• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک بھارت تعلقات میں نشیب و فراز کی کہانی انتہائی دلچسپ تو ہے مگر آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کہانی کو ٹریجڈی کہا جائے یا پھر کامیڈی۔ گاہے فریقین قہقہے لگا کر اپنی نادانیوں پر ہنستے ہیں تو اس کہانی پر مزاح کا گُمان ہوتا ہے مگر جب دوطرفہ دشمنی کی زد میں آرہے انسانوں کے تابوت اُٹھتے ہیں تو کسی اندوہناک المیہ کا تصور اُبھرتا ہے۔ ٹریک ٹو ڈپلومیسی، بیک ڈور ڈپلومیسی اور کرکٹ ڈپلومیسی سمیت سفارتکاری کے تمام داؤ پیچ آزما لئے۔ چار جنگوں میں ایک دوسرے کے دانت کھٹے کرنے کے ارمان پورے کر لئے، وقتی اشتعال کے باعث کرکٹ کی پچیں تک اُکھاڑ پھینکیں، ایک دوسرے کے جھنڈے نذر آتش کر کے دیکھ لئے، امریکہ اور روس سمیت جانے کتنے ممالک کو ثالث بنا کر دیکھ لیا، اقوام متحدہ کی جانب سے صلح صفائی کروانے کی کوششیں بے سود ثابت ہوئیں، ایٹمی دھماکوں کے فوراً بعد کارگل میں میدان جنگ سج گیا تو یہ خوش فہمی بھی کسی کام نہ آئی کہ اب دونوں ملک ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سےنہیں الجھیں گے۔ ایک دوسرے کو چاروں شانے چِت کرنے کے لئے سب سے بلند پرچم لہرانے کا مقابلہ ہوتا ہے تو دنیا ہنستی ہے، بارڈر پر ٹانگیں اُٹھا کر پٹخنے کا چیلنج دیا جاتا ہے تو لوگ قہقہے لگاتے ہیں، سیاچن میں دونوں ملکوں کے بہادر فوجی مشترکہ دشمن یعنی خوفناک موسم سے نبردآزما ہوتے ہیں تو ترقی یافتہ ممالک بڑبڑاتے ہوئے کہتے ہیں، یہ لوگ کس دور میں جی رہے ہیں۔

دیوار برلن ٹوٹ گئی، بلجیم اور نیدر لینڈ نے صدیوں پرانے سرحدی تنازع کو سفارتکاری نامی باریک سوئی کے ناکے سے گزار لیا، فلپائن اور انڈونیشیا نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے سرحدی تنازع حل کرلیا، یہاں تک کہ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کو عقل آگئی مگر پاکستان اور بھارت نامی ہمسائے اب بھی اسی کیفیت میں ہیں کہ ”اکڑ کر مر جاؤں گا مگر دلیہ نہیں کھاؤں گا“۔ نریندرمودی واضح اکثریت سے الیکشن جیت چکے اور دوسری بار بھارت کے وزیراعظم بننے جا رہے ہیں۔ 30مئی کو ان کی تقریب حلف برداری ہے اور انہوں نے پاکستانی ہم منصب عمران خان کے علاوہ سب ہمسایہ ممالک کے سربراہان حکومت و ریاست کو مدعو کیا ہے۔ بنگلہ دیش، میانمار، سری لنکا، بھوٹان، نیپال اور تھائی لینڈ جیسے ہمسایوں کو دعوت دی گئی ہے مگر پاکستان کو دانستہ نظر انداز کیا گیا ہے۔ پانچ برس قبل جب مودی پہلی بار وزیراعظم منتخب ہوئے اور انہوں نے 26مئی 2014کو حلف اُٹھانا تھا تو انہوں نے پاکستانی وزیراعظم نوازشریف کو مدعو کیا۔ نوازشریف نے یہ دعوت کیسے قبول کی اور پھر انہیں کس طرح تنقید کا نشانہ بنایا گیا، شاید آپ سب یہ باتیں بھول چکے ہوں کیونکہ ہمارا حافظہ اور یادداشت بہت کمزور ہے۔ نواز شریف نے یہ دعوت قبول کی تو طاقت کے مراکز میں بھونچال آگیا اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو 24گھنٹوں میں ”ایک اہم ترین“ شخصیت سے دو مرتبہ ملاقات کرکے صفائیاں دینا پڑیں کہ یہ محض خیرسگالی دورہ ہے۔ پاک بھارت تعلقات کی گاڑی ایک بار پھر دھکا اسٹارٹ ہوئی تو اسے روکنے کی تدبیریں ہونے لگیں، نواز شریف پر ”مودی کے یار“ کی پھبتی کسی گئی، معتبر صحافیوں نے بتایا کہ نواز شریف ”غدار“ اور ”وطن فروش“ ہے۔ اس کی فیکٹریوں میں بھارتی انجینئر کام کرتے ہیں، اس کے بھارت میں کاروباری مفادات ہیں۔ مجھے اُمید تھی کہ ”مودی کا یار“ چلا جائے گا تو اس کے بعد اُس کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے گا مگر افسوس صد افسوس، ابھی تک اس نوعیت کی کوئی بھی امید پوری نہیں ہوئی۔

