• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر ذیشان حسین انصاری

عالمی ادارۂ صحت کے زیرِاہتمام دُنیا بَھر میں ہر سال 14جون کو ’’عطیۂ خون کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے،جس کا مقصد ایک جانب رضاکارانہ طور پر خون دینے والوں کی خدمات کا اعتراف ہے،تو دوسری جانب ہر سطح تک عطیۂ خون کی اہمیت سے متعلق شعور اُجاگرکرنا اور معاشرے میں اس حوالے سےرائج غلط تصوّرات کا خاتمہ بھی ہے۔ امسال ،اس دِن کے لیے جو سلوگن منتخب کیا گیا ہے،وہ "Safe blood for all" یعنی ’’محفوظ خون سب کے لیے‘‘ہے۔واضح رہے کہ یہ دِن سائنس دان کارل لینڈاسٹینر(karl landsteiner)کے لیے اُن کے یومِ پیدایش (14جون1868ء)پر ایک خراجِ عقیدت بھی ہے کہ یہ وہ سائنس دان ہیں، جنہوں نے خون کے تین گروپس اے، بی اور اودریافت کیے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایک جیسے بلڈ گروپس کو آپس میں ملانے سےخون کے خلیے تباہ نہیں ہوتے، بلکہ مختلف بلڈ گروپس ملانے سے تباہ ہوتے ہیں۔ اسی تھیوری کی بنا پر ایک ہی گروپ کے خون کو ملانے کا کام یاب تجربہ کیا گیا اور اسی بنیاد پر آج کی جدید سائنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اے-بی گروپ کے حامل افراد کو کسی بھی گروپ کا خون دیا جا سکتا ہے اور او نیگیٹو گروپ کے حامل افراد کسی بھی فرد کو خون عطیہ کرسکتے ہیں۔ یاد رہے، کارل کی اسی تحقیق پر اُنھیں1930ء میں نوبل پرائز بھی دیا گیا۔

خون زندگی کی علامت و حرارت کا نام ہے، جو جسم میں مسلسل بنتا رہتا ہے۔ اس کا نہ تو کوئی متبادل ہے اور نہ ہی اسے مصنوعی طور پر تیار کیا جاسکتا ہے۔ رگوں میں دوڑتا پھرتا خون نہ صرف زندگی رواں رکھتا ہے، بلکہ جسم کو توانائی بھی مہیا کرتا ہے۔ یوں تو انسانی جسم کے کئی ایسے اعضاء ہیں، جو کسی دوسرے فرد کو عطیہ کیے جاسکتے ہیں، لیکن اس ضمن میں خون اپنا ایک الگ، نایاب اور منفرد مقام رکھتا ہے۔ دوسرے عطیہ کیے جانے والے اعضاء کی نسبت، اس کی منتقلی سب سے آسان ہے کہ محض چند منٹ دے کر کسی بھی ضرورت مند کو پوری زندگی کا وقت دیا جا سکتا ہے۔دُنیا بَھر میں ایسے کئی افراد موجود ہیں،جن میں مختلف بیماریوں کے باعث خون پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے اور انہیں زندہ رہنے کے لیے کسی دوسرے کے خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ خون کی ایسی مُہلک بیماریوں میں تھیلیسیمیاسرِفہرست ہے، جوایک موروثی مرض ہے اور خون کے سُرخ ذرّات کو متاثر کرتا ہے، جس کے نتیجے میں جسم میں خون کی شدید کمی واقع ہوجاتی ہے، نتیجتاً تا عُمر بار بار خون لگوانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ’’پاکستان تھیلیسیمیا سینٹر‘‘ کے مطابق پاکستان میں سالانہ5ہزار بچّے پیدایشی طور پر اس مرض کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی زندگی کا ایک طویل حصّہ مختلف تھیلیسیمیا سینٹرز اور اسپتالوں ہی کی نذر ہوجاتا ہے۔ مرض کی شدّت کے اعتبار سے تھیلیسیمیا کو تین اقسام میں منقسم کیا گیا ہے۔ پہلی قسم تھیلیسیمیا مائنر، دوسری تھیلیسیمیا انٹرمیڈیٹ اور تیسری تھیلیسیمیا میجر کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف حادثات،آپریشنز، زچگی اور دیگر بیماریوں میں بھی مریض کسی صحت مند فرد کے خون کے عطیے کا محتاج ہوسکتا ہے۔ بلاشبہ انتقالِ خون زندگی بچانے میں بے حد مددگار و معاون ثابت ہوتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں عطیۂ خون کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے، جس کی وجہ سے جب بھی کسی حادثے یا کسی اور سبب خون کی ضرورت پیش آتی ہے، تو مریض کے اہلِ خانہ کو انتہائی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مُلک بَھر میں مجموعی طور پر سالانہ خون کے27لاکھ بیگز کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن صرف16لاکھ بیگز ہی جمع ہوپاتے ہیں اور یوں ہر سال ضرورت مند افراد کو خون کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی ایک بنیادی وجہ انتقالِ خون سے متعلق شعور و آگہی کا فقدان بھی ہے۔اگر پاکستان میں بھی عطیۂ خون کے رجحان کو فروغ دیا جائے، تو کئی انسانی زندگیوں کو ضایع ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔

