• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ میں بریگزٹ یونانی المیے کی شکل اختیار کر چُکا ہے اور سابق وزیرِ اعظم، ڈیوڈ کیمرون کے مستعفی ہونے کے بعد اُن کی جانشین تھریسامے بھی وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے چُکی ہیں۔ تاہم، خاتون وزیرِ اعظم کے شدید ترین نقّاد بھی اس اَمر پر متفق ہیں کہ وزارتِ عظمیٰ کے عُہدے پر فائز ہونے کے بعد تھریسا مے کی تمام تر توجّہ بریگزٹ ڈِیل یعنی برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے عمل کو مُلک کے وسیع تر مفاد میں استعمال کرنے کی کوششوں پر مرکوز رہی، لیکن وہ ناکام رہیں۔ برطانوی پارلیمان نے ان کی کوششوں کو تسلیم نہیں کیا اور وہ استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئیں۔ انہوں نے 10ڈائوننگ اسٹریٹ میں واقع اپنی رہایش گاہ کے باہر گلو گیر لہجے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’وزیرِ اعظم بننے کے بعد میری کوشش رہی کہ بریگزٹ چند افراد کو فائدہ نہ دے، بلکہ سب کے لیے ہو۔‘‘ اس موقعے پر انہوں نے اعتراف کیا کہ اُن کے لیے شدید پشیمانی کی بات یہ ہے کہ وہ بریگزٹ نہیں کروا سکیں۔ مسز مے نے توقّع ظاہر کی کہ شاید نیا وزیرِ اعظم بریگزٹ پر اتفاقِ رائے قائم کروانے میں کام یاب ہو جائے۔ لیکن کیا ان کے جانشین کے لیے یہ کام آسان ہو گا، کیوں کہ اس وقت نہ صرف برطانوی پارلیمان تقسیم ہے، بلکہ حکومتی جماعت، کنزرویٹیو پارٹی کے ارکانِ پارلیمان بھی منحرف ہو چُکے ہیں، جس کی وجہ سے خاتون وزیرِ اعظم کے مستعفی ہونے کی نوبت آئی۔ دوسری جانب اپوزیشن تھریسا مے کو ہٹانے پر تو متفق تھی، لیکن بریگزٹ کے معاملے پر اتفاقِ رائے نہیں رکھتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ برطانوی عوام خود بُری طرح تقسیم ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہ بِلاشُبہ برطانیہ کا سب سے بڑا بُحران ہے، جس سے فوری طور پر نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ فی الوقت برطانیہ کے نئے وزیرِ اعظم کے لیے بورس جانسن کا نام سامنے آ رہا ہے، جو دو مرتبہ لندن کے میئر رہ چُکے ہیں۔ تاہم، مجموعی طور پر 8امیدوار میدان میں ہیں، جن میں پاکستانی نژاد برطانوی وزیرِ داخلہ، ساجد جاوید بھی شامل ہیں۔

ہم نے ابتدا میں یونانی المیے کیا ذکر کیا، جس کی ایک شکل بریگزٹ کی صُورت ہمارے سامنے ہے۔ مغربی ادب سے دِل چسپی رکھنے والے افراد جانتے ہوں گے کہ یونانی المیے کا مرکزی کردار ایک ایسا فرد ہوتا ہے کہ جسے ابتدا ہی سے انتہائی نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اچھا انسان ہوتا ہے، لیکن غلطیوں پر غلطیاں کرتا چلا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ حالات گمبھیر ہوتے چلے جاتے ہیں اور آخر کار وہ مرکزی کردار یا ہیرو شکست سے دو چار ہو جاتا ہے۔ تاہم، وہ جس بہادری اور پامردگی سے نا مساعد حالات کا مقابلہ کرتا ہے، وہ یادگار بن جاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ناساز گار حالات کے بعض عوامل بیرونی ہوتے ہیں اور بعض اس کی غلطیوں سے جنم لیتے ہیں، لیکن بہرحال غلطیاں انسان ہی سے ہوتی ہیں۔ وہ ایک ایسا جال بُنتا چلا جاتا ہے، جس میں ایک روز وہ خود ہی پھنس جاتا ہے۔ بریگزٹ بھی وہ جال ہے، جسے برطانوی قوم نے خود اپنے لیے تیار کیا اور اب ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں پھنستی چلی جا رہی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ کسی سیاسی رہنما کے پاس اس سے نکلنے کا کوئی راستہ بھی موجود نہیں۔

