• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مبالغہ آرائی شاید ہمارے DNAمیں شامل ہے اور یہ صرف ہمارے شاعروں تک ہی محدود نہیں۔ اعداد و شمار والوں تک لامحدود ہے مثلاً ایف بی آر نے ایک عجیب و غریب بیان داغا ہے، فرماتے ہیں’’22کروڑ آبادی میں سے 20لاکھ ٹیکس دہندگان ہیں۔ بجلی کے کمرشل کنکشن رکھنے والے 31لاکھ تاجروں میں سے 90فیصد ٹیکس سسٹم سے با ہر ہیں۔‘‘جس 22کروڑ کا ذکر کیا گیا اس میں تقریباً 51فیصد تو خواتین بلکہ ’’خواتین خانہ‘‘ ہیں۔ بچوں، ٹین ایجرز، بے روزگاروں، بوڑھوں، بیماروں وغیرہ وغیرہ کو نکال دیا جائے تو باقی کیا رہ جاتا ہے؟ مشورہ یہ ہے کہ پہلے اپنے اعداد و شمار درست کرلیں، پھر حساب لگائیں تو شاید صورتحال اتنی مایوس کن نہ ہو جتنی دکھائی دیتی ہے۔رہ گئی یہ حقیقت کہ بجلی کے کمرشل کنکشن رکھنے والے 31لاکھ میں سے 90فیصد ٹیکس سسٹم سے باہر ہیں تو اس میں واقعی کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں ٹیکس کی ادائیگی کی اہمیت کا شعور ہی موجود نہیں تو بندہ پوچھے اور کس معاملہ میں باشعور ہونے کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جو ٹیکس کی ادائیگی کے سلسلہ میں کیا جائے؟’’انسان سازی‘‘ میرے فیورٹ ترین موضوعات میں سے ایک ہے اور یہ کام ہوتا ہے تعلیم و تربیت سے اور تعلیم دینا ذمہ داری ہے ریاست کی جس میں وہ بری طرح ناکام رہی تو رونا کیا؟ ہر جاہل آدمی اس ناکامی کا چلتا پھرتا زندہ ثبوت ہے۔ اس ملک کی اشرافیہ نے جان بوجھ کرعوام کو تعلیم سے محروم رکھا تاکہ وہ شعور سے محروم رہیں اور بدترین لوگوںکو منتخب کرتے ہوئے بھی عرق ندامت سے بچے رہیں اور جہالت کے سبب مائنڈ سیٹ ان کا یہ ہو کہ اپنے پسندیدہ کرپٹ لوگوں کے دفاع میں یہ شرمناک دلیل دیں کہ .......’’کھاتے ہیں تو کچھ لگاتے بھی تو ہیں‘‘ جان بوجھ کر عوام کو تعلیم یعنی شعور سے دور رکھ کر تقریروں میں انہیں باشعور بتا کر بے وقوف بناتے رہے تو اپنے ہی عوام کے خلاف اس ’’سازش‘‘ کی کوئی نہ کوئی قیمت تو چکاناہی پڑنی تھی۔ آج اشرافیہ کو سروائیول کی پڑی ہے تو میں کہتا ہوں......... ہور چوپو، ہور چوپو، ہو چوپو۔عوام کو ’’تعلیم سے محروم رکھ کر’’تربیت‘‘ ان کی یوں کرتے ہیں کہ ’’مقدس‘‘ ایوانوں کو مچھلی منڈیاں بنادیتے ہیں، آپس میں گتھم گتھا ہوتے ہیں۔ بےسری تعلیم یا کوئی تعلیم نہیں کے کریلے جب گتھم گتھا والی تربیت کی نیم پر چڑھیں گے تو نتیجے بھی ایسے ہی نکلیں گے جیسے نکل رہے ہیں۔ احمق اشرافیہ کا خیال تھا کہ خود غرضی کے کانٹوں کی فصل کاشت کرکے گلابوں کی فصل سے عرق گلاب تیار کریں گے تو اب ماتم کرو یا موج کرو۔اک مدت سے لکھ رہا ہوں کہ انسان سازی پر توجہ دو، ان کا خیال ہوگا شاعری کررہا ہے، بےتکی ہانک رہا ہے۔ اک عرصہ سے عرض کررہا ہوں کہ اس ملک کا مسئلہ اقتصادیات نہیں، مردہ مسخ شدہ اخلاقیات کا ہے لیکن مجال جو کبھی کسی ’’منتخب چنڈال‘‘ کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جس دن لوگوں کو جینوئن تعلیم ملی، تمہیں ٹیکس بھی مل جائے گا لیکن دوسری پرابلم یہ ہوگی کہ ان جیسوں کو ووٹ نہیں ملے گا جن جیسے مدتوں سے عوام کی گردنوں پر سوار ہیں۔ یہ ٹیکس کو روتے ہیں حالانکہ صورتحال اس سے کئی گنا زیادہ ابتر اور گمبھیرہے جو انہیں سمجھ نہیں آئے گی۔ذرا غور سے سنو کہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جیسی مزاحیہ وزارت کی اربوں روپے کی زمینوں پر بھی قبضہ گروپوں کے قبضے ہوچکے ہیں۔ اخلاقیات کی موت کا منظر دیکھنا تو دیکھو کہ لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے ٹائون شپ کے ایک پرائیویٹ سٹور میں چھاپہ مار کر رمضان بازاروں میں فروخت ہونے والی 4000کلو سبسڈائزڈ چینی برآمد کرلی ہے جس پر سٹور اور اس کا گودام سیل کردیا گیا ہے۔مزید سوچو کہ رمضان المبارک میں غریب روزہ داروں کے حق پر ڈاکہ مارنے والوں نے بھی روزے رکھے ہوں گے، نمازیں بھی پڑھی ہوں گی، ثواب کی بوریاں بھی بھری ہوںگی تو یہ بھیانک تضاد، بےحسی، بے رحمی اور بے غیرتی نہیں........بےشعوری ہے، اخلاقیات کا اس بری طرح مسخ ہونا ہے کہ اچھے برے کی تمیز کرنا ہی ممکن نہیں رہتا۔صدقے جائوں ان لوگوں کے جوسائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت کی زمینوں پر قبضے کرنے والوں اور روزے رکھ کر غریب روزہ داروں کے حصے کے نوالے چھیننے والوں سے ٹیکس وصولی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ کیسی سیانی اشرافیہ ہے جو چیلوں کے گھونسلوں سے ماس ڈھونڈ رہی ہے، یہ ریت سے پانی نچوڑنے کے تجربے کررہے ہیں تو یقین رکھیں انہیں پیاس کی مشکوں اور مٹکوں کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی کہ ’’صرف‘‘22کروڑ ہیں، دس سال بعد کی سوچو یہاں کس بھائو بک رہی ہوگی؟ اور مجرم وہ ہوں گے جنہوں نے اپنوں کو شودر سمجھ کر شعور سے محروم رکھا اور شعور جہیز یا بری میں نہیں ملتا......... عمدہ تعلیم اور تربیت سے ملتا ہے۔ تم نے جنہیں شہری کی بجائے رعایا سمجھا اور مرضی سے ہانکتے رہے، آج ٹیکس نہیں دے رہے تو قصور کس کا ہے؟اب سمجھائو انہیں کہ ٹیکس چوری کرنا اپنے ہی گوشت کے قورمے اور کباب کھانے کے مترادف ہے لیکن شاید اب تمہارے پاس وقت نہیں اور ہاں نابغہ یہ نہ سوچے کہ پڑھے لکھے بھی تو ٹیکس نہیں دیتے کیونکہ ٹیکس کسی خاص رقم کی ادائیگی نہیں، اک کلچر کا نام ہے، اکثریت اس طرف آجائے تو اقلیت مجبور ہوجاتی ہے۔

تازہ ترین