عطیۂ خون کے ضمن میں عمومی طور پر لوگ جن غلط فہمیوں یا ڈر و خوف کا شکار ہوتے ہیں، اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خون دینے کے نتیجے میں خود اپنے جسم میں خون کی کمی واقع ہوجائے گی۔ حالاں کہ جدید تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ ہر فرد کے جسم میں دو یا تین بوتل خون اضافی ذخیرہ ہوتا ہے اور کوئی بھی تن درست فرد ہر تیسرے مہینے خون کی ایک بوتل باآسانی عطیہ کر سکتا ہے، جس سے اس کی صحت پر مزید بہتر اثرات ہی مرتّب ہوتے ہیں۔ انتقالِ خون کے کئی اور بھی فوائد ہیں۔مثلاًکولیسٹرول قابو میں رہتا ہے، تو یہ عمل دِل کے امراض سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ نیز،نیا تازہ خون بنتا ہے، جس کے نتیجے میں قوّتِ مدافعت کے عمل کو بھی تحریک ملتی ہے۔ پھر خون عطیہ کرنے والے افراد نہ تو موٹاپے میں مبتلا ہوتے ہیں اور نہ انہیں جلد کوئی اور بیماری لاحق ہوسکتی ہے۔ اس بناء پر ضروری ہے کہ معاشرے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دُور کرکے لوگوں کو خون عطیہ کرنے کی جانب راغب کیا جائے۔