بریگزٹ کے بیرونی مخالفین میں یورپی یونین شامل ہے، جو برطانیہ کے یورپی اتحاد سے نکلنے کی وجہ سے غم و غصے میں ہے، کیوں کہ اس کے سبب یہ اتحاد خطرات سے دو چار ہو گیا ہے۔ بریگزٹ المیے کا پہلا شکار ڈیوڈ کیمرون تھے، جو 2010ء سے 2016ء تک برطانیہ کے وزیرِاعظم رہے۔ اُنہوں نے ہی اپنے دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں اپنے وعدے کی تعمیل میں بریگزٹ پر ریفرنڈم کروایا تھا، کیوں کہ تارکینِ وطن کے خلاف برطانوی عوام کی شکایات حد سے تجاوز کر گئی تھیں۔ خیال رہے کہ مختلف یورپی ممالک سے برطانیہ نقلِ مکانی کرنے والے تارکینِ وطن کی تعداد کم و بیش 30لاکھ ہے، جنہیں ایک عام برطانوی شہری کی طرح تمام مراعات حاصل ہیں۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ کیمرون برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کے شدید مخالف تھے، لیکن وہ اپنی تمام تر سیاسی کام یابیوں کے باوجود عوام کے ووٹ کے سامنے شکست کھا گئے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ریفرنڈم کا مطالبہ درست تھا، تو کیا اس کا وقت بھی دُرست تھا؟ یاد رہے کہ سیاست میں وقت کا کردار اہم ہوتا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے 2010ء میں اُس وقت ایک کم زور اتحادی حکومت کی سربراہی سنبھالی تھی کہ جب اُن کا مُلک شدید اقتصادی بُحران کا شکار تھا۔ کیمرون نے بڑی جاں فشانی سے مُلک کو اس بُحران سے نکالا اور تب ماہرین کا یہ کہنا تھا کہ برطانیہ اگلے 10برس میں یورپ کی سب سے مضبوط معیشت، جرمنی کے مقابل آ جائے گا۔ کیمرون کی اس کارکردگی کے نتیجے میں برطانوی عوام نے 2015ء میں انہیں بھاری اکثریت سے دوبارہ منتخب کیا اور ایک طویل عرصے بعد کنزرویٹیو پارٹی کسی دوسری جماعت سے اتحاد کیے بغیر اپنی حکومت بنا سکی۔ پھر انہوں نے سب کچھ پس پُشت ڈال کر 2016ء میں بریگزٹ پر ریفرنڈم کروانے کا فیصلہ کیا، جو اُن کی ایک بہت بڑی غلطی ثابت ہوئی۔ اس ریفرنڈم میں نہ صرف ڈیوڈ کیمرون کو شکست ہوئی، بلکہ وہ وزارتِ عظمیٰ کے عُہدے سے مستعفی ہو کر برطانیہ کے سیاسی منظر نامے سے بھی آئوٹ ہو گئے۔ بے بسی کے عالم میں 10ڈائوننگ اسٹریٹ سے اُن کی روانگی کے مناظر آج بھی آنکھیں نم کر دیتے ہیں۔

بریگزٹ کا المیہ
تھریسامے وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے

ایک نازک مرحلے پر ڈیوڈ کیمرون کے مستعفی ہونے سے برطانوی سیاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ اس کے بعد کنزرویٹیو پارٹی ہی سے تعلق رکھنے والی تھریسا مے نے وزارتِ عظمیٰ کا عُہدہ سنبھالا۔ گرچہ انہوں نے بھی اپنے پیش رَو، کیمرون کی طرح بریگزٹ کی شدید مخالفت کی تھی، لیکن وزیرِ اعظم بننے کے بعد پہلے دن ہی انہوں نے عوامی رائے کے سامنے سَر جُھکا دیا اور برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کو عملی شکل دینے کے لیے پورے خلوص اور لگن سے مذاکرات میں مصروف ہو گئیں۔ 28یورپی ممالک کے رہنمائوں سے مذاکرات کرنا جُوئے شِیر لانے کے مترادف تھا، کیوں کہ انہوں نے یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ برطانوی عوام کو اُن کی غلطی پر ضرور سبق سکھائیں گے۔ اس ضمن میں یورپی رہنما کام یاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، جب کہ تھریسا مے سے پے درپے سیاسی غلطیاں ہوئیں۔ جب وہ وزارتِ عظمیٰ کے عُہدے پر فائز ہوئی تھیں، تو تب برطانوی پارلیمنٹ میں کنزرویٹیو پارٹی کی اکثریت تھی، لیکن انہوں نے یورپی یونین سے مذاکرات میں مضبوط پوزیشن حاصل کرنے کے لیے نئے انتخابات کروانے کو ترجیح دی اور 2017ء میں ہونے والے وسط مدّتی انتخابات میں اکثریت کھو بیٹھیں ، نتیجتاً ایک کم زور اتحادی حکومت بنانے پر مجبور ہوگئیں۔ قبل از وقت انتخابات کے نتائج نے تھریسا مے کو اندرونی و بیرونی طور پر کم زور کر دیا اور ان کی اپنی پارٹی ہی میں ان کی قائدانہ صلاحیتوں پر نہ صرف سوالات اُٹھنے لگے، بلکہ یہ تک کہا جانے لگا کہ برطانیہ کو نئی قیادت کی ضرورت ہے۔

