• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کھلاڑیوں کے بعد پاکستانی ادیب بھی ہندوستانی انتہاء پسندوں کی زد میں!

بہت طویل عرصے کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے مابین حالات کے نارمل ہونے کی امید پیدا ہوئی تھی۔ ہمارے سیاستدانوں کے علاوہ ہماری فوج کے نقطہ نظر میں بھی واضح تبدیلی محسوس کی جا رہی تھی، حالانکہ ماضی کے ایک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی ان تمام کوششوں کو اپنی ایک سازش سے خاک میں ملا دیا تھا جنہیں واجپائی کی مینار پاکستان پر حاضری دینے اور پھر اس حوالے سے دونوں پڑوسی ممالک کے باہمی تنازعات حل ہونے کے ضمن میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا تھا۔ اس کے بعد یہ کوششیں دوبارہ شروع ہوئیں، ”امن کی آشا“ کے نام سے جنگ گروپ اور ٹائمز آف انڈیا نے بھی باہمی رنجشوں میں کمی لانے کے لئے اہم کردار ادا کیا تاکہ برصغیر کے لوگ ایک اچھے ہمسائے کی طرح امن اور سکون سے رہ سکیں اور جو کھربوں روپے دفاع کے نام پر خرچ کئے جاتے ہیں، وہ دونوں ملکوں کے غریب عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کئے جا سکیں لیکن لگتا ہے کہ ہندوستان کی انتہاء پسند جماعتیں، ہندوستانی میڈیا اور ہندوستانی فلمیں برصغیر میں امن اور تنازعات کے حل کا خواب پورا نہیں ہونے دیں گی!
ہندوستان کے وزیر داخلہ نے برملا اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بی جے پی اور راشٹریہ سیوک سنگ دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں ملوث رہی ہیں جن میں کئی پاکستانی اور ہندوستانی مسلمان شہید ہوئے، گجرات کا ٹھیا وارمیں مسلمانوں کا قتل عام بھی ابھی کل کی بات ہے، بابری مسجد کا سانحہ بھی ابھی تک ذہنوں میں زندہ ہے۔ ہندوستانی میڈیا اور ان کی فلمیں پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف مسلسل زہر آلود پراپیگنڈے میں مصروف ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہماری کرکٹ اور ہاکی کی ٹیموں کو بھی دھمکیاں ملتی ہیں، بلکہ اب تو پاکستانی ادیب اور دانشوروں بھی ان دھمکیوں کی زد میں رہنے لگے ہیں۔ اس حوالے سے تازہ ترین خبر ملاحظہ فرمائیں۔ بھارتی جنتا پارٹی کے یوتھ ونگ کے ارکان نے بھارت کے شہر جے پور کے ادبی فیسٹیول میں شریک پاکستانی ادیبوں کی شرکت کے اعلان پر سخت احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ کسی بھی پاکستانی مصنف اور ادیب کو اس فیسٹیول میں شرکت کی اجازت نہیں دیں گے۔ بھارتی جنتا پارٹی کے جنتا پور مورچہ نامی گروپ کے ارکان نے اپنے نائب صدر لکشمی کانت کی قیادت میں احتجاجی جلوس نکالا اور پاکستان کے خلاف نعرہ بازی کی۔ جے پور فیسٹیول کے منتظمین کے مطابق سات پاکستانی ادیبوں جن میں محمد حنیف، فہمیدہ ریاض، ایم اے فاروقی اور محمد اسلم وغیرہ شامل ہیں کو جشن میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ بی جے پی کے یوتھ ونگ نے متعلقہ حکام کو گزشتہ ہفتے جے پور میں لاہور کے اجوکا گروپ کے فنکاروں کو مشہور پاکستانی افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے ڈرامے پیش نہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا!“
چند ماہ قبل اس سے ملتا جلتا واقعہ خود ہمارے ساتھ ہی پیش آ چکا ہے کشور ناہید، شکیل جاذب، عزیر احمد اور راقم الحروف کو اودھے پور کے مضافات میں واقع ایک شہر نارتھ دوانہ میں مشاعرے پر مدعو کیا گیا لیکن ویزے کی ایک تکنیکی غلطی کو بہانہ بنا کر ہمیں اس قصبے سے نکال دیا گیا اور اودھے پور کے ایک ہوٹل میں کڑی نگرانی میں رکھا گیا۔ پاکستانیوں سے نفرت کا یہ زہر انڈین میڈیا اور انڈین فلموں کے ذریعے پھیلایا جا رہا ہے اور دن بدن اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ حالیہ واقعات کی بنیاد کنٹرول لائن کی ان جھڑپوں کو بنایا گیا ہے، جس کے حوالے سے الزام لگایا گیا کہ پاکستانی فوج نے ایک ہندوستانی سپاہی کا گلا کاٹا ہے۔ نجم سیٹھی ہمارے ان تجزیہ کاروں میں شامل ہیں جو نہایت متوازن ذہن کے مالک ہیں، انڈین میڈیا کے زہریلے ہونے کی گواہی انہوں نے بھی دی اور اس کے علاوہ یہ ثابت بھی کیا کہ جو انڈین جرنلسٹ خاتون یہ الزام عائد کر رہی تھی، وہ دو سال قبل خود نیپال کے ایک اخبار میں لکھ چکی ہے کہ کارگل میں ایک ہندوستانی فوجی افسر نے اسے ایک پاکستانی فوجی کا کٹا ہوا گلا دکھایا تھا، پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف جس پیمانے پر نفرت پھیلائی جا رہی ہے اس کا اثر عام ہندوستانی عوام کے رویوں میں بھی نظر آ رہا ہے۔ گزشتہ ماہ غالب انسٹیٹیوٹ دہلی کے زیر اہتمام منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے بعد کشور ناہید، اصغر ندیم سید اور راقم الحروف پاکستان واپس جانے کے لئے دہلی ایئر پورٹ کے لاؤنج میں بورڈنگ کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ وہاں ایک پاکستانی نوجوان سے ملاقات ہوئی جو انڈیا کے کسی دور دراز علاقے میں واقع ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا اور اب چھٹیاں گزارنے واپس پاکستان جا رہا تھا۔ وہ اپنے طالب علم دوستوں کے متعصبانہ رویے سے سخت پریشان نظر آتا تھا۔ اس نے بتایا کہ ایک دن وہ یونیورسٹی سے باہر نکلا اور کہیں جانے کے لئے ایک موٹر سائیکل سوار نوجوان سے لفٹ مانگی رستے میں باتوں کے دوران اس نے پوچھا ”تم کہاں کے رہنے والے ہو؟“ اس نے پاکستان کا نام لیا تو نوجوان نے وہیں موٹر سائیکل کو بریک لگائی اور کہا ”اتر جاؤ، میں کسی پاکستانی کو لفٹ نہیں دے سکتا!“
صرف یہی نہیں بلکہ میں محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے خراب حالات کی وجہ سے انڈینز ہمیں حقارت کی نظروں سے دیکھنے لگے ہیں اور ان میں ایک احمقانہ قسم کی حب الوطنی جنم لے چکی ہے۔ گزشتہ ماہ دہلی ایئر پورٹ کے امیگریشن عملے نے صرف ہمارے نہیں بلکہ کرکٹ کے انٹرنیشنل ہیرو انضمام الحق کے ساتھ جس بے قدری اور بے نیازی کا مظاہرہ کیا اس کا مشاہدہ غالب انسٹیٹیوٹ کی کانفرنس میں شرکت کے لئے پاکستان سے دہلی ایئر پورٹ پہنچنے پر ہم نے کیا۔ عملے کی نا اہلی کی وجہ سے ہمیں پچیس پاکستانی مسافر تقریباً دو گھنٹے تک بے بسی کے عالم میں لائن میں کھڑے رہے اور ان میں انضمام الحق بھی تھے جنہیں ہر کوئی پہچانتا تھا، اگر کسی انڈین کھلاڑی کو پاکستان کے کسی ایئر پورٹ پر اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا تو کم از کم اتنا ضرور ہونا تھا کہ امیگریشن کا کوئی افسر اسے اپنے کمرے میں لے جاتا، اسے کافی پیش کرتا اور معذرت کرتا۔ یہاں تو صورتحال یہ تھی کہ جب کھڑے کھڑے پاکستانیوں کی ٹانگیں سن ہو گئیں تو ایک پاکستانی نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا ”بھائی صاحب، ذرا جلدی کریں، ہمارا سامان کب کا آ چکا ہے، کہیں کوئی چیز چوری ہی نہ ہو جائے اس پر امیگریشن افسر نے رعونت سے کہا ”انڈیا میں چور نہیں ہوتے!“ اس سے زیادہ احمقانہ حب الوطنی اور کیا ہو سکتی ہے؟
سو ان حالات ہیں ضروری ہو گیا ہے کہ ہمارے دانشور اور ادیب جہاں پاکستان میں موجود چند مٹھی بھر انتہاء پسندوں کی خبر لیتے رہتے ہیں، حالانکہ انہوں نے کبھی ادبی، ثقافتی اور کھیلوں سے متعلق کسی پروگرام میں رکاوٹ نہیں ڈالی، وہاں انہیں چاہئے کہ وہ طرفین کی انتہاء پسندی کا جائزہ لیں اور ہندوستان کے ادیبوں کے ساتھ مل کر اس کا کوئی حل نکالنے کی کوشش کریں یہ انتہاء پسندی آپ کو انڈیا کے دانشوروں اور ادیبوں میں نہیں ملے گی، وہ سب پاکستانی ادیبوں کی طرح محبت کے سفیر ہیں۔ بلکہ جس طرح ہم اپنے انتہاء پسندوں کی وجہ سے دنیا سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں بالکل اسی طرح انڈیا کے ادیب اور دانشور بھی خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اپنے ہاں کی انتہاء پسندی سے نفرت کرتے ہیں۔ امن کی آشا یکطرفہ کارآمد ثابت نہیں ہو گی۔ یہ احساس دو طرفہ ہونا ضروری ہے!
اور اب آخر میں ظفر اقبال کی تازہ غزل:
اس کا انکار بھی حق میں تھا سراسر میرے
یہ جو حالات ہوئے جاتے ہیں بہتر میرے
وہ کوئی چاند کا ٹکڑا بھی نہیں تھا، لیکن
چاندنی اس کی بچھی رہتی ہے اندر میرے
کون تھا وہ جو رہا اپنے شب و روز میں گم
مر گئے کس کی منڈیروں پہ کبوتر میرے
میں اکیلا تھا سو اس معرکے میں کام آیا
اور پیچھے ہی کہیں رہ گئے لشکر میرے
ڈوبتا بھی نہیں، ساحل پہ اترا بھی نہیں
ناز کرتا ہے سفینے پہ سمندر میرے
اک صدا سی کہیں رکتی ہے مرے پاس آ کر
اک ہوا سی کوئی چلتی ہے برابر میرے
روشنی میں جو مسلسل نہیں رہ سکتا میں
ساتھ ہوتی ہے کوئی شام بھی دن بھر میرے
سوکھ جاتا ہے یہ بہتا ہوا پانی اکثر
اور ہر بار نکل آتے ہیں پتھر میرے
دھیان رکھتا ہوں، ظفر زخم تماشا کا بہت
پھر بھی ٹانکے کئی کھل جاتے ہیں اکثر میرے
تازہ ترین