• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایران کے عظیم شاعر فردوسی نے آج سے قریباً ہزار سال پہلے ایک طویل نظم لکھی، یہ نظم پچاس سے ساٹھ ہزار شعروں پر مشتمل ہے، اس نظم کو فارسی ادب کے ماتھے کا جھومر کہا جاتاہے۔ نظم کا نام تھا ’’شاہنامہ‘‘۔ یہ نظم پچاس بادشاہوں کے دور حکمرانی کا قصہ ہے جو فردوسی نے فارسی شاعری میں بیان کیا ہے۔ شاہنامہ کے تین حصے ہیں، پہلے حصے میں فردوسی نے تخلیق کائنات کا نقشہ کھینچا ہے، خدا کی صفات کا احاطہ کیا ہے، انسان کی خصلت بتائی ہے اور پھر آگے چل کر بادشاہوں کی کہانیاں بیان کی ہیں۔ مثلاً بادشاہ سام کا قصہ بیان کیا ہے کہ کیسے اِس بادشاہ کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام زال رکھا گیا، اس لڑکے کے سر کے تمام بال برف کی طرح سفید تھے، بادشاہ کو لگا جیسے یہ کوئی بوڑھا آدمی ہے یا پھر کوئی شیطان، بادشاہ نے حکم دیا کہ لڑکے کو پہاڑوں میں پھینک دیا جائے، حکم کی تعمیل ہوئی مگر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ لڑکے کو ایک سیمرغ نے بچا لیا، کئی سال بعد بادشاہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، اُس نے پہاڑوں میں اپنے بیٹے کی تلاش کی جہاں اسے اپنا بیٹا مل گیا جو اب ایک کڑیل جوان بن چکا تھا، زال وہاں سے جانا نہیں چاہتا تھا مگر سیمرغ نے اسے اپنا ایک پر دیا کہ جب بھی اُس پر کوئی مصیبت آئے تو زال یہ پر جلا دے سیمرغ وہاں پہنچ جائے گا۔ زال ایک شہزادی پر عاشق ہو جاتا ہے جس کا نام روداب ہے، بہت مشکلات کے بعد دونوں کی شادی ہوتی ہے جو صرف تیس دن تک قائم رہتی ہے، اس دوران شہزادی حاملہ ہو جاتی ہے مگر اُس کی طبیعت بگڑ جاتی ہے، ناقابل برداشت تکلیف سے شہزادی کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ بچے کو جنم نہیں دے پائے گی، زال کو سیمرغ کا دیا ہوا پر یاد آتا ہے، وہ پر جلاتا ہے، سیمرغ حاضر ہو جاتا ہے اور شہزادی کو اِس مشکل سے نکالنے کے لئے ’’سیزیرین‘‘ کیا جاتا ہے اور پیدا ہونے والے بچے کا نام رستم رکھا جاتا ہے۔ بچہ ایسا بہادر نکلتا ہے کہ محل میں سفید ہاتھی کو تن تنہا مقابلے کے بعد مار دیتا ہے۔ رستم کی کہانی شاہنامہ فردوسی کی معراج ہے، یہ حصہ نہ صرف شاعری کا شاہکار ہے بلکہ داستان گوئی کا بھی کمال ہے۔ یہ قصہ رستم کے گھوڑے رخش سے شروع ہوتا ہے، جس سے رستم کو بہت محبت ہے، ایک دن رخش کہیں کھو جاتا ہے، رستم اُس کی تلاش میں نکل پڑتا ہے اور چلتے چلتے سمنگان شہر پہنچ جاتا ہے، یہاں وہ بادشاہ سے مدد کا طالب ہوتا ہے تاکہ رخش کا اتا پتا مل سکے، یہیں اُس کی ملاقات بادشاہ کی بیٹی تہمینہ سے ہوتی ہے، دونوں ایک دوسرے کی محبت میں کھو جاتے ہیں، تہمینہ رستم سے کہتی ہے کہ میں تو کب سے تمہاری راہ تک رہی تھی کہ تمہاری ایک جھلک دیکھ سکوں اور اب دیکھو خدا نے ہمیں ملا دیا ہے۔ رخش کے ملنے کے بعد رستم اپنے وطن واپس چلا جاتا ہے۔ نو ماہ بعد تہمینہ ایک بچے کو جنم دیتی ہے، بچے کا نام سہراب رکھا جاتا ہے۔

