• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتسابی عمل کی طرح اور کئی دوسری شکلوں میں اسٹیٹس کو کی ٹوٹ پھوٹ کا جو عمل پاکستان میں پانامہ لیکس سے شروع ہوا، سخت مزاحمت کے باوجود اس کی اصلیت یہ ہے کہ یہ جیسے تیسے جاری و ساری ہے تاہم اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسٹیٹس کو بھی اپنی کتنی ہی جامد شکلوں میں تبدیلی کے عمل میں گھسا بیٹھا ہے۔ سب سے بڑھ کر ملک کی بدترین مقروض حالت، بیورو کریسی کا معمول کا کام کاج بھی چھوڑ کر بیٹھ جانا، ٹیکس کی عدم ادائیگی کے رویے پر تاجروں اور صنعت کاروں کا قائم دائم رہنا۔ پھر تھانہ کچہری کلچر کا برقرار رہنا اور اس کا بدستور رشوت اور سفارش میں مبتلا رہنا، لیکن اس کے مقابل یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ اتنی تبدیلی ضرور برپا ہو گئی ہے کہ اوپر کی سطح پر لوٹ مار کا کلچر ختم ہو گیا، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراء کی سطح پر اس کا واضح فرق 9ماہ کے میڈیا کے ریکارڈ اور اپوزیشن لیڈروں اور پروپیگنڈا سیلز کے الزامات کے تجزیے سے بآسانی ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی وزیر شک شبہے کی حد تک بھی کسی منفی کام میں ملوث پایا گیا تو وہ کابینہ سے مکمل یا وقتی طور پر علیحدہ کر دیا گیا جبکہ سابقہ دو ادوار میں انتہائی بالائی انتظامیہ کی بدعنوانیاں مع ریکارڈ مسلسل خبروں کی زینت بننے کے باوجود احتساب کی کوئی صورت نہ بنتی تھی اور دیدہ دلیری سے کام جاری رہتا۔ گورننس میں مالی اور انتظامی نوعیت کی بدعنوانیاں ان ادوار کے آغاز سے اختتام تک ہی بے نقاب نہیں ہوتی رہیں بلکہ آج بھی بھاری جعلی اکائونٹس ہر دو پی پی اور (ن) لیگی سابقہ حکومتوں کے منی لانڈرنگ کے ایک سے حربے کے طور پر بے نقاب ہوکر اب بھی خبروں میں آ رہے ہیں۔

یہ تو درست ہے کہ پاکستان کے موجود بیمار انتظامی ڈھانچے میں اسٹیٹس کو کے ایجنٹس ماضی قریب کے ہم نوالہ و پیالہ مقتدر اور آج زیر عتاب سیاستدانوں کا دور واپس لانے کے لئے خطرہ مول لے کر بھی مزاحمت کر رہے ہیں، کیوں نہ کریں، یہ ہی تو عوامی خدمات کے سرکاری محکموں کے مقابل بنائے گئے کرپٹ، غیر آئینی و غیر قانونی کمپنیوں کے بینی فشری تھے، جنہوں نے آئینی انتظامی مشینری کو تباہ کیا۔ یہ آج بھی اس تباہ شدہ نظام کے ملبے میں دبکے بیٹھے ہیں کہ کہیں دوبارہ اصل اور قانونی ڈھانچہ عوام کی خدمت کے لئے بحال نہ ہو جائے۔ ’’کمپنیوں کی حکومت‘‘ کے بینی فشریز باوجود اپنی محدود سرکاری تنخواہوں کے، اس نظام میں بھاری بھر تنخواہیں وصول کرکے کرپٹ حکمرانوں سے سرکاری خزانہ لٹوانے میں معاون رہے ہیں، اسی لیے آج ایک گہرے صدمے اور غصے کے ساتھ اسٹیٹس کو کے تحفظ کے لئے مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔اس پس منظر میں مطلوب تبدیلی کے امکانات تازہ ہوا کے جھونکے ہیں۔ گورننس کو آئی ٹی کی سپورٹ کا ایک ہمہ گیر پروگرام تو انتخابی سال شروع ہوتے ہی امکانی حکمران جماعت پی ٹی آئی کو تیار کرنا چاہئے تھا لیکن اس کے پاس تو اقتدار میں آکر بھی کچھ نہ تھا۔ مقتدر ہو کر بھی یہ گزشتہ چھ سات ماہ سے یہ ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے، حالانکہ جماعت کے پاس آئی ٹی ایکسپرٹ اور ملک گیر ورک فورس کی شکل میں پوری فوج موجود تھی، جو صرف سوشل میڈیا کے بھونڈے استعمال تک محدود تھی کیونکہ پارٹی میں پالیسی سازی اور گورننس کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے کا فہم اقتدار سنبھالنے کے بعد پیدا ہوا۔ اب کچھ خبریں آ رہی ہیں کہ حکومت اس طرف متوجہ ہوئی ہے، چلیں دیر آید درست آید۔

