• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا صرف الزام تراشی کافی ہے؟ مگر یہ تو بہت پرانا وتیرہ ہے صاحبانِ اقتدار کا۔ یا ان کے آلہ ہائے کار کا۔ بہت دور ماضی میں نہ جائیں تو بھی۔ اور اگر پرانے زمانے کا تذکرہ چھیڑیں تو وہ کیا تھا تحفظِ پاکستان آرڈیننس۔ اُس کے تحت بھی بہت سے نامور لوگ گرفتار کئے گئے، ان پر ملک سے غداری کے الزامات عائد کئے گئے۔ ایک مارشل لا میں مولانا مودودی کو تو موت کی سزا بھی سنا دی گئی تھی۔ اس سے بھی پہلے، 1951میں فیض احمد فیض اور ان کے بہت سے ساتھیوں کے خلاف راولپنڈی سازش کا مقدمہ بنا۔ جنرل ایوب نے شیخ مجیب الرحمان کے خلاف اگرتلہ ساز ش کیس بنایا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ولی خان کی پارٹی پر پا بندی عائد کی، عراقی سفارت خانے سے اسلحہ برآمد کیا گیا۔ اور ضیا ء الحق کے زمانے میں الذّوالفقار کا قصہ تو بہت پرانا نہیں۔ اُس کے لوگ بھی بھارت جاتے تھے، الزام تو یہی لگایا گیا۔ الزامات تو لگائے جاتے رہے۔ تو کیا الزام لگانا کافی ہے؟ الزام تو الزام ہی ہے جب تک عدالت میں ثابت نہ کر دیا جائے۔ ان میں سے کتنے الزامات ثابت ہوئے۔ تاریخ کاجواب تو نفی میں ہے۔
اور جو الزام لگا رہے ہیں کیا وہ بالکل معصوم ہیں؟ انہیں کب یہ سب باتیں معلوم ہوئیں؟ توان کی ذمہ داری کیا تھی؟ کوئی اگر آپ کو یہ بتائے کہ اُس نے قتل کیا ہے، اُس نے کسی ملک کی خفیہ ایجنسی سے رقم لی ہے تو قانون کیا کہتا ہے؟ آپ کو فوراً پولیس کو اطلاع دینی چاہئے۔ اگر آپ یہ نہیں کریں گے تو آپ اعانتِ جرم کے مرتکب قرار پائیں گے۔ آپ پر اس جرم میں مقدمہ چل سکتا ہے کہ آپ نے پولیس کو مطلع کیوں نہیں کیا۔ سرفراز مرچنٹ ہوں یا کوئی اور۔ اُن کے علم میں جب یہ بات آئی کہ متحدہ قومی موومنٹ نے، بقول ان کے، ’’را‘‘ سے رقم لی ہے تو ان کا فرض تھا کہ وہ فوری طور پر حکومتِ پاکستان کو یہ اطلاع فراہم کرتے۔ یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ کسی جماعت نے اگر کسی ملک سے، اور خصوصاً دشمن ملک سے، رقم لی ہے تو وہ جماعت، یا اس کے رہنما، ملک دشمنی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اور اس کی اطلاع فوراً حکومت کو دینی چاہئے تھی۔ مرچنٹ صاحب جو بھی ہیں، اگر ان کے علم میں یہ بات آئی تھی تو انہیں بتانا چاہئے تھا۔ وہ انہوں نے وقت پر نہیں بتایا۔ انہوں نے بہت دن، بہت زیادہ دن ، انتظار کیا، اور ایک اہم ترین معلومات چھپائے رہے۔ اس طرح دراصل وہ اعانتِ جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اور اہم بات یہ بھی ہے کہ مرچنٹ صاحب کو جو اطلاع ملی وہ ان کے بقول اسکاٹ لینڈ یارڈ نے انہیں فراہم کی تھی۔ کیا یہ سنی سنائی بات نہیں ؟جو عدالت شاید ہی تسلیم کرے۔ اور وہ سب بھی اعانتِ جرم کے مرتکب ہوئے ہیںجو کسی بھی وجہ سے ایم کیو ایم کی خرابیوں کے ذمہ دار رہے، یا ان کے علم میں یہ رہا کہ ایم کیو ایم لوگوں کو قتل کرواتی تھی، بھتہ وصول کرتی تھی ۔ اور اب جو یہ الزام دہرا رہے ہیں ، تو کل تک یہ سب اُس کا دفاع کرتے رہے تھے، اور پورے جوش و خروش سے کرتے رہے تھے۔ فیکٹری میں آگ لگانا ہو یا کوئی اور تخریبی کارروائی جس کا الزام ایم کیو ایم پر لگایا گیا ہو، یہ سب اُس کا دفاع کرتے رہے۔ ان پر بھی تو کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہوگی؟ آج وہ سارا الزام دوسروں پر لگا کر بری الذّمہ ہو گئے۔ پوتر ہوگئے۔ اب تک کیا کررہے تھے؟ اس دلیل میں کچھ زیادہ وزن نہیں ہے کہ کوئی آدمی پچاس برس کی عمر میں مسلمان ہونا چاہے تو کیا اسے یہ کہہ کربھگا دیا جائے کہ اب تک کہاں رہے۔ مذہب تبدیل کرنے اور کسی جرم میں اعانت کرنے ، یا جرم کو چھپانے میں بہت فرق ہے۔ یہ ایک سادہ سی بات ہے جو ایک عام آدمی کی بھی سمجھ میں آنی چاہئے۔ قانون دان تو اس کو زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔
اور ذمہ داری تو ان تمام حکومتوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو پچھلے کئی عشروں سے اس ملک میں اقتدار میں رہیں۔ ان میں سے اکثر جھولی پھیلا کر ایم کیو ایم کے مرکز پر حاضری دیتی رہی ہیں۔ کون سا ایسا وزیراعظم ہے جو ایم کیو ایم کی حمایت کے بغیر اس عہدے پر براجمان ہو سکا؟ کیا انہیں کبھی پتہ نہیں چلا کہ ایم کیو ایم ’’را‘‘ کی ایجنٹ ہے؟ اگرپتہ تھا، تو انہوں نے کیوں کبھی کوئی کارروائی نہیں کی؟ اس کا جواب تو ان سب کو دینا چاہئے۔ ان سے جواب لینا چاہئے۔ وہ سب قوم کو جوابدہ ہیں۔ کیوں وہ ایک ایسی جماعت کی حمایت کرتے رہے جو ’’را‘‘کی ایجنٹ تھی یا ہے؟
مگر حکومت کا معاملہ تو لگتا ہے عقل و خرد سے عاری ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ پانچ برس بعد پاکستان میں درج کیا گیا۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ عمران فاروق قتل کیس میں ملوث دو افراد کئی سال سے گرفتار تھے، مگر ان کی گرفتاری بہت تاخیر سے ظاہر کی گئی۔ یہ مقدمہ پاکستان میں کیسے چل سکتا ہے، وہ تو عدالت میں جا کر ہی طے ہوگا۔ اسی طرح منی لانڈرنگ کا معاملہ ہے۔ یہ مقدمہ پاکستان میں اُس وقت درج کیا گیا جب برطانیہ میں یہ تقریباً ختم کردیا گیا ہے۔ الطاف حسین پر تھانے میں پیش ہونے کی پابندی ختم کردی گئی۔ اب یہاں کیا ہوگا، ثبوت کہاں سے ملیں گے؟ یہ الزام کیسے ثابت ہوگا؟ کسی نے سوچا؟ مرچنٹ کو یہ اطلاع کب ملی، وہ کسی عدالت کو بتائیں گے یا تحقیقاتی ادارے کو۔ اس تحقیقات کو عدالت میں لے جانے اور ثابت کرنے تک بہت سے مرحلے ہیں۔ کپ اور ہونٹوں کے درمیان بہت فاصلہ ہے۔
ان دنوں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر ایم کیو ایم کی قیادت کو بھی غور کرنا چاہئے۔ جو لوگ ایم کیو ایم چھوڑ کر گئے ہیں، پارٹی میں ان کا اہم کردار رہا ہے۔ درست کہ آج وہ جو کچھ ہیں پارٹی ہی کی وجہ سے ہیں۔ مگر قیادت کو سوچنا چاہئے کہ وہ پارٹی کیوں چھوڑ گئے؟ مصطفیٰ کمال جیسے آدمی نے الطاف حسین کے بارے میں جو زبان استعمال کی، ان کے بہت سے دشمن بھی کھل کر اس طرح کی زبان استعمال نہیں کرتے۔ وہ تو عقیدت اور احترام کی وجہ سے الطاف حسین کی پیشانی پر جوابی بوسہ بھی نہیں دے سکتے تھے۔ آخر ایسا کیا ہوا کہ مصطفیٰ کمال کھلے عام اپنے سابق قائد پر سنگین الزام تراشی پر اتر آئے۔اب کیا ہوا؟ پارٹی کو سوچنا چاہئے۔ ایم کیو ایم پر بہت وقت آئے ہیں۔ گزر بھی گئے۔ قیادت نے مگر شاید کبھی اپنا احتساب نہیں کیا۔ غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ ممکن ہے یہ وقت بھی گزر جائے۔ ایم کیو ایم کو اگر سیاست میں رہنا ہے تو اس کی قیادت کو وہ سب خامیاں دور کرنا ہوں گی جو آئے دن اس کے لئے مشکلات کا باعث بنتی ہیں۔ اپنا احتساب کرنا ہوگا، کڑا۔ اور تنظیم کو ایک سیاسی جماعت کی طرح چلانا ہوگا۔ اسی میں ایم کیو ایم کی بقا ہے اور اس کے مقصد کی۔
تازہ ترین