تھریسا مے نے یورپی یونین سے دو سال تک مذاکرات کیے اور دو مرتبہ معاہدے کی شرائط طے کیں۔ گزشتہ برس دسمبر میں جب انہوں نے یہ معاہدہ، جسے ’’بریگزٹ ڈِیل‘‘ کہا جاتا ہے، برطانوی پارلیمان میں پیش کیا، تو انہیں زبردست دھچکا لگا۔ پھر انہیں بریگزٹ ڈِیل پر تین مرتبہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور یورپی یونین سے حتمی معاہدوں کی نہ صرف لیبر پارٹی نے مخالفت کی، بلکہ اس حوالے سے خود ان کی اپنی پارٹی میں بھی بغاوت ہو گئی۔ یعنی ان کی اپنی جماعت کے ارکان نے ہر معاہدے کو مسترد کر دیا۔ پے در پےناکامیاں دیکھتے دیکھتے 29اپریل کا دن آن پہنچا، جو ڈِیل کی آخری تاریخ تھی، لیکن کنزرویٹیو پارٹی کے باغی ارکانِ پارلیمنٹ ٹس سے مس نہ ہوئے، بلکہ وزراء نے استعفے دینا شروع کر دیے، جو اس بات کا اشارہ تھا کہ انہیں تھریسا مے کی قیادت قبول نہیں۔ تاہم، خاتون وزیرِ اعظم نے منّت سماجت کر کے یورپی یونین کو ایک مرتبہ پھر لچک دکھانے پر آمادہ کر لیا اور یہ طے ہوا کہ اکتوبر تک بریگزٹ کی حتمی ڈِیل ہو جانی چاہیے، وگرنہ برطانیہ کو پھر کسی معاہدے کے بغیر ہی یورپی یونین سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔ یہ عمل اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف تھا اور اس کے بعد جو شرائط تھریسامے نے پارلیمان کے سامنے رکھیں، اُن کی مزید ارکان نے مخالفت کی، جو ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ نتیجتاً، انہوں نے 7جون کو عُہدہ چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔

بریگزٹ کا المیہ
برطانیہ کی وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں شامل امیدواران

