• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کو معرض وجود میں آئے ساڑھے چھ دہائیاں گزر چکیں لیکن ہمارے ہاں ابھی تک تحریک پاکستان اور قائداعظم کی قیادت کے بعض شعبوں کے حوالے سے بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ ویسے یہ انہونی بات نہیں، ہندوستان میں بھی تحریک آزادی، نہرو اور گاندھی کی شخصیات کے بارے نت نئی باتیں لکھی جارہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہندوستان میں کوئی دانشور یا لکھاری آزادی پر اعتراض نہیں کرتا جبکہ پاکستان میں ایک چھوٹا سا ایسا حلقہ موجود ہے جو قیام پاکستان کا مخالف ہے اور ان کا خیال ہے کہ ہندوستان کو تقسیم نہیں ہونا چاہئے تھا، چنانچہ یہ لوگ بہانے بہانے تحریک پاکستان کے محرکات اور جواز ،پاکستان کی نظریاتی بنیاد اور قائد ا عظم کے حوالے سے شکوک و شبہات پھیلاتے رہتے ہیں۔ ہمارے بعض تیر رفتار مہربان تو اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد ہی تسلیم نہیں کرتے اور فرماتے ہیں کہ پاکستان فقط مسلمانوں کے لئے نوکریوں کا بندوبست کرنے اور مسلمانوں کے کاروباری تحفظات وغیرہ وغیرہ کے لئے حاصل کیا گیا تھا۔ میں نے تحریک پاکستان دیکھی نہ مجھے پاکستان کے بننے کا تجربہ ہوا لیکن میں ان روشن خیالوں کی تحریریں اور گفتگو سن کر سوچنے لگتا ہوں کہ کیا عالمی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت محض نوکریوں اور معاشی مفادات کے لئے ہوئی تھی جبکہ بعض مصنفین اسے ہجرت مدینہ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ دونوں ہجرتوں میں مشترک قدریں بہت سی ہیں کیا لاکھوں عصمتیں اس لئے لٹیں، لاکھوں گھر اس لئے جلے اور لاکھوں لوگ اس لئے شہید ہوئے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی نوکریوں اور کاروباری مفادات کو خطرہ تھا؟ خدا کا خوف کرو بھائی۔ اتنی عظیم قربانی، اتنی عظیم تحریک، اتنے عظیم جذبے، اتنی عظیم منزل اور اتنی عظیم قیادت کی قدروقیمت اتنی نہ گھٹاؤ کہ اسے معاشی مفادات کے تابع کردو۔ کیا لاکھوں لوگ اپنے آبائی گھروں کو اور اپنے آباؤاجداد کی قبروں کو محض نوکریوں اور معاشی آزادی کے لئے چھوڑ کر پاکستان آئے تھے؟ یہ تو کوئی بڑا ہی عظیم جذبہ تھا جس کے لئے لوگوں نے اتنی قربانیاں دیں، اتنا ایثار کیا جس کی تاریخ عالم میں مثالیں خال خال ملتی ہیں۔ یاد کرو شاہ ولی اللہ دہلوی کے خطوط جو انہوں نے ہندوستان کے مسلمان ریاستی حکمرانوں اور طاقتوروں کو لکھے تھے ۔ یہ خطوط اس وقت لکھے گئے جب ہندوستان میں مغل حکومت کے زوال کے بعد مسلمانوں کے وجود کو بے پناہ خطرات لاحق تھے ۔سکھ اور مرہٹے مسلمان نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ میں مصروف تھے۔ ان خطوط کے بنیادی نکتے پر غور کرو کیونکہ یہ سترہویں صدی کا قصہ ہے اور آج اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ بنیادی پیغام فقط یہ تھا کہ ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی بقاء کے لئے مسلمانوں کا کسی نہ کسی حصے میں برسراقتدار رہنا ضروری ہے۔ مطلب یہ کہ مسلمان اگر ہندوستان کے کسی بھی علاقے میں حکمران ہوں گے تو وہ سارے ہندوستان میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے لئے باعث تقویت ہوں گے۔ اسی جذبے کے تحت شاہ عبدالعزیز سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید کی سربراہی میں جہاد کی تحریک شروع کی گئی اگر یہ تحریک اپنوں کے ہاتھوں صوبہ سرحد میں ختم نہ کردی جاتی تو اس کا اگلا ہدف پنجاب تھا جہاں رنجیت سنگھ نے مسلمانوں کو محکموم بنا کر ان پر مذہبی آزادی کا ناطقہ بند کر رکھا تھا حتیٰ کہ مساجد میں اذان کی آزادی بھی چھین لی گئی تھی اور شاہی مسجد لاہور کو اصطبل میں بدل دیا گیا تھا۔ ہے جرم ضعیفی کی سزا، مرگ مفاجات۔ بہرحال شاہ ولی اللہ کے خانوادے کی سربراہی میں شروع کی گئی تحریک جہاد نے انگریزوں کو بھی نکالنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا لیکن اپنوں کی غداری نے اس کا شعلہ بجھا دیا۔ 1757ء میں بنگال میں سراج الدولہ کی شکست، 1799ء میں ٹیپو کی شہادت اور1731ء میں سید احمد شہید اور سید اسماعیل شاہ کی سربراہی میں شروع کئے گئے جہاد کو بالا کوٹ کے مقام پر ایک صدی کے بعد1831ء میں خاتمہ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں کیونکہ اس سب کی شکست اپنوں کی غداری کا شرمناک کارنامہ تھا۔ میر جعفر نے پلاسی کے میدان میں انگریزوں کے ساتھ مل کر غداری کرکے مسلمانوں کو بنگال کی حکمرانی سے محروم کردیا، میر صادق نے ٹیپو سے غداری کرکے میسور کی سلطنت کو انگریزوں کی غلامی میں دے دیا اور یار محمد اور سلطان محمد نے رنجیت سنگھ کے ساتھ مل کر مجاہدین سے بالا کوٹ کے مقام پر غداری کرکے تحریک جہاد کی شمع گل کردی۔ چند ہزار انگریزوں نے مسلمانوں کے غداروں کی خدمات سے فائدہ اٹھا کر ہندوستان کی مسلمان حکومتوں کو سرنگوں کرلیا اور انہیں یوں اپنے شکنجے میں جکڑا کہ ایک طویل جدوجہد کے باوجود اس شکنجے کو توڑنے میں تقریباً دو صدیاں صرف ہوگئیں۔ حیرت ہے کہ اس تمام عرصے میں ہندوؤں کی جدوجہد آزادی کا کہیں ذکر نہیں ملتا کیونکہ انہیں مسلمانوں کے تسلط سے نجات پانے کے لئے انگریز قبول تھے۔ ویسے اگر دوسری جنگ عظیم انگلستان کو ہر لحاظ سے کمزور نہ کردیتی اور امریکہ آزادی کا علمبردار بن کر نمودار نہ ہوتا تو شاید انگریز اتنی جلدی ہندوستان سے پسپا نہ ہوتے۔ پسپا تو ان کو ہونا تھا، قیام پاکستان ناگزیر تھا لیکن شاید مزید عرصہ لگ جاتا۔ کبھی فرصت ملے تو علامہ اقبال کے وہ خطوط ضرور پڑھ لیجئے جو انہوں نے1936-37ء میں قائد ا عظم کو لکھے اور قائد اعظم کی فکری رہنمائی کا حق ادا کیا۔ ان دنوں علامہ شدید بیمار تھے اور1937ء کے بعض خطوط تو انہوں نے کسی سے لکھوائے کیونکہ ان کی نظر کمزور ہوچکی تھی البتہ نظر کی کمزوری اور علالت ان کی بصیرت اور قومی درد پر ہرگز اثر انداز نہ ہوسکی کیونکہ ان خطوط کے الفاظ تشویش، دردمندی ا ور بصیرت کی روشنی سے مالا مال نظر آتے ہیں۔ علامہ نے تحریک پاکستان کے سارے محرکات اور مسلمانوں کے معاشی مستقبل پر بھی روشنی ڈالی ہے کیونکہ قوموں کی ز ندگی میں معاشی خوشحالی کلیدی حیثیت رکھتی ہے لیکن اپنے خطوط میں قائد اعظم کو ایک واضح پیغام دیا ہے اس پیغام کی ایک ہلکی سی جھلک ان الفاظ میں ملتی ہے پڑھئے اور غور کیجئے۔
It is absolutely necessary to tell the world that the economic problem is not the only problem in the country from the Muslim point of view the cultural problem is of much greater consequence to best Indian Muslims (Letter dated 20 march 1937)
اس کا آسان سا ترجمہ یہ ہے کہ” دنیا کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اگر چہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے معاشی مسئلہ اہم ہے لیکن ان کے لئے ثقافتی)کلچرل) مسئلہ اس سے کہیں زیادہ اہم اور نتیجہ خیز ہے“آپ سمجھتے ہیں کہ کلچر اور ثقافت کے سوتے دین سے پھوٹتے ہیں اور کلچر محض رسومات، عادات کا ہی مجموعہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ذہنی سوچ اور قلبی رویوں کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ علامہ کے ان الفاظ کی بصیرت سمجھنی ہو تو بھارت جائیے اور مسلمانوں کی ثقافتی زندگی کا بغور مطالعہ کیجئے ۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم نے قرار داد پاکستان(لاہور) مارچ1940ء میں صدارتی خطبے کے دوران مسلمان ثقافت اور ہندو ثقافت کے نمایاں تضادات پر زور دیا تھا۔ وقت نکال کر علامہ اقبال کا خط مورخہ28مئی1937ء بھی پڑھ لیجئے جس میں وہ قائد اعظم کو لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے معاشی مسائل اور وسیلہ روزگار کا علاج شریعت میں موجود ہے لیکن جب تک ہمارے پاس آزاد ملک موجود نہ ہو ہم شریعت نافذ نہیں کرسکتے۔ یاد کیجئے جب مولانا حسین ا حمد مدنی نے کہا تھا کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں تو علامہ نے جواب دیا تھا کہ قومیں اوطان سے نہیں مذہب سے پہچانی جاتی ہیں۔وقت ملے تو علامہ کا مولانا حسین احمد مدنی کو جواب ارمغان حجاز میں ضرور پڑھ لیں۔
مختصر یہ کہ قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل 101 بار اور قیام پاکستان کے بعد چودہ مرتبہ کہا کہ پاکستان کے نظام کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار کی جائے گی۔ فروری1948ء کو امریکی عوام کے نام براڈ کاسٹ میں قائد اعظم نے پاکستان کو پریمئر اسلامی ریاست قرار دیا۔ ان کے سینکڑوں فقروں کا حوالہ دیا جاسکتا ہے لیکن کالم اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ساری رام کہانی لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان محض اور صرف معاشی مفادات کے حصول کے لئے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ اسے مسلمانوں کی ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کے لئے حاصل کیا گیا تھا۔
آخر میں مجھے دو وضاحتیں کرنی ہیں۔ اول میں نے گزشتہ کالم میں ترک سوالات لکھا تھا لیکن اسے ترک حوالات بنادیا۔ دوم میں نے ہندوستان کے بہترین مقررین کے حوالے سے سید عطا اللہ شاہ بخاری کا ذکر کیا تھا۔ محترم سید عطاء ا للہ شاہ بخاری کے علم و فضل، سیرت اور تفسیر پر گہری نظر اور عشق رسول کے حوالے سے میں ان کا حددرجہ احترام کرتا ہوں اور اس میدان میں ان کی خدمات تاریخ کا حصہ ہیں۔ وہ تحریک پاکستان کے مخالف تھے حتیٰ کہ ان کی مجلس احرار کے پلیٹ فارم سے ہی مولانا مظہر الدین اظہر نے قائد اعظم کو کافر اعظم کہا تھا جس سے مسلم لیگ کے حامی مسلمانوں کی شدید دل آزاری ہوئی تھی۔جب قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے مخالفین کا ذکر آئے تو محترم شاہ صاحب کا بھی ذکر آتا ہے ۔ یہ ان کی مذہبی و روحانی شخصیت کا سیاسی پہلو تھا۔ اسے موازنہ سمجھنا یا گستاخی قرار دینا سراسر غلط ہے۔ میں جناب عطاء اللہ شاہ بخاری کا دل سے احترام کرتا ہوں اور ان کی مذہبی خدمات کا معترف ہوں اگر ان کے عقیدت مندوں کے احساسات میرے الفاظ سے مجروح ہوئے ہیں تو میں معذرت خواہ ہوں کہ یہ میرے نبی کریم کا فرمان ہے کہ اگر مسلمان بھائی کے جذبات مجروح ہوں تو معذرت کرلینی چاہئے۔
تازہ ترین