گزشتہ روز معروف صنعتکاروں اور بزنس کمیونٹی کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے اعتماد کو بحال کرنے کے لئے ایف بی آر میں اصلاحات کی نوید سنائی ہے لیکن یاد رکھیں اگر یہ اصلاحات کتنی بھی اسمارٹ ہوں اگر یہ آئی ٹی اورینٹڈ نہ ہوئیں تو یہ کسی بھی صورت نتیجہ خیز نہیں ہوں گی۔ آئی ٹی کی سپورٹ ہی وہ واحد راستہ ہے کہ حکومت شدت سے مطلوب اس مالدار طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لا سکے جو کسی بھی حالت میں ٹیکس گزار بننے کے لئے تیار نہیں۔ ان کے حربوں کی ’’سائنس‘‘ ان کی ایسی مضبوط ڈھال ہے کہ پی ٹی آئی کی اناڑی حکومت کسی طور اس طبقے سے کچھ نہیں نکلوا سکتی، تاہم متذکرہ ملاقات میں وزیراعظم صاحب نے کہہ تو دیا کہ ’’آئی ٹی کا شعبہ گڈ گورننس اور عوامی فلاح میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے‘‘۔ بالکل کر سکتا ہے۔ یہ سن کر ہمارے ملک کے ان تمام سرمایہ کاروں کی جان نکل گئی ہوگی جو اپنے حصے کا 15سے 20فیصد ٹیکس دینے کے لئے بھی کسی صورت تیار نہیں۔ تاہم وہ ٹیکس بچانے کے لئے اتنا حصہ انکم ٹیکس وصول کرنے والے کرپٹ کارندوں کو بخوشی دینے کیلئے ہر دم تیار رہتے ہیں۔ وزیراعظم کا سب سے بڑا چیلنج یہ نہیں کہ ان کے منفی اجتماعی رویے کو تبدیل کریں بلکہ اس کا سب سے بڑا حل یہ ہے کہ آئی ٹی کی اسپورٹ سے موجود ذرائع ٹیکس کی نشاندہی کی جائے (جو ریکارڈ پر نہیں) دوسرے ان کی موجود آمدن کو آئی ٹی کی اسپورٹ سے ہی ثابت اور بمطابق ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے۔ آئی ٹی کی اسپورٹ تو وہ اسپورٹ ہے جس سے مطلوب حد تک موجود اقتصادی بحران میں بھی حاصل کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کا تمام مطلوب پوٹینشل ملک میں ہی بشکل ماہرین، منتظمین اور ورک فورس کے موجود ہے۔ صرف اسے منظم کرکے، پالیسی بناکر، قانون سازی کرکے (نہیں ہو سکتی تو صدارتی آرڈیننس کی آئینی گنجائش سے) گورننس کو بہت جلد اور بہت دیر تک بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ جس سے عوام الناس تھانے کچہری کے ظالمانہ کلچر کی خواری سے بھی بچ سکتے ہیں اور جملہ بنیادی ضرورتوں کو جلد اور مکمل عزت نفس کے ساتھ اپنے بنیادی حق کے طور پر بھی وصول کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں عمران حکومت کی طرف سے ’’پاکستان سیٹزن پورٹل‘‘ کی پبلک سروس کا قیام ایک انقلاب آفرین قدم ہے۔ یہ موجودہ بحران میں بڑھتی مہنگائی کی اذیت کے مقابل گلی محلے کے عوام کو ایک بڑا ریلیف پہنچانے کا نتجیہ خیز اقدام ہے۔ اصل ضرورت عوام کو اس کی فوری اور آسان تر ملک گیر سطح کی آگاہی ہے جس کے لئے ایک بڑی سائنٹیفک ابلاغی مہم کی ضرورت ہے۔ اس نظام کے تحت شہریوں کی آن لائن شکایت یا درخواستیں خودبخود پراسیس کے مختلف مراحل میں داخل ہوتی جاتی ہیں اور رکنے یا تاخیر پر مزاحمتی ٹولے یا فرد کا عوام دشمن رویہ ریکارڈ پر آ جاتا ہے۔ کام یا تو قانون قاعدے کے مطابق جلد حل ہوگا یا ہر رکاوٹ ڈالنے والا بے نقاب ہوکر احتسابی شکنجے میں آتا جائے گا۔ شنید ہے کہ اس نظام کی جزوی اور آزمائشی اختیاریت سے ہی ایک ڈی آئی جی اور چند اے سی صاحبان کو معطل کیا گیا ہے جس سے عوام کی خدمت کے لئے تباہ نظام میں گھس بیٹھے ٹولے کو کان ہوگئے ہیں اور ان میں سراسمیگی پھیل گئی ہے، بڑا حساس مرحلہ ہے، حکومت تمام تر زور ’’پاکستان سیٹزن پورٹل‘‘ کے تحفظ اور کامیابی کے لئے لگائے، جتنا یہ نظام عوام دوست ہے اتنا ہی اسے ثبوتاژ کرنے کے حربے استعمال ہوں گے کہ یہ کرپشن کے انتظامی نظام پر بڑا حملہ ہے۔

تازہ ترین