• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسانی وجود آگ، پانی، مٹی، ہوا اور روح کا مرکب ہے یعنی حضرت انسان بیک وقت روحانی اور مادی دنیا کا باشندہ ہے۔ ظاہری آنکھیں کھول کر دیکھے تو وسیع کائنات کا مشاہدہ اس کے روبرو اور باطنی آنکھ یعنی وِجدان کی کھڑکی سے جھانکے تو خود کو مابعد الطبیعاتی دنیا کی غیر مرئی مخلوق کے درمیان محسوس کرے۔ روح اور مادہ اپنی فطرت کے حوالے سے متضاد خصوصیات کے حامل ہیں۔ روح اپنی اصل میں نور ہے جو ہر حوالے میں مثبت اور تعمیری اثرات رکھتی ہے جب کہ مادے میں تعمیر اور تخریب دونوں شامل ہیں۔ اس لئے مادے کو روح کے تابع کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اگر انسان کے فکر و عمل کی ڈور روح سے بے نیاز ہو جائے تو مادہ سرکش ہو کر جلال کا روپ دھار لیتا ہے اور اپنی طاقت کے زعم میں دنیا میں ہر قسم کے جمال کو ختم کرنے کے درپے ہو جاتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں جلال کو رہنمائی میسر نہ ہو تو وہ تخریب کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ غور کیا جائے تو خیر اور شر کی طاقتیں نہ صرف انسان بلکہ کائنات کی ہر زندہ شے میں اپنی اپنی سربراہی اور غلبے کے لئے ایک دوسرے سے ہر لمحہ برسرِ پیکار ہیں۔ انسان اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے جس پہلو کی پرورش کرنا شروع کر دے وہ توانا اور حاکم ہو جاتا ہے اور دوسرا پہلو مغلوب۔ خیر کی بتدریج پرورش اور ترقی انسان کو روحِ مطلق کے قریب تر کر دیتی ہے لیکن جبلت کے جال سے آزاد ہو کر عقل و فکر کی مسند پر سرفراز ہونا اتنا آسان کام نہیں۔ اس کے لئے ذاتی کاوش کے ساتھ ساتھ اخلاقی حکم کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لئے انسانوں کی بھلائی اور رہنمائی کے لئے مختلف زمانوں، علاقوں، نسلوں اور قوموں کے درمیان پیغمبروں کا سلسلہ جاری رہا اور آخری پیغمبر جو وجہٴ تخلیق کائنات ہیں کو رحمت اللعالمین کے لقب سے سرفراز کر کے بھیجا گیا۔ رب العالمین ستر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے مگر وہ قہار اور جبار بھی ہے۔ کرم کی بارش کے ساتھ آزمائشوں اور سزاؤں کے صحراؤں سے بھی گزارتا ہے لیکن اس کے حبیب کی ذات رحمت، محبت، رواداری، شفقت، تعمیر اور جمال کا مرقع ہے۔
ان کی ذات سراسر خیر اور رحمت ہے۔ ان کا تصور کڑی دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں کی چھتری لئے ہمارے ساتھ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ یہ ایسی رحمت ہے جو مصیبتوں اور ناممکنات میں معجزاتی تاثیر کی حامل ہے۔ ان کی رحمت کسی ایک علاقے، قوم، نسل یا قبیلے کے لئے نہیں بلکہ رحمت اللعالمین ہونے کے باعث اس کا دائرہ کار نہ صرف اس جہان بلکہ کل جہانوں تک پھیلا ہوا ہے اور انسانوں کے علاوہ دیگر مخلوقات پر بھی محیط ہے کیوں کہ ان کا مخاطب کل عالم ہے وہ دنیا بھر کے غریبوں، بے کسوں، فقیروں اور غلاموں کے نجات دہندہ ہیں۔ وہ رستے میں کانٹے بچھانے والوں، کوڑا کرکٹ پھینکنے والوں کی صحت و سلامتی کے لئے بھی فکر مند رہتے ہیں اور پتھر مارنے والوں کو بھی بددعا نہیں دیتے بلکہ ان کے حق میں علم اور ہدایت کی دعا کرتے ہیں اور ظلم و جبر کی انتہا ہو جانے پر ہجرت کو ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ جنگ و جدل کی بجائے رحمت ان کی شان اور پہچان ہے۔ وہ جس دین کے پیامبر ہیں اس کا جوہر سلامتی اور امن ہے۔ وہ امن و امان کے قیام کے لئے صلح حدیبیہ پر مہر ثبت کرتے ہوئے چودہ سو ساتھیوں کے ساتھ کعبے کی زیارت کئے بغیر واپس لوٹ جاتے ہیں۔ وہ انسانوں کی تفریق کے قائل نہیں اس لئے مکہ میں قحط سالی کے دوران خدا کو نہ ماننے والوں اور ان کے ساتھیوں پر ظلم ڈھانے والوں کے لئے بھی غلّے کا اہتمام کرتے ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کرکے پرانی رنجشوں کا خاتمہ اور نئے تعلقات کی استواری بھی رحمت کا پیام ہے۔ وہ پیغمبر ہیں اور معلم بھی۔ حکمت کا درس ان کے ہر قول و فعل سے عیاں ہے۔ ان کی صداقت اور امانت عملی ہے۔ ان کی انگلی کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہو سکتا ہے اور سورج شام کی دہلیز سے واپس عصر کی کھڑکی میں آ بیٹھتا ہے مگر وہ حق کی تبلیغ کے لئے جبر و تشدد کی بجائے پیار سے مکالمے کو ترجیح دیتے ہیں اور کسی کی جان لینے کو انسانیت کی جان لینے کے مترادف قرار دیتے ہیں کیوں کہ وہ شفاعت اور داد رسی کرنے والے ہیں۔ ان کے لئے تمام دھرتی مسجد کی طرح پاک اور دھرتی کے تمام باسی یکساں معزز اور معتبر ہیں۔ ان کے دین پر ایمان نہ لانے والوں کو بھی ان کی عبادت گاہ میں آنے کی اجازت ہے۔ وہ میثاق مدینہ جیسے معاہدوں کے ذریعے اجتماعی خیر کے داعی ہیں اور امن، خوشحالی، بھائی چارے اور عدل کی بنیاد پر ایسے فلاحی معاشرے کا قیام ان کا مقصد ہے جہاں گورے کالے، عربی عجمی، امیر غریب اور بادشاہ غلام کی تقسیم کو جنم دینے والا کوئی قانون نہیں۔ وہ انسانی مساوات کے قائل ہیں اور انسان ہونے کے ناتے اپنے پرائے سب معتبر ہیں۔ وہ حجة الوداع کے موقع پر مسلمانوں کے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے خون، مال اور عزت ایک دوسرے پر حرام قرار دیتے ہیں اور خون خرابے اور دنگا فساد سے پرہیز کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ سرورِ کائنات ہیں مگر اپنے لئے امتیازی سہولتیں اور مراعات کے طالب نہیں بلکہ معراج کے موقع پر بھی زمین والوں کے لئے سکھ اور بخشش کی خواہش کرتے ہیں۔ وہ اپنی چادر زمین پر بچھا کر عورت کی تعظیم کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ علم اور خیر کے پیامبر ہیں کیوں کہ خالق نے اپنے ایلچی کے ذریعے انہیں جو پہلا پیغام بھیجا وہ بھی اقراء یعنی پڑھ کے حکم پر مشتمل تھا۔ علم کی قدر و منزلت کا عالم دیکھئے کہ غزوہٴ بدر کے موقع پر وہ قیدیوں کی رہائی کو پڑھائی سے مشروط کردیتے ہیں۔ عورت اور مرد کے لئے علم کے حصول کو یکساں اہم قرار دیتے ہیں۔ انہیں انسان سے نہیں جہالت سے نفرت ہے۔ ان کا انقلابی مشن جہالت کے اندھیروں میں نور کی شمع روشن کرنا ہے۔
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
دین کے نام پر قتل و غارت کرنے والوں، عورت کی تذلیل کرنے والوں، معاشرے کا امن برباد کرنے والوں اور کائنات کا جمال تباہ کرنے والوں پر بھی رحمت اللعالمین کی سیرت کی بارش برسے اور اُن کی فطرت کا شر خیر کے تابع ہو جائے۔ آمین۔
تازہ ترین