بنیادی طور پر خون کے چارگروپس ’’اے‘‘، ’’بی‘‘، ’’اے بی‘‘ اور ’’او‘‘ ہیں، جب کہ خون کے اجزاء میں سُرخ خلیات، پلیٹ لیٹس، پلازما اور فیکٹرز(مثلاًفیکٹر 8، فیکٹر 9وغیرہ) شامل ہیں۔ موجودہ دَور میں مکمل خون کی منتقلی کا تصوّر تقریباً ختم ہوچُکا ہے۔ اب مریض کو خون کا وہی جزو لگایا جاتا، جس کی اُسے ضرورت ہو۔ بہت کم صُورتوں میں مریض کو مکمل خون دیا جاتاہے اورعام طور پرایک بوتل خون کے عطیے سے تین انسانی جانوں کو بچایا جا سکتاہے۔مکمل خون(Whole blood) ایسے شخص کو دیا جاتا ہے، جس کا کسی ایکسیڈنٹ وغیرہ کے بعد کافی زیادہ خون ضایع ہوجائے۔ سُرخ خلیات(Packed Red Cells)اُن مریضوں کو دئیے جاتے ہیں، جن کا ہیموگلوبن خطرناک حد تک کم ہو گیا ہو۔ جب کہ پلیٹ لیٹس (Platelets) کی ضرورت تب پیش آتی ہے، جب ان کی تعداد معمول سے بہت کم ہوجائے، مثال کے طور پر ڈینگی یا ڈینگی ہیمرجک فیور اور سرطان وغیرہ میں۔پلازما (Fresh Frozen Plasma) عام طور پرجگر اور اس سے متعلقہ امراض کے علاج کے لیے استعمال میں آتا ہو۔ اور فیکٹرز (Factor Concentrates) خون جمانے والے مختلف فیکٹرز کی کمی کو پوری کرنے کے لیے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔مثلاً ہیموفیلیا میں، جو خون کی موروثی اور جینیاتی بیماری ہے اور اس میں خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے۔ یعنی کسی چوٹ یا زخم کی صُورت میں خون رُکنے میں خاصا وقت لگتا ہے، جو بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ طبّی اصطلاح میں خون رُکنے یا جمنے کے عمل کو کلوٹنگ میکنزم (Clotting Mechanism)کہا جاتا ہے،جس میں 12اجزاء حصّہ لیتے ہیں، جنہیں کلوٹنگ فیکٹرز (خون جمانے والے عناصر) کا نام دیا گیا ہے۔ اگر ان 12فیکٹرز میں سے کوئی ایک بھی کم ہوجائے، تو خون جمنے کا عمل متاثر ہو جاتا ہے۔ ہیموفیلیا اے میں فیکٹر 8کی شدید کمی ہوتی ہے، جسے پورا کرنے کے لیے "Factor VIII concentrates"، تو ہیموفیلیا بی میں فیکٹر 9کی کمی دُور کرنے کے لیے "Factor IX concentrates"استعمال کیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کئی بلڈ بینکس قائم ہیں،جہاںخون کے تمام عطیات رضاکارانہ طور پر حاصل کیے جاتے ہیں،لیکن اس ضمن میں بھی چند باتوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ مثلاً رضا کارکی عُمر کم از کم اٹھارہ سال اور وزن کم از کم50کلوگرام ہو ،اُس میںخون کی کمی نہ ہو۔وہ کسی بھی قسم کےنشے کا عادی نہ ہو اورنہ ہی کسی موذی مرض میں مبتلا ہو،اُسے گزشتہ دو سال کے عرصے میں یرقان (پیدایشی یرقان اس سے مستثنیٰ ہے)نہ ہوا ہو۔جب کہ گزشتہ ایک سال میں وہ ملیریا کا شکار نہ ہوا ہو۔ دِل کی بیماری، بلڈ پریشر، ذیابطیس وغیرہ میں بھی مبتلا نہ ہو۔ اگر میجر سرجری ہوئی ہو، تو اُسے کم از کم ایک سال کا عرصہ گزر چُکا ہو۔ اگررضاکارنے پہلے خون دیا ہے، تو دوبارہ خون دینے کے لیے کم از کم تین ماہ کا وقفہ ضروری ہے،جب کہ اُسے خود بھی گزشتہ ایک سال کے دوران خون نہ لگا ہو۔اس کے علاوہ اس بات کا بھی خاص دھیان رکھا جاتاہے کہ خود ڈونر میں بھی خون کی کمی نہ ہو۔ یعنی اس میں ہیموگلوبن کی مقدار 12.5 g/dl ہو۔ خون دیتے وقت اُسے بخار یا کسی قسم کا کوئی انفیکشن بھی نہ ہو۔اگر وہ کوئی دوا استعمال کر رہا ہو، تو اس کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی جائیں۔ پھرانتقالِ خون سے قبل رضاکار کے اپنے خون کی بھی مکمل جانچ پڑتال ضروری ہے، کیوں کہ بہت سےمہلک امراض جیسے ایڈز اور ہیپاٹائٹس وغیرہ انتقالِ خون کی وجہ سے ایک سے دوسرے تک منتقل ہوجاتے ہیں۔یاد رکھیے، جس مقدار میںخون عطیہ کیا جاتا ہے، انسانی جسم تین سے چاردِن میں یہ مقدار پوری کرلیتا ہے، جب کہ 56دِنوں میں خون کے تمام خلیات بھی بن جاتے ہیں، جو پُرانے خلیات سے زیادہ صحت مند اور طاقت ور ہوتے ہیں۔ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی ایک تحقیق کے مطابق جو افراد وقتاً فوقتاً خون عطیہ کرتے ہیں، ان میں دِل کے دورے اور سرطان کے امکانات 95فی صد تک کم ہوجاتے ہیں۔ عطیۂ خون سے رگوں میں خون کے انجماد کو روکنے اور جسم میں خون کے بہتر بہاؤ میں مدد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ خون عطیہ کرنے سے قبل رضا کار کے خون کی اسکریننگ بھی کی جاتی ہے،جس میںعام طور پر 7اقسام کے ٹیسٹس کیے جاتے ہیں، ان میں ہیپاٹائٹس بی، سی، ایڈز اور ملیریا وغیرہ کے ٹیسٹ شامل ہیں۔جن کی بعد ازاں مکمل رپورٹ مع ہیموگلوبن اور بلڈ گروپ کے مہیا کی جاتی ہے۔ اگر عام حالات میں یہ ٹیسٹ کسی معیاری لیبارٹری سے کروائے جائیں، تو کئی ہزار روپے خرچ ہوجائیں، جب کہ خون عطیہ کرنے کی صُورت میں رضاکاران کےیہ ٹیسٹ مفت ہوجاتے ہیں۔ نیز، عطیۂ خون لینے سے قبل رضاکار کے خون کا گروپ بھی معلوم کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خون میں آر ایچ اینٹی جین(RH Antigen)کی موجودگی یا غیر موجودگی کی بھی جانچ کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے کسی بھی گروپ کو بالترتیب مثبت یا منفی کہا جاسکتا ہے۔ بے شک مریض اور رضاکار کے خون کا گروپ ایک ہو، مگر پھر بھی اس بات کا احتمال رہتا ہے کہ کہیں رضاکار کا خون مریض کے جسم میں داخل ہو کر کوئی ری ایکشن ظاہر نہ کردے،لہٰذا اس امکان کو ختم کرنے کے لیے بلڈ بینکس میں پہلے رضاکار کے خون کو مریض کے خون کے ساتھ میچ کیا جاتا ہے اور کسی قسم کا ردِ عمل ظاہر نہ ہونے کی صورت ہی میں خون مریض کو لگایا جاتا ہے۔ خون کے مذکورہ تجزیے کو طبّی اصطلاح میں کراس میچ(Cross-match)کہا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے مریض کے پلازما میں ایسی اینٹی باڈیز دریافت کی جاتی ہیں، جو کسی بھی صُورت میں رضاکار کے سُرخ خلیات کے ساتھ ردِ عمل کر کے انہیں توڑ پھوڑ سکتی ہیں۔ اس کے بعدہی خون ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ خون اور اس کے اجزاء کو مختلف درجۂ حرارت پر ایک معینہ مدّت تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ مکمل خون اور سُرخ خلیات،6-4ڈگری سینٹی گریڈ پر 35دِن کے لیے، پلیٹ لیٹس، کمرے کے درجۂ حرارت24-20ڈگری سینٹی گریڈپر5روز کے لیے(اس دوران پلیٹ لیٹس کو ایسی سطح مہیا کی جاتی ہے، جو انہیں مسلسل حرکت میں رکھے، اِسے طبی اصطلاح میںAgitatorکہا جاتا ہے)، پلازما،18ڈگری سینٹی گریڈ پر ایک سال اور65ڈگری سینٹی گریڈ پر7سال کے لیے محفوظ کیےجاسکتے ہیں۔جب کہ فیکٹرز 18ڈگری سینٹی گریڈ پر ایک سال اور65ڈگری سینٹی گریڈ پر7سال کے لیے محفوظ کیے جاتے ہیں۔ کراس میچ کیا گیا خون، عام خون سے الگ رکھا جاتا ہے۔ اگرکراس میچڈ خون کم از کم تین دِن تک استعمال میں نہ آئے، تو اسے مریض کے تازہ خون کے ساتھ ری کراس میچ کیا جاتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پرخون کے ہر بیگ کی تاریخِ معیاد دیکھی جاتی ہے اور جو بیگز ایکسپائر ہوجائیں یا جن میں اسکریننگ کے دوران کسی انفیکشن کے شواہد ملیں، انہیں فوری طور پر ضایع کر دیا جاتا ہے۔ تمام معیاری بلڈ بینکس خون کی خرید و فروخت کی مذّمت کرتے ہیں اور’’خون کے بدلے خون‘‘یعنی"Exchange System"کے اصول پر کاربند ہیں۔ ایک بلڈ بینک کی ساکھ بنیادی طور پررضاکار کی فراہم کردہ معلومات پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر رضاکار غلط بیانی سے کام لے، تو بلڈ بینک کے عملے کے پاس ایسا کوئی آلہ نہیں، جو اس کے بیان کی صداقت کو پرکھ سکے، لہٰذا اس ضمن میں رضاکار ہرگز غلط بیانی نہ کریں کہ عطیہ کیے گئے خون کی بدولت ہر سال لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں۔

