• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس ملک میں گملے صرف ٹوٹنے کے لئے اور سر صرف پھوٹنے کے بنے ہوں، وہاں یہ کیا ہو گیا؟ایک مظاہرہ ملک کے قلب میں ہوا، دوسرا کوئٹہ سے کراچی اور پسنی سے پشاور تک شہر شہر اور قریہ قریہ ہوا۔ کہیں لوگ برفانی راتوں میں اپنے پیاروں کی میّتوں کے قریب یوں بیٹھے رہے کہ ایک ہاتھ میتوں پر رکھا رہا اور دوسرا آہستہ آہستہ ماتم کرتا رہا۔ کہیں گلی گلی لبیک یا حسین کی صدائیں بلند ہوتی رہیں اور سیاہ پوش بیبیاں اور کم سن بچّے نوحے پڑھتے رہے۔ اسی طرح کہیں تاحدِنگاہ پھیلا ہوا ایسا مجمع جو خیرخواہوں کو لاکھوں میں نظر آیا اور دوسرے خواہوں کو ہزاروں میں۔ وہ یخ بستہ ہواؤں اور برفانی بارشوں میں ڈٹا رہا اور اپنے قائد کے اگلے اشارے کا منتظر رہا مگر بات اس سے آگے نہیں بڑھی۔ کہیں نہ آنسو گیس کے گولے چلے اور نہ بندوق کی گولیاں چلیں،نہ لاٹھیاں برسیں او رنہ تیز دھار پانی برسانا پڑا، نہ سنیما گھر جلائے گئے۔ نہ دکانیں لوٹی گئیں، نہ گاڑیوں کو آگ لگائی گئی اور نہ ڈبل سواری کرنے والوں نے چلتی کاروں پر فائر کھولا یہاں تک کہ ایک اعلیٰ اہلکار نے جن خودکش بمباروں کو اسلام آباد جانے کے لئے اپنے رہنماؤں سے کار کی سواری مانگتے سنا تھا ، وہ بھی نہیں آئے اور انہوں نے اپنے غاروں میں بیٹھ کر قہوہ پینے ہی کو ترجیح دی۔ انہوں نے یہ نوید بھی سنائی تھی کہ اسلام آباد میں سانپ بہت ہیں۔اس میں کیا شک ہے لیکن وہ بھی اپنے بلوں سے نہیں نکلے۔ ہم جانتے ہیں اسلام آباد میں گیدڑ بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں، وہ بھی مرگلہ سے نیچے نہیں اترے۔ اخبار نے خبر چھاپی کہ جب سے دھرنا شروع ہوا ہے، جرائم ختم ہوگئے ہیں۔ عقل حیران ہے کہ یہ کیا ہوا، کیسے ہوا، اور کیا آئندہ بھی ہوپائے گا؟
عقل یوں بھی حیران ہے کہ ہماری زمین سے امن کا عمل تو کب کا اٹھ چکاتھا۔ ہمارے گلی کوچوں میں آواز بلند کرنا جرم ٹھہرا تھا۔ ہماری بستیوں میں کبھی کوئی لبیک کی صدا نہیں لگاتا تھااور اگر لگاتا تھا تو اس کا جواب نہیں آتا تھا۔ اس بار یہ کیا ہوا کہ ہماری آنکھوں نے وہ منظر دیکھا جس کا ہمارے تصور سے قیاس تک محو ہو چکا تھا۔ ہم نے مکمل ہوش و حواس میں معجزہ ہوتے دیکھا۔
اس کے بعد وہی ہوا جسے ہو کر رہنا تھا۔ طرح طرح کی باتیں شروع ہوئیں۔ ہزار منہ تھے، ہزار ہی باتیں تھیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ لانگ مارچ نہیں ، وہ ڈھونگ مارچ تھا ، اس کے آگے سادہ لوح عوام اور پیچھے فلاں تھا اور فلاں تھی، امریکہ کو بخشا گیا نہ فوج کو معاف کیا گیا۔ ثابت کیا گیا کہ ایجنڈا کہیں اور سے آیا تھا، ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جا رہی تھیں۔ پوچھا گیا کہ اتنے بڑے مظاہرے پر اٹھانے کے لئے اتنی بھاری دولت کہاں سے آئی۔ یہ بات ان لوگوں نے پوچھی جنہیں آنے والی دولت کی فکر ہوتی ہے،جانے والی دولت کی طرف سے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔
مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ چپ سادھے مظاہرین جو بالآخر اپنے چہیتوں کے تابوت اٹھائے خاموشی سے چلے گئے اور وہ جو ان سے اظہار یکجہتی کے لئے ہر شہر ہر نگر میں سرجھکائے بیٹھے رہے ان پر انگلی اٹھانے کی جرأت کسی کو نہیں ہوئی بلکہ صحافت نے ان کے ساتھ بڑا ظلم کیا۔ وہ جو اخبار کا طے شدہ اصول ہے کہ ہر بڑی خبر چھوٹی خبروں کو کھا جاتی ہے اس نے یوں کیا کہ لبیک کی صدائیں اسلام آباد کے دھرنے تلے دب کر رہ گئیں۔ وہ جرأت مند جو کراچی کے ایوان صدر کے سامنے جا پہنچے تھے، وہ پُر امن طور پر چلے گئے ۔ کوئٹہ کی یخ بستہ فضاؤں میں کھلے آسمان تلے رکھی ہوئی میّتوں کو بالآخر تہِ خاک اپنا ٹھکانا نصیب ہوا اور پھر کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھی کہ ہزارہ باشندوں پرہونے والے مظالم کی راہ ہمیشہ کے لئے روکنے کی تدبیر کی جائے۔ اتنا بڑا مظاہرہ ، جس کے شرکاء کو شمار کرنا مشکل تھا کیونکہ وہ پاکستان کے لاہور سے بھارت کے بنگلور تک پھیلے ہوئے تھے، وہ مظاہرہ ذہن پر اپنے نقش یوں چھوڑ گیا کہ ایک بار تو زمین اپنے محور پر ٹھہر گئی ہوگی اور اس بار نعروں کا جواب حلق سے نہیں، عرش سے آیا ہوگا۔
وقت سرپٹ دوڑ رہا ہے اور اس کے منظر تیزی سے بدلتے جارہے ہیں، اتنی تیزی سے کہ قدامت زدہ ذہن اس تبدیلی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ان کی گردن میں سلاخیں پڑی ہیں، ان کے دل و دماغ کا حال ماش کے آٹے جیسا ہے، ان کی نظر ان کی ناک سے آگے نہیں جاتی کہ وہ غریب تو جہاں ہے وہیں کی ہوکر رہ گئی ہے۔ ان کو یہ بھی احساس نہیں کہ وقت کی باگ اب قدامت کے ہاتھوں سے نکل کر برفانی بارشوں میں بھیگنے والی لڑکیوں کے ہاتھ میں جارہی ہے اور رات کے سنّاٹے میں نوحہ پڑھنے والے نوجوانوں کی گرفت میں جانے کو ہے۔ آنے والا زمانہ نوجوانوں کا ہوگا، وہ منظر دیکھنے کے لئے ہم ہوں یا نہ ہوں ، آنے والا دور اس کے نظارے سے فیض یاب ہوگا۔
حال یہ ہے کہ اب ہمیں اگر کچھ نظر آتا ہے تو کوئی نہ کوئی سازش۔ کبھی بھارتی، کبھی صیہونی اور اکثر امریکی۔ ہم اتنے عیار تو ہیں کہ سازش کی بو جھٹ سونگھ لیتے ہیں لیکن اتنے سادہ ہیں کہ ان سازشوں کو کچل نہیں سکتے۔ ہم روز سنتے ہیں کہ ہر فساد اور خوں ریزی میں غیر ملکی ہاتھ ہوتا ہے مگر وہ غیر ملک کون سا ہے، ہمیں آج تک نہیں بتایا گیا۔ نہ جانے کتنی بلّیاں آج تک کتنے تھیلوں میں بند ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جب تک چہرے نہیں بدلیں گے، ہمیں بے خبر ہی رکھا جائے گا۔
لیکن کیا چہرے بدلیں گے؟ نظام کی بساط کبھی لپیٹی جائے گی اور بقول شاعر # کب تماشا ختم ہوگا۔ الیکشن کے نظام میں مردہ اور بے جان پڑے ہوئے قوانین میں، جنہیں قوم کبھی کی بھول بھال گئی تھی، نئی روح پھونکنے کے سمجھوتے پردرجن بھر دستخط ہو گئے ہیں، مگر کیا اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا؟
دل کو ایک دھڑکا سا ہے۔
لوگ بڑے سیانے ہو چکے ہیں۔ یہ ہر بندش کا توڑ نکال لیتے ہیں اورکسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ انہیں ایسی ایسی چالیں آتی ہیں کہ بڑے بڑے جہاں دیدہ اور زیرک جن کا تصور بھی نہیں کر پاتے۔ معاہدے کرنے والے دیکھتے رہ جائیں گے۔ پھر پارلیمان کے دروازے کھلیں گے اور پھر وہی شاطر سینہ تانے ہوئے ، دندناتے ہوئے ایوان میں داخل ہوں گے جن کا رستہ نہ پہلے کوئی روک سکا ہے اور نہ آئندہ روک پائے گا۔ تاریخ اچھی طرح وال چاکنگ کر چکی ہے۔ جو چاہے پڑھ لے۔
تازہ ترین