• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنوری ہر سال نئے سال کے ساتھ، آ تو جاتا ہے لیکن ہمارے لئے کچھ بھی نیا نہیں ہوتا کیونکہ
وہی دن کی گردش وہی رات کی
بدلتی نہیں شکل حالات کی
البتہ اب کی بار جنوری رحمتوں بھرا اور عظمتوں والا مہینہ بن کے آیا ہے کیونکہ اسی جنوری کی پچیس تاریخ جمعہ کو بارہ ربیع الاوّل ہے اور نئے اسلامی سال 1434ہجری کا جمع شدہ عدد بھی بارہ ہی ہے۔ علم الاعداد میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے اس حکمت پر غور کرنے کے ڈھیروں مواقع موجود ہیں، اس جنوری کو بارہ ربیع الاول کی سعادت اٹھائیس سال بعد نصیب ہورہی ہے اس سے پہلے 1985ء کے جنوری کو یہ اعزاز ملا تھا، جس کی پانچ تاریخ کو بارہ ربیع الاول تھا، سال رواں تبدیلیوں کا سال ہے۔
پاکستان کی عظمت رفتہ کی بحالی کا سال، بکھرے بیروں کو سمیٹنے کا سال، الیکشن کا سال، سربراہ مملکت، سربراہ حکومت، افواج پاکستان اور عدالت عظمیٰ کے سربراہ کی مدت خدمات کی تکمیل کا سال، آئین سے ماورا اقدام اٹھانے کا ارادہ لے کر یخ بستہ راتوں اور ٹھٹھرتی صبحوں میں سادہ لوح عوام، معصوم بچوں اور وطن کی بیٹیوں کو کھلے آسمان تلے ذاتی تشہیر کے لئے لابٹھانے والے کے مالی وسائل کی جانچ پڑتال کا سال۔ اس سال بہت کچھ ہونے جارہا ہے، یہ پاکستان کے غیور عوام کے دکھوں کے مداوے کا سال بھی ہے اور اختیارات کی آڑ میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رکھنے والوں کے احتساب کا سال بھی ہے، ہرچند کہ نیا سال اپنے پہلے مہینے کے تیسرے عشرے میں ہے لیکن ہمارے لئے اب بھی نیا ہی ہے کہ اس سال سب کچھ نیا ہونے کو جارہا ہے۔ مجھے اس سال جنوری کی پہلی تاریخ کو مبارکباد کا سب سے پہلا ٹیلیفون بھارت کے شہر نیو دہلی سے ممتاز نعت گو حافظ اقبال اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرجیت سنگھ لانبہ کا آیا تھا، بعض ناواقفِ حال احباب کو غیر مسلم سردار کو عاشق رسول لکھنے پر اگر اچنبہ ہوا ہے تو ان کی خدمت میں کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کا یہ شعر پیش ہے کہ
عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارا تو نہیں
صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں
سرجیت سنگھ لانبہ کو، بھارت کے ممتاز غزل گو شاعر متین امروہوی نے کچھ اس طرح سے منظوم خراج تحسین پیش کیا ہے کہ
ادب سے کرتا ہے، پیش ہردم درود کو، یہ سلام آقا
اسی ادا پر ملا ہے اس کو جہاں میں اعلیٰ مقام آقا
ہے لانبہ کہنے کو غیر مسلم مگر اسے یہ شرف ہے حاصل
قرآن ناطق کا ہے مصنف تمہارے در کا غلام آقا
لانبہ صاحب سے میری پہلی ملاقات 1980ء میں ہوئی تھی وہ اقبال اکیڈمی کی دعوت پر پاکستان آئے تھے، دوسری مرتبہ 1983ء پھر 1989ء اور فی الحال آخری اور چوتھی ملاقات اپریل 2008ء میں ہوئی ہے وہ ہر بار علامہ اقبال اکیڈمی کی دعوت پر ہی آتے ہیں انہیں حافظِ اقبال کہا جاتا ہے، علامہ اقبال کا سارا کلام انہیں یاد ہے مجھے جب کبھی علامہ کی کوئی چیز ضرورت پڑے یا مضمون کی مناسبت سے شعر کی تلاش ہو تو بجائے اپنی لائبریری سے رجوع کرنے کے، نیو دہلی فون کرکے لانبہ صاحب سے پوچھ لیتا ہوں، وہ گھنٹوں کا کام لمحوں میں حل کر دیتے ہیں کون سا شعر اردو ہو یا فارسی، اقبال کے کس مجموعے میں ہے اور کون سے ایڈیشن کے کس صفحے پر ہے، انہیں یاد ہے ذرا ذرا۔ جسٹس جاوید اقبال کا شمار بھی لانبہ صاحب کے عقیدت مندوں میں ہوتا ہے۔ سرجیت سنگھ لانبہ کو برصغیر پاکستان اور بھارت کے علاوہ یورپ اور امریکہ والے بھی حافظِ اقبال، تہذیبی سفیر، سفیر محبت اور عاشق رسول کے القاب سے یاد کرتے ہیں، امریکہ اور بھارت میں وہ اکثر عید میلاد النبی کے جلسوں کی صدارت کرتے رہتے ہیں۔ 1989ء میں وہ پاکستان میں بھی سیرت پاک کی محفلوں اور جلسوں میں عید میلاد النبی کی مناسبت سے خطاب کر کے عقیدت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ لانبہ صاحب دو کتابوں کے مصنف ہیں، ان کی پہلی کتاب ”نذرِ خسرو“ حضرت امیر خسرو سے عقیدت کا مظہر ہے اور ”قرآنِ ناطق“ کے عنوان سے اپنی دوسری کتاب میں انہوں نے سیرت پاک پر ضوفشانی کی ہے۔ قرآن الحکیم کے علاوہ حدیث پاک کا مطالعہ بھی ان کے لئے فردوس نظر بن چکا ہے، وہ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے والد گرامی حضرت عبداللہ سے حضرت آدم علیہ السلام تک اسّی (80) پشتوں تک گفتگو کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں، درجنوں تفاسیر پر مجھ سے بات کرتے رہتے ہیں۔
لاہور میں ایک علم دوست نے ان سے کہا کہ لانبہ جی آپ اسلام کیوں نہیں قبول کرلیتے تو لانبہ نے کہا کہ جس دن جبار مرزا کہے گا اس دن مسلمان ہو جاؤں گا، ملاقات پر میں نے وضاحت چاہی تو لانبہ صاحب نے کہا کہ ”میں نے تمہارا نام اس لئے لیا تھا کہ مجھے اندازہ ہے تو مجھے اسلام قبول کرنے کا نہیں کہے گا کیونکہ تو مجھے اپنے سے بہتر مسلمان سمجھتا ہے“۔ سرجیت سنگھ لانبہ1931ء کو راولپنڈی کے محلہ شاہ نذر دیوان، قدیمی امام بارگاہ کے نزدیکی علاقے میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد سردار کرپال سنگھ صراف تھے، مذہب و مسلک اور رنگ و نسل سے بلند ہوکر بے سہارا لڑکیوں کی شادی میں مدد کیا کرتے تھے، میں جب کبھی لانبہ کے ساتھ ان کے آبائی محلے میں گیا تو بڑے بوڑھوں نے ان کے والد کا ذکر انتہائی عقیدت و احترام سے کیا ہے۔
یکم جنوری ماہ رواں صبح ساڑھے آٹھ بجے نئے سال کی مبارکباد دیتے ہوئے لانبہ نے مجھے کہا کہ وہ اپریل میں آخری بار ”اقبال ڈے “ پر پاکستان آئیں گے اور اس کے بعد مر جائیں گے، انہوں نے کہا کہ ”صحت دھیرے دھیرے پہلو تہی کررہی ہے، آج بھی لیٹے لیٹے ’لیپ ٹاپ“ سینے پر رکھ کر تیرا کالم ”لینڈ مافیا“ جنگ کی ویب سائٹ پر پڑھا ہے“ پھر کہنے لگے اسی مہینے ربیع الاول کا آغاز ہورہا ہے، ہمارے آخری نبی کی ولادت کا دن ہے کل عالم کے محسن کے حوالے سے اگر کالم لکھو تو میرے تازہ نعتیہ شعر بھی شامل کر دینا تاکہ ”امن کی آشا“ کے راستے دربار مصطفی میں میری حاضری لگ جائے شعر، ملاحظہ فرمائیں!
اک بار بلالیں جو سرکار مدینے میں
سمجھوں گا بلایا ہے، سو بار مدینے میں
ظاہر کو نہ دیکھو تم باطن کو مرے دیکھو
ہے جسم یہاں میرا دلدار مدینے میں
قسمت پہ مری لانبہ# یوں رشک کرینگے سب
دیکھیں گے کہ آیا ہے ”سردار“ مدینے میں
تازہ ترین