• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بیچارا کوئی اداکار یا گلوکار یا شو بز سے تعلق رکھنے والا کوئی اور فرد یہاں فوت ہو جائے تو ٹی وی چینلز جو اُس کا حال کرتے ہیں،اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ہمیں تو ہمارا دین سکھاتا ہے کہ کسی مسلمان کے مرنے پر اُس کے لیے دعائے مغفرت کی جائے مگرہمارے چینلز ہیں کہ چن چن کر اُس کے ناچ گانے دکھانا شروع کر دیتے ہیں اور یہ گمان ہونے لگتا ہے جیسا کہ کوئی فلم چل رہی ہو۔ اگر گانے والا بھی فوت ہوجائے تو اُس بیچارے کے گانوں پر فلمائے گئے ایسے ایسے فلمی ڈانس دکھائے جاتے ہیں کہ دیکھنے والے کو سمجھ نہیں آتا کہ وہ اس صورت حال میں کیا کرے۔ یہی حال مرنے والے اداکار یا اداکارہ کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب مرنے والے کا سفرِ آخرت شروع ہوتا ہے اور جب اس کے اپنے گھر والے اور عزیزواقارب قرآن خوانی، دعاؤں اور وظیفوں میں مصروف ہوتے ہیں،میڈیا کا سارا زور ناچ گانے چلانے پر ہوتا ہے۔بھئی آپ مہربانی کر کے صرف خبر دے دیں کہ فلاں اداکار یا گلوکار فوت ہو گیا اور اگر ہو سکے تو سننے اور دیکھنے والوں کو مرنے والے کے لیے بخشش کی دعا کی ترغیب دیں مگر یہاں تو فلمیں اور گانے چلا کر جانے والے کو رخصت کیا جاتا ہے۔ اور فلمی گانے بھی ایسے چلائے جاتے ہیں جن میں بیہودگی زیادہ ہو۔ کوئی بیچارا مر جائے تو کم از کم اُس کی جان کو بخش دیں مگر ہم تو مغرب اور غیر اسلامی معاشروں کی نقالی میں پڑ گئے بلکہ اُن کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ کسی عالم دین، اللہ کے ولی یا اسلامی تاریخ کے ہیروکو تویاد تک نہیں کیا جاتا مگراداکاروں و گلوکاروں کی برسیوں کو ناچ گانے چلا چلاکر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل پاکستانی کرکٹر شعیب ملک اور انڈین ٹینس اسٹار کی شادی ہوئی تو کئی دن پاکستان کے ٹی وی چینلز کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسراموضوع نہ تھا۔ گھنٹوں دونوں کے ڈانس کو دکھایا گیا مگر انہی دنوں عالم اسلام کے ایک بہت بڑے اسکالرڈاکٹر اسرار احمد اللہ کو پیارے ہو گئے مگر چند جملوں کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کے متعلق ٹی وی چینلز کے پاس کچھ نہ تھا۔
دین سے ہماری دوری کا یہ حال ہے کہ ہم نے مغرب کی نقل میں ناچ گانے کوہی اپنی منزل سمجھ لیا اور شو بز سے تعلق رکھنے والوں کو ہی اپنا ہیرو بنا لیا۔ ا س شعبہ سے تعلق رکھنے والوں کو میڈیا اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ دیکھنے والے کو ترغیب ملے کہ وہ بھی انہی کی نقل کریں۔ ناچ گانا کچھ عرصہ قبل تک خاص طبقہ تک محدود تھا جس کے ساتھ عام لوگ کسی بھی طرح اپنا تعلق جوڑنا پسند نہیں کرتے تھے مگر آج ناچنے اور گانے والوں کو آئیڈیل بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہماری دینی و معاشرتی اقدار بہت تیزی سے تباہ ہو رہی ہیں۔ایسے مردوں اور عورتوں کو جو شوبز اور آرٹ کے نام پر کھلے عام بے حیائی کرتے ہیں انہیں بڑے بڑے اسٹار بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ شاہ رخ خان، کترینہ کیف وغیرہ جیسوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہم مرتے ہیں۔ جو بے حیائی میں جتنا آگے وہ اتنا ہی بڑا اسٹاربن جاتا ہے۔ان ”ہیروز“ اور ان کے ناچ گانے کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے کہ ہمارے ٹی وی چینلز کا کوئی خبرنامہ گانے بجانے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ فحش سے فحش ڈانس اور گانے کو چلایا جائے تاکہ ریٹنگ بہتر ہو۔ حکومتی ذمہ دار بھی اس نشہ کااس حد تک شکار ہو چکے ہیں کہ انہیں بھی صحیح اور غلط کی تمیز نہیں رہی اور یہ بھی بھول گئے کہ فحاشی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان ذمہ داروں کی آنکھ اس وقت کھلے جب ان کی بیٹی، بہن، بیوی اُس نوعیت کی انٹرٹینمنٹ ٹی وی اسکرین پر پیش کرے گی جس کو روزانہ دکھایا جاتا ہے۔ اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کی تعلیمات سے ہماری دوری کا حال دیکھیں کہ one pound fish گاکر لندن میں اپنی روزی کمانے والے کو جب میڈیا نے ہیرو بنا کر پیش کیا اور جب اُس کے گانے کو ایک مغربی گانے والی کمپنی نے اس انداز میں فلمایا کہ گانے والا یہ پاکستانی نیم عریاں ناچنے والی گوریوں کے درمیان ناچتے اور گاتے ہوئے دکھائی دیاتو اُس کے عزیزو اقارب کو پاکستان میں یہ دعائیں کرتے دکھایا گیا اللہ کرے کہ یہ گانا کرسمس کے موقع پر پہلے نمبر پر آ جائے ۔ اس نوجوان کے بچوں سے بھی پاکستانیوں کے لیے یہ اپیل کروائی گئی کہ اس فلمائے گئے گانے کیلئے انٹرنیٹ پر جا کر پسندیدگی کا اظہار کیا جائے۔ پاکستانی میڈیا کو تو بہانا چاہیے تھا اُس نے ایک پاکستانی کے کارنامہ کے نام پراس گانے پر گوریوں کے نیم عریاں ڈانس کو بھی خوب چلایا۔معلوم نہیں شو بز کے نام پر ہماری تیز تر ”ترقی“ اور کن حدوں کو چھوئے گی۔ مگر عام لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں سب چلتا ہے۔
تازہ ترین