• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے عوام عجیب و غریب کشمکش میں مبتلا ہیں، ان کا جینا اور مرنا دونوں مشکل ہو گئے ہیں۔ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو عام آدمی کو درپیش نہ ہو۔ مہنگائی اور غربت میں تیز تر اضافے سے وہ حالات پیدا ہو رہے ہیں جو کسی بھی حکومت کیلئے اطمینان بخش نہیں ہونے چاہئیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت معاملات کو اپنے قابو میں نہیں کر سکی۔ کوئی ہے جو حالات کو اس طرف دھکیل رہا ہے۔ جہاں لوگوں کے پاس کوئی راستہ نہیں ہو گا کہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں۔

گزشتہ 11ماہ میں بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، پانی، دواؤں، اشیائے خورونوش اور بنیادی ضروریات کی دیگر چیزوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ 20سے 40فیصد ہے۔ اگر کسی چیز میں اضافہ نہیں ہوا تو وہ لوگوں کی تنخواہوں اور آمدنی میں نہیں ہوا۔ لوگ جو تنخواہیں حاصل کر رہے ہیں یا ان کی جو باقاعدہ آمدنی ہے، روپے کی قدر کم ہونے سے ان میں کمی ہوئی ہے۔ نجی شعبہ بڑے پیمانے پر لوگوں کو نوکریوں سے نکال رہا ہے یا ان کی پہلے سے طے شدہ تنخواہوں میں کٹوتی کر رہا ہے۔ احتساب اور پکڑ دھکڑ نے معیشت کو سست روی کا شکار کر دیا ہے۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ لوگ اپنے کاروبار سمیٹ رہے ہیں اور وہ کسی بھی قانونی یا غیر قانونی طریقے سے اپنا سرمایہ ملک سے باہر لےجانا چاہتے ہیں۔ نہ صرف روزگار کے مواقع ختم ہو گئے ہیں بلکہ لوگ بے روزگار بھی ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں بیماریوں کا علاج ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ ٹرانسپورٹ بھی بہت مہنگی ہو گئی ہے۔ دولت مند لوگوں کے سوا اکثر لوگوں کو ہر وہ مسئلہ درپیش ہے، جو زندگی کو عذاب بنا دیتا ہے یا زندگی سے اطمینان چھین لیتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومتی ٹیم کو زمینی حقائق کا علم ہی نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے ساتھ جو بیورو کریٹس اجلاس میں بیٹھتے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ اعلیٰ عہدیداران اجلاسوں میں کبھی اپنا ’’ ان پٹ‘‘ نہیں دیتے ہیں اور نہ ہی بیورو کریٹس کی بنائی ہوئی پالیسیوں پر کوئی سوال کرتے ہیں۔ بیورو کریسی تحریک انصاف کے حکومتی عہدیداروں کو ان کے اپنے بیانیے میں ’’ ٹریپ‘‘ کرتی ہے کہ ’’حالات کی بہتری کےلئے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے‘‘۔ ماضی کی سیاسی حکومتیں، جنہیں تحریک انصاف والے کرپٹ کہتے ہیں، ایسے مشکل فیصلوں کے خلاف مزاحمت کرتی تھیں اور اپنا وژن دیتی تھیں تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ تحریک انصاف کے حکمرانوں کی یہ سیاسی اپروچ ہی نہیں ہے کیونکہ انہیں حکومت کا تجربہ نہیں ہے۔ تحریک انصاف میں جن لوگوں کو تجربہ ہے، ان کی بات نہیں سنی جاتی اور اب تو اہم حکومتی عہدوں پر تحریک انصاف کی اپنی ٹیم کے لوگ بھی نہیں رہے۔

اس صورتحال میں کچھ نئے عوامل بھی شامل ہو رہے ہیں۔ ایک طرف تو معاملات تحریک انصاف کی حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ دوسری طرف اس پر سیاسی دباؤ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں حکومت کیخلاف صف آراء ہو رہی ہیں اور احتجاجی تحریک چلانے کا عندیہ دے رہی ہیں۔ یہ سب کچھ لوگوں کی توقع سے پہلے ہو رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت سے پہلے ہی ایسے حالات بن گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو کرپٹ کہہ کہہ کر انہوں نے عوام میں ان سیاسی جماعتوں کی ساکھ خراب کر دی ہے۔ اب یہ سیاسی جماعتیں کوئی تحریک نہیں چلا پائیں گی اور عوام بھی ان پر اعتماد نہیں کرینگے۔ میں نے سیاست اور تاریخ کو پڑھا اور ساری زندگی سیاست کی ہے۔ ہم نے ہمیشہ معاشی، سماجی اور سیاسی حالات کو دیکھ کر اندازہ لگایا ہے کہ عوام کیا سوچ رہے ہیں اور کیا کرنے والے ہیں۔ پہلے بھی کئی مرتبہ ایسا ہوا اور اب بھی یہی ہو گا کہ عوام سیاسی جماعتوں کو پیچھے چھوڑ دیں گے اور خود آگے کھڑے ہوں گے۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں عوام کی قیادت کریں یا نہ کریں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس مرتبہ لوگ اس بات کا انتظار نہیں کریں گے اور میں تھوڑے عرصے میں ہی لوگوں کو باہر نکلتا ہوا دیکھ رہا ہوں کیونکہ لوگوں کی بے چینی اور ہیجان کے سارے اسباب موجود ہیں اور معروضی طور پر ’’اسٹیٹس کو‘‘ ٹوٹنے کی ساری نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے کے جو لوگ مشکل فیصلے کراتے ہیں، ان سے کبھی حالات بہتر نہیں ہوتے۔ بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کے ساتھ ساتھ حکومت خود بھی غلطیاں کر رہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو یہ چاہئے تھا کہ وہ احتساب کے عمل کو متنازع ہونے نہیں دیتی کیونکہ وہ خود بے رحمانہ احتساب کا نعرہ لگا کر آئی ہے اگر کسی بھی مرحلے پر تحریک انصاف کے لوگوں کو یہ احساس ہوتا کہ احتساب ایک ایسا ہتھیار ہے، جس سے پاکستان کی سیاست کو کنٹرول کیا جاتا ہے تو بھی وہ اپنے اس احساس کو ظاہر نہ ہونے دیتے اور سب کچھ خاموشی سے برداشت کرتے لیکن تحریک انصاف کے لوگوں میں شاید اتنا سیاسی حوصلہ نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب احتساب کا عمل پہلے کی طرح نہیں چل پائے گا اور قومی احتساب بیورو (نیب) پہلے کی طرح کام نہیں کر سکے گا کیونکہ احتساب کا عمل بہت تیزی سے متنازع ہو رہا ہے یا کیا جا رہا ہے۔ یہ بات بھی تحریک انصاف کی حکومت کی بنیادیں کمزور کردے گی۔ یہ سارے عوامل پریشان کن ہیں لیکن سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ غریب عوام کی اکثریت بہت زیادہ پریشان ہے۔ بقول احمد فرازؔ

ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز ؔ

ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا

تازہ ترین