• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں جمہوری روایات کے بارے میں روز ہی کچھ نہ کچھ سننے میں آتا ہے، پچھلے پانچ سال کے ہیجان انگیز عرصے میں اس جمہوری عمل کی کشتی کو کئی بار بیچ منجدھار ڈبونے کی کوششیں کی گئیں مگر اس بار پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے ماضی سے سیکھے سبق کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کی حکومتوں کے تختے الٹنے کی سازش کرنے کی بجائے جمہوری عمل کے تسلسل کی خاطر کئی بار ایسے سمجھوتے بھی کئے جو شاید کسی اور وقت پر ممکن نہ ہوتے۔ یہ سیاسی قیادت کی بالغ نظری ہی تھی کہ پاکستان میں جمہوریت کے خلاف بارہا اٹھائے جانے والے طوفان کے ہوتے ہوئے بھی اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے کوہیں۔
نوے کی دہائی میں جس سیاسی چپقلش کا آغاز پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کیا تھا وہ اس دور میں بھی جاری رہی، پنجاب میں مرکز کی جانب سے گورنر راج اور نواز شریف کا عدلیہ بچاؤ لانگ مارچ اور میموگیٹ سکینڈل کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواستیں اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔ لیکن اس سرسری مخالفت اور سیاسی بیان بازی کے علاوہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے موجودہ مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے جس صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ واقعی قابل ستائش ہے۔
اس ایکشن سے الیکشن کے کامیاب سفر کے نتائج بھی یقینا جمہوریت کیلئے خوش آئند ہوں گے۔ لیکن پاکستان میں حقیقی جمہوریت پانے کے لئے ابھی مزید بہت جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو جو قومی سطح پر سیاست کرنا چاہتی ہیں اپنی جماعتوں کو عوام تک لے کر جانے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کا عمل صرف الیکشن اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلی کے پانچ سال مکمل کر لینے کا ہی نام نہیں ہے۔ دراصل جمہوریت کا مقصد طاقت کو عوام کی سطح پر لے جانا ہے، جہاں عوام ان افراد کو اپنے ووٹ کی طاقت سے منتخب کریں جو ملکی مسائل سے نبرد آزما ہونے کی بہتر صلاحیت اور حوصلہ دونوں رکھتے ہوں۔
میری رائے میں گزشتہ پانچ سالوں میں پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اس عمل میں ناکام رہی ہیں، سیاسی نعروں اور دعوؤں سے قطع نظر پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن آج پانچ سال بعد بھی پارٹی کی تنظیم سازی کے اعتبار سے اسی پوزیشن پر کھڑے ہیں جہاں وہ 2008 کے انتخابات کے وقت تھیں۔ یعنی ان پانچ سالوں کی جمہوریت کا دونوں سیاسی جماعتوں کی تنظیم سازی پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ اس کی تازہ ترین مثال موجودہ دنوں میں لگنے والی سیاسی الیکٹ ایبلز کی منڈی ہے۔ صرف پچھلے چند دنوں میں ہی نہ صرف پاکستان مسلم لیگ ن بلکہ پیپلز پارٹی نے بھی ملک کے مختلف علاقوں سے ایسے ہیوی ویٹ افراد کو اپنی پارٹیوں میں شامل کرنا شروع کر دیا ہے جو ان کے خیال میں اپنے علاقوں میں اتنا اثر ورسوخ رکھتے ہیں کہ اپنی سیٹ جیت کر پارٹی کے نمبرز میں اضافہ کر دیں۔ ان افراد کی شمولیت کے لئے موجود واحد شرط ان کا سیاسی اثر و رسوخ اور انتخاب میں کامیا بی کی صلاحیت ہے نہ کہ پارٹی کے لئے ان کی خدمات۔ اگر پاکستان میں جمہوری عمل کو مضبوط کرنا مقصود ہے تو اس electability کے مسئلے سے سیاسی جماعتوں کو جان چھڑانا ہوگی۔ اس کے بغیر ایک نہیں دس اسمبلیاں بھی اپنی مدت پوری کر لیں تب بھی حکمرانی کا حق درست انداز میں عوام تک نہیں پہنچ پائے گا۔
سیاسی جماعتوں کوچاہیے کہ وہ الیکشن میں کامیابی کے لئے شارٹ کٹ اختیار کرنے کی بجائے اپنی پارٹیوں کی تنظیم سازی میں زیادہ دلچسپی لیں۔ جس قدر محنت اور لگن سیاسی قائدین ان electables کو اپنے طرف مائل کرنے میں لگاتے ہیں اگر اتنا ہی وقت اور دلچسپی اپنی پارٹیوں کی یونین کونسل کی سطح پر تنظیم سازی پر لگائیں تو نہ صرف اس سے ان کی اپنی جماعتوں کو فائدہ ہوگا بلکہ سیاسی نظام پر بھی اس کے بہت مثبت اثرات ہوں گے۔ جب سیاسی جماعتیں خود کو گلی، محلے اور تحصیل کی سطح تک لے جائیں گی تو لا محالہ سیاسی جماعتوں کوبھی الیکشن کے وقت ٹکٹ تقسیم کرتے ہوئے اس حلقے میں موجود تنظیم سے مشاورت کرنا ہوگی، اس عمل سے بہت سے ایسے افراد کی چھانٹی خودبخود ہو جائے گی جو عوام کی خدمت کی خاطر نہیں بلکہ حکمرانی کی خاطر انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں یونین کونسل کی سطح پر عوام کی شمولیت سے عوام خود بھی سیاسی عمل کا ایک ایسا حصہ بن جائیں گے جو کہ نہ صرف ووٹرز ہوں گے بلکہ پارٹی میں سٹیک ہولڈر بھی ہوں گے۔ محلے اور گلی کی سطح پر سیاسی جماعتوں کی پالیسی پہنچانے سے نہ صرف عوام اپنے لئے بہتر افراد کو چن سکتے ہیں بلکہ سیاسی جماعتیں بھی عوام کے فیڈ بیک کی مدد سے اپنے منشور میں ردوبدل کر سکتی ہیں۔ اگر ایک پارٹی کے کارکن اپنے حلقے کے لئے پارٹی کے نامزد کئے گئے امیدوار سے مطمئن نہ ہوں تو وہ اپنی پارٹی سے امیدوار کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
پارٹیوں کی بہتر تنظیم سازی سے سیاسی جماعتوں میں بہت سے ایسے افراد بھی شامل ہو جائیں گے جوموجودہ سیاسی نظام سے صرف اس لئے متنفر ہیں کہ اس سیاسی نظام میں جیت صرف ذات، برادری، مسلک اور پیسے کے بل بوتے پر حاصل کی جاتی ہے۔ ان افراد کی شمولیت سے پارٹی کے قائدین کے لئے آغاز میں تو شاید کچھ مشکلات ہوں کیونکہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں قائدین کی حکمرانی کو کوئی چیلنج نہیں کرتا لیکن اس تنظیم سازی کا فائدہ سیاسی جماعتوں کو ڈائی ہارڈ پارٹی ورکرز کی صورت میں ملے گا۔ یہ وہ سیاسی ورکرز ہوں گے جو اپنی جماعتوں کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔ اگر ہر یونین کونسل کی سطح پر سیاسی جماعتوں کے پاس ایسے سو افراد بھی ہوں تو مستقبل میں جمہوریت کا تختہ الٹنے والے ہر آمر کے لئے سیاسی کارکنان کی ایک فوج موجود ہوگی جو کہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کے ضامن ہوں گے۔ پھر ہی ہم کہہ سکیں گے کہ اب ملک میں حقیقی معنوں میں جمہوریت آگئی ہے۔
تازہ ترین