ہم فورا ًگاڑی میں بیٹھ گئے اور اے۔سی تیز کر دیا۔ سالار بولا۔’’بے چارہ اتنی دھوپ اور گرمی میں نہ جانے پانی بَھرنے کتنی دُور گیا ہوگا،رمضان بھی ہے۔‘‘ ’’یار! ان کا روز کا کام ہے، یہاں ہندو آبادی زیادہ ہے،جو تھوڑے بہت مسلمان ہیں بھی، وہ بھی جاہل ہیں اور دین سے نابلد۔ یہاں روزے رکھنے کا کوئی تصوّر نہیں ہے۔‘‘سالار نے میری طرف دیکھا اور پھر خاموش ہو گیا۔

دو دِن جاوید کے پاس رہنے کے بعد آج ہم واپس کراچی روانہ ہو رہے تھے۔اس دوران ہم نے جی بَھر کے تفریح کی، شکار کیا، روایتی کھانے کھائے اور ایک سرکاری افسر کے ساتھ پورے علاقے میں افسر بن کر پروٹوکول میں گھومتے رہے۔ جاوید نے بہت اصرار کیا کہ افطار کر کے نکل جائو، لیکن ہمارا پروگرام تھا کہ رات سے قبل کافی سفر طے کر لیا جائے اور افطار بھی کہیں راستے ہی میں کی جائے۔ اب شام ہونے لگی تھی، سالار حسبِ عادت کافی رفتار سے گاڑی چلا رہا تھا، افطار کا وقت قریب آ پہنچا تھا۔’’یار! کسی ہوٹل پر گاڑ ی روکو، افطار کرلیں پہلے۔‘‘مَیں نے سالار سے کہا۔’’وہی دیکھ رہا ہوں، لیکن یہاں تو دُور دُور تک کوئی ہوٹل نظر نہیں آرہا۔‘‘ سالار سڑک کے دونوں جانب دیکھتے ہوئے بولا۔اچانک اذان کی آواز نے ہمیں اپنی جانب متوجّہ کیا،سالار نے گاڑی روک لی۔ حیرت ہمیں اس بات پر تو تھی ہی کہ اس بیابان میں اچانک یہ مسجد کہاں سے آگئی، لیکن اس سے زیادہ جس چیز نے ہمیں اپنی جانب متوجّہ کیا، وہ مؤذن کی آواز تھی۔ مسحور کُن آواز، پڑھنے کا انداز اور پھر اس آواز کی گونج، جیسے صحرا میں کوئی کوئل میٹھی آواز میں حمد پڑھ رہی ہو۔ہم دونوں اس آواز کی جانب کھنچتےچلے گئے۔ جب اذان ختم ہوئی، تو ہم مسجد کے دروازے پر پہنچ چُکے تھے۔’’السلّام علیکم۔ لیجیے پہلے روزہ کھول لیجیے، افطار میں جلدی کا حکم ہے۔‘‘وہ کھجوریں ہمارے آگے کرتے ہوئے بولا۔ ہم دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر ایک دوسرے کو۔ یہ وہی شخص تھا، سانولا رنگ، چھوٹی آنکھیں، پسینہ اب بھی اس کے ماتھے سے ٹپک رہا تھا۔’’آپ دونوں آرام سے بیٹھ کر افطاری کریں، جماعت دس منٹ بعد ہو گی۔‘‘ اس نے مختلف چیزوں سے بَھری دو پلیٹیں ہمارے آگے رکھیں اور گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے بولا،’’فی الوقت پانی ہی دستیاب ہے۔اگر کسی مہمان کے آنے کا پتا ہوتا، تو شربت اور دودھ کا بھی انتظام ہو جاتا۔‘‘ ’’جی شکریہ،یہ بھی بہت ہے۔‘‘ سالار نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ مَیں تو اُس سے ہی نہیں، خود سے بھی اتنا شرمندہ تھا کہ کچھ بھی کہنے کی ہمّت ہی نہیں رہی تھی۔

کتنا بدگمان تھا مَیں، اے-سی گاڑی میں بیٹھ کر، گھر اور دفتر میں بھی پورا دِن اے-سی میں گزار کر، ٹھنڈا ٹھار روزہ رکھ کر خود کو بڑا متّقی و پرہیزگار سمجھ بیٹھا تھا اور ایک وہ تھا، جسے مَیں جاہل، دیہاتی، گنوار اور غیر مسلم سمجھ کر اس کے بارے میں سالار سے نہ جانے کیا کچھ کہہ گیا تھا۔ سخت گرمی اور لُو میں اس روزے دار سے پانی لے کر پیسوں سے اسے خریدنے چلا تھا۔

نماز ہم نے اس کی امامت ہی میں پڑھی۔ قرأت میں بھی اس کی آواز کا سحر اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔نماز پڑھ کر ہم نکل رہے تھے کہ اس نے ہمیں آواز دی، صاحب لمبا سفر ہے، چائے پی کر جائیں،تازہ دَم ہوجائیں گے۔اس نے چائے کے دو کپ ہمارے آگے رکھ دیئے۔ ہم مسجد کے باہر بنے چبوترے پر بیٹھ گئے۔چائے پیتے ہوئے مَیں نے اس سے پوچھا۔’’کیا نام ہے آپ کا؟‘‘ ’’خد ا بخش۔‘‘اس نے بتایا۔ آپ کی آواز بہت اچھی ہے،اتنی خُوب صُورت آواز میں اذان مَیں نے اس سے پہلے نہیں سُنی۔’’صاحب! خُوب صُورتی میری آواز میں نہیں، اللہ کے نام اور اُس کی پکار میں ہےـ‘‘ وہ بولا۔’’ایک بات پوچھوں؟‘‘مجھے جیسے کچھ یاد آیا۔ ’’جی صاحب پوچھیں۔‘‘وہ حسبِ عادت مُسکراتے ہوئے بولا۔’’آپ سے جب ہم نے گاڑی کے لیے پانی مانگا تھا، تو آپ نے کہا تھا کہ یہ پانی تو آپ ہی کے لیے ہے۔ اس کا کیا مطلب تھا؟‘‘ وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا،’’میری ماں کہتی ہے کہ گھر کی ضرورت کے علاوہ پانی کا ایک اضافی گھڑا گھر میں ہونا ضروری ہے،کسی مسافر، کسی مہمان کے کام آجاتا ہے۔ رمضان کے آغاز میں جب ماں نے مجھے حسبِ معمول ایک گھڑا اور بَھر کر لے کر آنے کو کہا، تو مَیں نے ماں سے کہا،’’رمضان میں کس کے کام آئے گا یہ؟‘‘اور رمضان میں اب تک وہ گھڑا کسی کے استعمال میں نہیں آیاتھا، لیکن ماں کا کہنا تھا کہ اسے روز بَھر کر رکھا جائے۔ اس لیے اُس دِن جب آپ نے پانی مانگا، تو مجھے ماں کی وہ بات یاد آگئی اور ایسا لگا کہ یہ گھڑا مَیں آپ ہی کے لیے بَھرنے گیا تھا۔‘‘مَیں نے کہا،’’بس آپ کو ہمارے کام آنا تھا اُس دِن،یہ لکھا ہوا تھا۔‘‘ ’’میری کیا اوقات کہ مَیں کسی کے کام آؤں، یہ بھی سب اُس کی توفیق پر منحصر ہے، ورنہ کسی کو پانی پلانا تو ایک طرف میری تو پانی کا ایک قطرہ کنویں سے نکالنے کی بھی اوقات نہیں۔ اس کی محبّت دیکھیں، توفیق بھی خود ہی دیتا ہے اور پھر اس توفیق پر کی جانے والی نیکی کا اجر بھی ہمیں ہی دے دیتا ہے۔ وہ تو ہاتھ کھول کر اپنے خزانے بانٹ رہا ہے، پکار رہا ہے کہ لُوٹ لو نیکیاں، تاکہ پھر وہ اپنے بندے کو اس کا اجر اور انعام دے، لیکن بندہ ہے کہ…‘‘کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ پھر بولا،’’بس صاحب یہ اُس کی دین ہے کہ کوئی صحرا میں بھی سیراب ہوجاتا ہے۔ فکر تو اس بات کی کرنی چاہیے کہ ساحل کنارے رہ کر بھی کوئی پیاسا نہ رہ جائے۔‘‘ہم نے چائے ختم کی اور جانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔اس نے ہم سے مصافحہ کیا اور چل پڑا۔

مَیں دُور تک اسے جاتا دیکھتا رہا۔کیا تھا مَیں؟کیا نہیں تھا اس دُنیا میں میرے پاس؟پیسا، پھلتا پھولتا کاروبار، بنگلے، گاڑیاں، لیکن کیا اوقات تھی میری اللہ کے سامنے؟ ایک کیڑے سے بھی کم، جسے کوئی بھی راہ چلتا شخص مسل کر چلا جائے اور جس کے جانے سے دُنیا میں کسی بھی شخص کو معمولی سا بھی کوئی فرق نہ پڑے۔اور کیا تھا وہ؟بظاہر کچھ بھی تو نہیں تھا اُس کے پاس،ایک کچّی جھونپڑی تھی، جو اُس کی کل کائنات تھی، لیکن اللہ کی نظر میں وہ کیا کچھ نہ تھا۔اللہ کا پسندیدہ بندہ…اللہ کا پسندیدہ بندہ بننے کے لیے علم، ڈگریاں، پیسا، اسٹیٹس، چالاکی، عیّاری اور کاروبار نہیں، بلکہ اُس کی ہدایت چاہیے ہوتی ہے۔اور یہ ہدایت اُس کی توفیق سےکسی نیک دِل اور طلب کی چاہ رکھنے والے ہی کو ملتی ہے،ہم جیسے ریاکاروں کو نہیں۔

تازہ ترین