رستم اور سہراب کی کہانی ہم سب نے بچپن میں سن رکھی ہے، عالمی ادب کی المیہ داستانوں میں جہاں Sophoclesکی ’’اوڈیپس ریکس‘‘ اور شیکسپئر کی ہیملٹ کا ذکر آتا ہے وہیں رستم و سہراب کا بھی آتا ہے، رستم و سہراب کی ٹریجڈی پر کئی فلمیں، ڈرامے بن چکے ہیں، لاتعداد زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے، مختلف انداز میں اسے فلمایا جاچکا ہے مگر ایک ہزار سال گزرنے کے باوجود آج بھی اگر ہم یہ قصہ پڑھیں تو یہ ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دے گا۔ رستم و سہراب کی لڑائی، رستم کا سہراب کے ہاتھوں زخم کھانا مگر پھر سہراب کو پچھاڑ دینا، سہراب کا رستم سے بار بار پوچھنا کہ کہیں وہ رستم تو نہیں، اور بالاخر سہراب کا اپنے باپ کے ہاتھوں قتل ہو جانا اور آخری لمحوں میں رستم پر آشکار ہونا کہ اُس نے انجانے میں اپنے ہی بیٹے کا خون کر ڈالا، اس ڈرامے کا کلائمکس ہے۔ فردوسی نے شاہنامہ میں رستم کے سات معرکوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ اُن معرکوں میں ایک معرکہ مازندران کے دیو کے خلاف بھی ہے، مازندران کے دیو نے بادشاہ کیوس کو قید کر رکھا تھا، دیو کا شہر پر قبضہ تھا، کسی کی مجال نہیں تھی کہ دیو کے سامنے دم مار سکے، رستم اپنے گھوڑے رخش پر سوار ہو کر دیو کا مقابلہ کرنے پہنچ جاتا ہے اور رخش کے ساتھ مل کر دیو کے چیلے چانٹوں کو ختم کر دیتا ہے۔ وہاں سے وہ بادشاہ کیوس کو چھڑانے کے لئے نکل پڑتے ہیں جو اپنے ہی محل میں مقید ہے، سفید دیو نے بادشاہ کے محل کا محاصرہ کر رکھا ہے، رستم صبح ہونے کا انتظار کرتا ہے تاکہ دیو کو نیند آ لے اور پھر وہ اُس سفید دیو کو پچھاڑ کر بادشاہ کو رہائی دلاتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہنامہ فارسی ادب کا ماسٹر پیس ہے۔ شاہنامہ میں صرف داستان گوئی ہی نہیں تاریخ کا سبق بھی ہے اور سبق یہ ہے کہ مازندران کے دیو کو زیر کرنے کے لئے رستم کی طرح طاقتور ہونا پڑتا ہے اور اگر کوئی رستم کی طرح طاقتور نہیں تو پھر اُس میں اخلاقی قوت اتنی ہو کہ جس کے بل پر وہ مازندران کے دیو کو شکست دے سکے۔ المیہ یہ ہے کہ بیسویں صدی کے لیڈران رستم کی طرح طاقتور ہیں اور نہ ہی ان میں اخلاقی قوت ہے، ایسے میں رخش کی سواری تو کی جا سکتی ہے مگر مازندران کے دیو کو نہیں پچھاڑا جا سکتا ،لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہم لوگ رستم و سہراب کے ڈرامے دیکھیں اور اُس وقت کا انتظار کریں جب مازندران کے دیو کو نیند آ لے اور اِس دوران بادشاہ کیوس چپکے سے محل کا دروازہ کھول کر باہر نکل جائے کیونکہ بیسویں صدی کا رستم اب خاصا آرام طلب ہو گیا ہے، اُس میں اتنا دم نہیں کہ بادشاہ کیوس کو آزاد کروا سکے، جب تک بیسویں صدی کا رستم خود کو آلائشوں سے پاک نہیں کرے گا، سادہ طرز زندگی نہیں اپنائے گا، درویشی کو شعار نہیں بنائے گا، اخلاق کے اعلیٰ اوصاف کے مطابق زندگی نہیں ڈھالے گا تب تک بادشاہ کیوس محل میں قید رہے گا، آج کا رستم مازندران کے دیو کا مقابلہ جسمانی طاقت سے نہیں کر سکتا اس کے لئے رستم کو اپنی اخلاقی طاقت استعمال کرنا ہو گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین