• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عید کے بعد PTIحکومت کا عملاً پہلا بجٹ قومی اسمبلی میں 11جون کو شام 6بجے پیش ہو رہا ہے جس سے عوام کو بہت سی توقعات وابستہ ہیں کہ شاید انہیں کچھ ریلیف مل جائے لیکن حقائق اس کے برعکس نظر آ رہے ہیں۔ اس لئے کہ وزارت خزانہ اور وزیراعظم عمران خان جو مرضی کہیں ایف بی آر کے معتبر حکام تو کہہ رہے ہیں کہ اصل سخت دن تو جولائی کے بعد شروع ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں ریلیف نہیں تکلیف ملنے کے شواہد زیادہ نظر آ رہے ہیں۔ زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ 2020-21کے بجٹ کے دنوں میں جب حکومت دو سابقہ حکومتوں کے دور کے واجب الادا قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی تو اس کے بعد شاید عوام کو کچھ ریلیف مل سکے لیکن دوسری جانب اس سے پہلے بلاول بھٹو زرداری کی افطار پارٹی کے بعد دونوں بڑی پارٹیوں اور خاص کر مولانا فضل الرحمٰن کے اعلانات اور دعوئوں کے مطابق عید کے بعد اسلام آباد اور ملک کے دوسرے حصوں میں اپوزیشن بھرپور احتجاجی مہم شروع کر دے گی۔ اللہ کرے اس کی نوبت نہ آئے، اس لئے کہ ہمارا ملک پہلے ہی اقتصادی سرگرمیوں کے حوالے سے زیادہ منفی رجحانات کی طرف بڑھ رہا ہے، اس سے ملک میں غیر یقینی صورتحال اور مایوسی بڑھنے سے قومی سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر کئی نئے مسائل جنم لے سکتے ہیں جن کا ہمارا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔

اس سلسلہ میں وزیراعظم عمران خان ذرا دل بڑا کریں اور عید کے بعد تمام اسٹیک ہولڈرز کی ایک خصوصی کانفرنس بلائیں اور پھر سیاسی جماعتوں کی APCپلان کر لیں جس میں بلاامتیاز اور بلا تعصب تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو مدعو کریں۔ ہمارے اندازے کے مطابق بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بائیکاٹ اور سینئر قائدین کی عدم شرکت کے اعلانات سے قوم کو پتا چل جائے گا کہ اپوزیشن میڈیا اور پارلیمینٹ میں کیا کہتی ہے اور عملی طور پر کیا کرتی ہے۔ اس حوالے سے اللہ کرے PTIحکومت کچھ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرے اور سیاسی نظام کو بچانے اور سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کی عملی کوشش کرے۔ اس صورت میں معاشی سرگرمیوں کی بحالی اور کاروباری طبقوں کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے وگرنہ دوسری صورت میں حکومت جو بھی دعوے اور اعلانات کرتی رہے عوام اور کاروباری طبقوں کا اعتماد بحال نہیں ہو سکے گا۔ اس لئے کہ ہر نیا دن ملک میں بیروزگاری اور کاروبار کے حوالے سے مایوسی میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں پہلی اور لازمی ترجیح کے طور پر ڈومیسٹک اکانومی کی بحالی کے لئے حکومت عملی اقدامات کرے۔ اگر حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی تو اپوزیشن کو حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے کا بہتر موقع مل سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ حکومت 11جون کو نئے مالی سال کا بجٹ تو پیش کرنے جا رہی ہے لیکن کیا ایک غیر منتخب مشیر خزانہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پیش کر سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیا ہو گا؟ اس سلسلہ میں ہمارے پارلیمانی اور آئینی امور کے ماہرین بھی خاموش ہیں، ایسا نہ ہو کہ عین بجٹ کے وقت نئی نویلی حکومت ایک اور مسئلہ سے دوچار ہو جائے۔ ویسے بھی حکومت کے پاس نہ تو میڈیا ہینڈلنگ کی وہ صلاحیت ہے جو اصولی طور پر ہونا چاہئے اور نہ ہی گورننس بالخصوص اکنامک گورننس کی بہتری کے لئے ترجیحات کا کوئی اسٹرکچر۔ اس وجہ سے بہت سے اچھے کام کرنے کے باوجود بے چاری حکومت بیک فٹ پر ہی کھیل رہی ہے۔

تازہ ترین