یہ بریگزٹ ڈراما اور اس کے المیہ کردار شیکسپیئر کے ایک ڈرامے کی یاد دلاتے ہیں۔ شیکسپیئر کے اس ڈرامے کے ایک کردار بروٹس کا تعلق قدیم روم سے تھا اور روم کی جمہوری روایات کو یورپی و مغربی تہذیب میں ماں کی حیثیت حاصل ہے۔ بروٹس، بادشاہِ روم یعنی سیزر کا عزیز ترین دوست تھا۔ بادشاہ کے بعض اقدامات پر رومی سینیٹ نے اُسے تخت سے ہٹانے بلکہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا، کیوں کہ تب قتل کر کے ہی بادشاہ کو ہٹا یا جا سکتا تھا۔ سیزر کو قتل کرنے کی ذمّے داری اُس کے عزیز ترین دوست، بروٹس کو سونپی گئی، جو اُس وقت بادشاہ کے خلاف ہو چُکا تھا۔ بروٹس نے جب سیزر کے سینے میں خنجر اُتارا، تو وہ اپنے عزیز دوست کی طرف دیکھتا رہ گیا اور صرف یہ کہہ کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا کہ ’’ بروٹس…یوٹو‘‘ ( بروٹس !تم بھی دشمن ہو گئے )۔ شیکسپیئر کے اس ڈرامے کی طرح تھریسا مے کی کنزرویٹو پارٹی کے ارکان نے بھی بروٹس کا کردار ادا کیا، جس نے اُن کے سیاسی کردار کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ اسی لیے انہوں نے استعفیٰ دیتے ہوئے بڑے کرب سے کہا کہ ’’مَیں جلد ہی وہ کام چھوڑ دوں گی، جس پر مُجھے فخر تھا۔ مَیں اس مُلک کی خدمت کرنے پر خوش ہوں، جس سے مَیں محبت کرتی ہوں۔‘‘ لیکن اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ وزیرِ اعظم کی حیثیت سے تھریسا مے سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں۔ سب سے پہلے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے بریگزٹ جیسے تقسیم کرنے والے ریفرنڈم کے بعد برطانوی قوم کو یک جا کرنے کی کوشش نہیں کی، حالاں کہ ایسا کرنا بہت ضروری تھا اور پھر ویسے بھی بریگزٹ کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان مارجن کا فرق بہت کم تھا۔ اس کے برعکس وہ کسی منصوبہ بندی کے بغیر ہی جذباتی انداز میں بریگزٹ پر عمل درآمد کروانے میں مصروف ہو گئیں، جو ان کے مطابق عوامی فیصلہ تھا، حالاں کہ اُن کی اپنی جماعت میں یورپ کے ساتھ جُڑے رہنے کے کئی حامی موجود تھے اور کوئی بھی قدم اُٹھانے سے پہلے انہیں مطمئن کرنا بہت ضروری تھا۔ مثال کے طور پر وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار، بورس جانسن بریگزٹ مخالف رہے ہیں۔ برطانوی ارکانِ پارلیمنٹ کی رائے یہ ہے کہ بہتر شرائط پر بریگزٹ ممکن ہے، لیکن نا اہلی یا کسی سازش کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو رہا، جب کہ دوسری رائے یہ ہے کہ ووٹ کا مارجن اس قدر کم اور مشکلات اتنی زیادہ ہیں کہ اب بھی بریگزٹ کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ یعنی بریگزٹ کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان بُعد المشرقین پایا جاتا ہے۔ اس خلیج کو پاٹنے کی ضرورت تھی، لیکن تھریسا مے اس کی سنگینی کا احساس نہ کر سکیں اور سلسلے میں انہوں نے کوئی خاطر خواہ کوشش بھی نہیں کی، جو ان کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب بنی۔ اسی طرح جب پارلیمان میں تین مرتبہ اُن کے معاہدے کو مسترد کیا گیا، تو انہیں پارٹی کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا، لیکن تھریسا مے اس حوالے سے بھی ناکام رہیں کہ صرف اپنے قریبی مشیروں پر بھروسا کرتی رہیں، حالاں کہ سیاست میں صرف خلوص و ایمان داری سے کام یابی ممکن نہیں، دائو پیچ بھی آنے چاہئیں۔ تھریسا مے اپنے حمایتیوں کو اعتماد میں لیے بغیر پارلیمان سے ووٹ مانگتی رہیں، جس کی وجہ سے ان کے ارکان بد دل ہو کر ان کے خلاف ہو گئے اور پھر مئی میں 10ڈائوننگ اسٹریٹ پر خطاب کی نوبت آ گئی۔ اسی طرح مڈ ٹرم انتخابات بھی اُن کی ایک بڑی غلطی تھی، جس نے اُن کی پارٹی کی کم زوری عیاں کر دی۔

اس صورتِ حال سے تھریسا مے اس قدر دل برداشتہ ہوئیں کہ انہوں نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا، لیکن 7جون کو عُہدہ چھوڑنے کی تاریخ کا اعلان اس لیے کیا گیا کہ اس سے قبل امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ برطانیہ کے موقعے پر انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے وزیرِ اعظم کی موجودگی ضروری تھی۔ تاہم، اہم سوال یہ ہے کہ کیا تھریسا مے کا جانشین بریگزٹ کے عمل کو فوری طور پر نتیجہ خیز بنا سکے گا۔ نیز، کیا ایک منقسم قوم متّحدہو کر اکتوبر کی حتمی تاریخ تک یورپی یونین سے اپنے مطالبات منوا سکے گی۔ بریگزٹ کے معاملے پر برطانیہ میں پائی جانے والی تقسیم کی شدّت کا اندازہ اس اَمر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیرِ اعظم کے عُہدے کے لیے 8امیدوار ہیں، جب کہ اس کے برعکس تھریسا مے متفقہ انتخاب تھیں اور ڈیوڈ کیمرون کا صرف ایک حریف تھا۔ ان امیدواروں میں دو قسم کی رائے رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ پہلی رائے کے حامل امیدواروں کا ماننا ہے کہ چُوں کہ برطانیہ ایک بڑی طاقت ہے، اس لیے یورپی یونین برطانیہ کی شرائط پر معاہدہ کرے، جب کہ دوسری رائے کے مطابق معاہدہ نہ ہونے سےبرطانیہ یورپ ہی سے نہیں، بلکہ دُنیا سے بھی کٹ جائے گا اور برطانوی معیشت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتّب ہوں گے۔ 

تازہ ترین