• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجیب ظفر

بہت دنوں کی بات ہے ، ایک چھوٹے سے قصبے میںرافع نامی ایک لڑکا اپنی ماں کے ساتھ رہتاتھا۔بے چارے کے والد شہر کے ٹریفک حادثے میں اللہ کو پیارے ہوچکے تھے۔ماں محنت مشقت کرتی ، کپڑے پرکشیدہ کاری کرتی اور رافع یہ چیزیں قریبی بڑے قصبے میں فروخت کرآتا ۔ اس طرح دونوں ماں بیٹا عزت سے اور روکھی سوکھی کھا کر گزارا کررہے تھے ۔ اسے اور اس کی ماں اور کو تعلیم کی عظمت کا احساس تھا ، وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے با عزت ملازمت حاصل کرنا چاہتا تھا ۔اسی لیے فارغ وقت میں وہ ایک چھوٹے سے اسکول میں پڑھنے چلا جاتا جو ایک رحم دل آدمی نے غریب بچوں کے لیے قائم کیا تھا۔

رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہوا تو ماں زیادہ محنت کرنےلگی ، اُس نے ایک کپڑے پر نہایت نفیس کڑھائی کی اوررافع کو دے کر بولی کہ کل ہی اسے جاکر قریبی شہر میں فروخت کرآنا،اس کے اچھے پیسے مل جائیں گے۔ کپڑا دیکھ کر بہت خوش ہوا اور بولا ’’امّی جان ،’’یہ تو بہت اچھالگ رہا ہے ، کیسے کیسے خوب صورت ، بیل بُوٹے اور ڈیزائن بنائے ہیںآپ نے ۔

اگلے روز صبح سویرے وہ بس اَڈّے پہنچ کر مطلوبہ بس میں سوار ہوا اور دو تین گھنٹے بعد شہر پہنچ گیا ۔ابھی دن کے بارہ بھی نہیں بجے تھے لیکن عید الفطر کی آمد آمد تھی ، دُکانیں اور بازار گاہکوں سے بھرچکے تھے ۔کچھ لوگ اپنے سحر و افطار کے لیے اشیائے خورد و نوش( کھانے پینے کی چیزیں ) خرید رہے تھے اور کچھ برتن ، کپڑے ۔وہ کپڑوں کی ایک بڑی سے دُکان پر پہنچا ۔اس نے ادب سےدکان دارکو سلام کیا ۔دُکان دار نے شفقت سے جواب دیا اور پوچھا : ’’ہاں میاں کیسے آئے ؟‘‘

رافع نے پوری بات اُس نیک دل آدمی کے گوش گزار کردی ۔واقعی وہ ایمان دار اور نیک تاجر تھا ۔اُس نے بھی کپڑے کو دیکھ کر اُس کے تیار کرنے والے کی محنت کی تعریف کی اور کپڑا ناپنے کے بعد بولا ، ’’ بے شک ، عمدہ کام ہے ۔لیکن ایک مسئلہ ہے !‘‘ وہ پیشانی سہلاتے ہوئے بولا ۔

’’وہ کیا ؟‘‘رافع گھبرا گیا ۔

’’بیٹا ، کپڑا تو اچھا ہے اور ایک مکمل سوٹ کے ناپ کا ہے لیکن اس میں اتنا اضافی کپڑا ہے ،جس سے ایک بچّی کا سوٹ بن سکتا ہے ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے بوتیک میں بچیوں کے ملبوسات تیار نہیں کیے جاتے ‘‘۔

’’پھر ؟‘‘ رافع پریشان ہوگیا ۔

’’پھرایسا ہے کہ میں تمہیں ایک سوٹ کے پیسے اور اضافی کپڑا کاٹ کر الگ دے دیتا ہوں کیونکہ تم محنتی اور ایمان دار لڑکے ہو ، محنت اور ایمان داری سے کام کرو گے تو بہت آگے جاؤ گے ۔

’’ جی انشاء اللہ !‘‘رافع خوش ہوگیا ۔

دُکان دارنے اس کو بہت معقول رقم اور اضافی کپڑا واپس دے دیا ۔

رافع نے احتیاط سے وہ رقم رکھی اور کپڑا لے کر گھر کی جانب چلا ۔وہ جب کچے پکے گھروں کے درمیان سے گزر رہا تھا کہ اچانک ایک ٹوٹے پھوٹے گھر کے اندر سے ایک لڑکی کی رونے کی آواز آئی’’ماں تم روزانہ مغرب کی اذان پر یہی کہتی ہو کہ اب ہمارا روزہ بھی کھلنے والا ہے ، لیکن روزانہ آس پاس کے تمام گھروں کے لوگوں کا روزہ تو کُھل جاتا ہے لیکن ہم وہی بھوکے رہتے ہیں ۔نہ تم شہر سے میرے لیے دودھ سویاں لائیں ، نہ مٹھائی ، نہ پراٹھا ، نہ مکھن ۔ میرے کپڑے بھی نہیں بنائے ۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ بچی دوبارہ زارو قطار رونے لگی۔رافع ذرا سی دیر میں تمام بات سمجھ گیا ۔وہ غربت کا درد جانتا تھا ۔ بچی کارونا پیٹنا سُن کر اس کے دل کو ٹھیس سی لگی ۔حیرت ہے اُس بیوہ اور اُس کی بچی کی خبر گیری کا کسی پڑوسی کو بھی خیال نہ آیا ۔وہ جانے کب سے فاقے کررہے تھے۔اس نے پھٹا ہوا پردہ ایک جانب کیا اور بڑے ادب سے سلام کیا ۔ایک بڑی ابتر (بُرے) حال میں روتی ہوئی غریب کمزور عورت سامنے آئی ۔رافع نے جلدی جلدی پوری بات بتائی ۔عورت نے بتایا کہ وہ گھروں میں کام کاج کیا کرتی تھی لیکن اب وہ بیمار ہے اور ڈاکٹروں نے اُسےدوا ، دودھ ، انڈے اور مقوی (قوت والی ) غذائیں کھانے کا مشورہ دیا ہے ۔جمع پونجی ختم ہوچکی ہے ۔ محنت ،مشقت کا کام نہیں کرسکتی ، البتہ کپڑا سینا پروناجانتی ہے لیکن سلائی مشین نہیں ہے۔

رافع نے زبردستی کچھ رقم اور بچا ہوا سوٹ کا کپڑا اُس غریب عورت کو دیا ۔ایسا کرکے اُس کے دل کو عجیب سی خوشی کا احساس ہوا ۔

گھر واپس پہنچ کر اس نے اپنی ماں کو تمام بات بتائی ، ماں نے خوشی سے لائق فائق بیٹے کا ماتھا چُوم لیا ۔پھر چاند رات کو ،وہ اپنی امّی کا ہاتھ تھامے اُس غریب بیمار عورت کے پاس جارہا تھا، تاکہ اُسے اور اُس کی بچی کو اپنے گھر لاکر رکھ سکیں،اوروہ غریب عورت اس کی ماں کا ہاتھ بھی بٹائے اور اُس کی بیٹی ’’علم کی دولت ‘‘ سے بھی مالا مال ہوسکے۔پیارے بچوں ہمیں بھی اپنے آس پاس ایسے لگوں کی مدد کرنی چاہیے، تاکہ یہ لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہوسکیں 

تازہ ترین