بلاشبہ منتقلیٔ خون کا عمل زندگی اور موت کی کیفیت میں مبتلا مریضوں میں جینےکی ایک نئی اُمید پیدا کرتا ہے، لیکن ابھی بھی دُنیا کے بیش تر مُمالک میں عطیہ کیے گئے صحت مند اور محفوظ خون کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری سطح پر عوام میں عطیۂ خون کی حوصلہ افزائی کے لیے مہم چلائی جائی، تاکہ تمام افراد بالخصوص نوجوانوں میں عطیۂ خون کے جذبے کو فروغ دیا جاسکے اور وہ بڑھ چڑھ کر اس کارِ خیر میں حصّہ لیں۔ کہتے ہیں کہ ’’ماں کے بہتے آنسو شاید اُس کے بچّے کی زندگی نہ بچا سکیں، لیکن عطیۂ خون سے یہ ممکن ہے۔ ’’قرآن پاک میں بھی ارشاد ہے،’’جس نے ایک انسان کی جان بچائی، گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔‘‘،لہٰذا عطیۂ خون کے فروغ میں ہر شخص کو اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہیے۔

آپ کس گروپ کے حامل افراد کوخون عطیہ کرسکتے ہیں؟؟

 ایک رپورٹ کے مطابق دُنیا بَھر میں ہر دو منٹ بعد کسی نہ کسی وجہ سے زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا افراد کو خون کی ضرورت پڑتی ہے۔ایسی صُورت میں اگر بروقت خون میسّر آجائے،تو ایک انسانی زندگی کو بچایا جاسکتا ہے۔کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کس گروپ کے حامل افراد کو اپنا خون عطیہ کرسکتے ہیں؟اگر نہیں، تو ذیل میں اس حوالے سے معلومات فراہم کی جارہی ہیں۔

٭اگر آپ کے خون کا گروپ اے پازیٹیو ہے، تو آپ اے پازیٹیو اور اے-بی پازیٹو گروپ کے حامل افراد کو خون عطیہ کرسکتے ہیں۔جب کہ گروپ اے نیگیٹیو ہونے کی صُورت میں اے پازیٹیو، اے-بی پازیٹیو، اے نیگیٹیو اور اے-بی نیگیٹیو گروپ کے افراد کو خون دیا جاسکتا ہے۔

٭بی پازیٹیو بلڈ گروپ رکھنے والے افراد اپنے گروپ اور اے-بی پازیٹیو گروپ کے افراد کو خون دے سکتے ہیں، جب کہ بی نیگیٹیو ہونے کی صُورت میں بی پازیٹیو، اے-بی پازیٹیو،بی نیگیٹیو اور اے-بی نیگیٹیو کو خون دیا جاتا ہے۔

٭اوپازیٹو گروپ رکھنے والے افراد او، اے، بی اور اے-بی پازیٹیو گروپ کے افراد کو خون دے سکتے ہیں۔

٭او نیگیٹو گروپ کے حامل افراد ’’عالم گیر ڈونرز‘‘کہلاتے ہیں کہ یہ چاروں گروپس کے پازیٹو اور نیگیٹو کو خون دے سکتے ہیں، لیکن جب اس گروپ کو خودخون کی ضرورت ہو، تو اِسے صرف اپنے ہی گروپ کا خون عطیہ کرسکتے ہیں۔

٭اے-بی پازیٹیو گروپ رکھنے والے صرف اپنے ہی گروپ کے افراد کو خون دے سکتا ہے۔

٭اور…اے-بی نیگیٹیو گروپ، اے-بی پازیٹیو اور اے-بی نیگیٹو کو خون دے سکتا ہے۔

(مضمون نگار، معروف ہیموٹولوجسٹ اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کراچی کی ورکنگ کاؤنسل کے رکن ہیں) 

تازہ ترین