بہر حال بات ہو رہی تھی پاک بھارت تعلقات نامی اس گاڑی کی جو اسٹارٹ ہونے کے بعد ہچکولے کھانے لگتی ہے اور اچانک بند ہو جاتی ہے۔ یہ گاڑی اس لئے زیادہ دور نہیں جا پاتی کہ جب وقتِ قیام آتا ہے تو ہم سجدے میں گر جاتے ہیں اور جب لچک دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم اکڑ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب 20فروری 1999کو بھارتی وزیراعظم واجپائی دوستی بس سروس کے ذریعے لاہور آئے اور نئی تاریخ رقم ہونے لگی تو سازشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پہلے تو جماعت اسلامی کے ذریعے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش کی گئی اور پھر کارگل کی بے وقت مہم جوئی سے پاک بھارت تعلقات کی گاڑی کا انجن سیز ہوگیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی بھارتی وزیراعظم نے مینار پاکستان پر حاضری دی اور پاکستان کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیا۔ واجپائی نے مینار پاکستان جاکر یہ اعتراف بھی کیا کہ”بہت سے دوستوں کا خیال تھا مجھے مینار پاکستان نہیں جانا چاہئے کیونکہ اگر میں مینار پاکستان جاؤں گا تو قیام پاکستان پر مہر لگ جائے گی مگر میرا خیال ہے کہ پاکستان ایک حقیقت ہے اور اسے کسی کی مہر درکار نہیں“۔ اعلان لاہور کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے نوازشریف نے واجپائی کی نظم پڑھی ”ہم جنگ نہ ہونے دیں گے“ جبکہ بھارتی وزیراعظم نے بھی اسی جوش و جذبے کا اظہار کرتے ہوئے علی سردار جعفری کے اشعار پڑھے ”تم آؤ گلشن لاہور سے چمن بر دوش، ہم آئیں صبح بنارس کی روشنی لیکر۔ ہمالیہ کی ہواؤں کی تازگی لیکر، پھر اس کے بعد پوچھیں کہ کون دشمن ہے“۔

جب یہ موقع کھوگیا تو خودساختہ صدر جنرل پرویز مشرف نے پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے کی بہت کوششیں کیں، آگرہ جا کر اسی واجپائی سے مذاکرات کی بھیک مانگی مگر اس بار بھارت ”اکڑ“ گیا۔ اسی طرح جب سابقہ دورِ حکومت میں پاک بھارت تعلقات کی گاڑی گہری کھائی میں گرا دی گئی تو اسے دوبارہ ٹریک پر لانے کی بہت کوشش کی گئی، خط و کتابت کام آئی نہ کرتار پور کاریڈور کی پیشکش کا مثبت جواب ملا۔ شاید یہ وقت انتہائی غیر موزوں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاک بھارت تعلقات کی گاڑی ”دائیں بازو“ کی جماعتیں ہی آگے بڑھا سکتی ہیں۔ بھارت کی کانگریس ہو یا پھر پاکستان کی پیپلزپارٹی، یہ جماعتیں برسراقتدار آبھی جائیں تو پاک بھارت تعلقات میں کوئی بڑی پیشرفت ممکن نہیں۔ ماضی میں بی جے پی اور مسلم لیگ(ن) کواستثنیٰ حاصل تھا۔ اب بھارت کی حد تک تو وہی کیفیت برقرار ہے مگر پاکستان میں تحریک انصاف کو انتہائی دائیں بازو کی جماعت کا درجہ حاصل ہوچکا ہے اور مسلم لیگ(ن) اپنا مقام کھوچکی ہے۔ پی ٹی آئی کے بجائے کوئی اور سیاسی جماعت برسر اقتدار آنے کے بعد پاک بھارت دوستی کے لئے غیر معمولی جوش و جذبے کا اظہار کرے گی تو یقیناً غدار کہلائے گی مگر اس نوعیت کی پیشرفت موجودہ حکومت کی طرف سے ہو تو اس کی حب الوطنی پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔ چنانچہ بہتر ہوتا کہ بھارتی وزیراعظم تنگ نظری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے اور پاک بھارت تعلقات کی رُکی ہوئی گاڑی آگے بڑھاتے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین