• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مہناز کے مرنے نے میرے بہت سے زخم ہرے کر دیئے ہیں۔ مہناز پاکستان میں نور جہاں کے بعد، بہت سریلی گانے والی تھی جس نے خواجہ خورشید انور کو بھی متاثر کیا تھا۔ ایک مدت تک رضا کاظم کے گھر کجن بیگم اور مہناز، نوحے سلام کجریاں اور پرانے گیت / ٹھمریاں ریکارڈ کراتی رہیں ۔ کجن بیگم کے ریکارڈ، تقسیم سے پہلے بھی بہت فروخت ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو موسیقی کی خود ہی تعلیم دی تھی۔ نثار بزمی کہا کرتے تھے کہ مہناز جیسے سر کو سمجھتی ہے، ایسی میری کوئی شاگرد نہیں سمجھتی۔ مہناز نے اپنے چھوٹے بھائیوں کو پڑھایا ، شادیاں کیں اور امریکہ میں نوکریاں بھی دلوائیں۔ ان بھائیوں کی اناء یہ برداشت نہیں کرسکتی تھی کہ ان کی بہن ایک گانے والی ہے۔ اس لئے انہوں نے امریکہ ہی میں مستقل رہنے کا بندوبست کر لیا۔
یہ کہانی کوئی نئی نہیں ہے میں نے دیکھا اقبال بانو نے اپنے بیٹوں کو پڑھایا، لکھایا۔ شادیاں کیں اور جب وہ کسی قابل ہوگئے تو اعتراض کرنے لگے اسی ماں کے گانے پر جس نے کمائی کر کے ان کو کسی لائق بنایا تھا۔ پھر انہوں نے بھی غیر ممالک کا رخ کیا۔ بات یہاں تک ختم نہیں ہوئی ان کی ایک بیٹی بھی تھی اس کی شادی کی تو داماد، گھر داماد بن گیا۔ اس میں وہ شرم محسوس نہیں کر رہا تھا۔ البتہ اقبال بانو کے گانے پر معترض تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کبھی گائیں تو اخبار میں تصویر شائع نہیں ہونی چاہیئے۔ وہ دکھیاری گاتی بھی رہیں کہ گھرکا خرچ چلانا تھا مگر ہر ایک سے دست بستہ گزارش کرتی تھیں کہ کہیں خبر نہ نکل جائے۔ کوئی تصویر نہ شائع ہو جائے ورنہ داماد ہی میرا گلہ گھونٹ دے گا۔ وہ تو اتفاق یہ ہوا کہ داماد گردن توڑ بخار میں مبتلا ہوا، مر گیا۔ اب پھر پورے خاندان کا بوجھ اقبال بانو پرہی رہا۔ بعد میں جب گھٹنوں کی تکلیف زیادہ ہوئی تو انہوں نے گانا ہی چھوڑ دیا۔ لوگوں کو ”ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں“ گنگناتا چھوڑ گئیں۔
خواجہ خورشید انور کی وفات کے دن میں اور میڈم نور جہاں اکٹھے بیٹھے تھے۔ باتوں باتوں میں کہنے لگیں کہ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اب مت گایا کرو۔ مگر کیا کروں۔ پہلی تاریخ کو اکبر کو، اصغر کو اور چاروں بیٹیوں کو جیب خرچ دینا ہوتا ہے۔ پھر گھر کا خرچ بھی چلانا ہوتا ہے۔ بس اسی لئے ابھی تک گارہی ہوں۔ بولیں جب میں منہ میں نوالہ لے جانے لگتی ہوں تو خیال آتا ہے، معلوم نہیں میرے بیٹوں نے بھی کھایا ہوگا کہ نہیں۔ کبھی کبھی تو ہنڈیا اٹھا کر ان کے گھر جا کر دے آتی ہوں۔ یہ تھی مامتا اس میڈم نور جہاں کی کہ جس کے بارے میں لوگ اپنی طرف سے کہانیاں گھڑ گھڑ کر سنا دیتے ہیں۔
فریدہ خانم نے اپنی بیٹیوں کی شادی بڑی دھوم دھام سے کی بیٹے کو بھی غیر ممالک میں پڑھایا۔ ان کو بھی ایک مدت تک گانا چھوڑنا پڑا کہ سسرالی طعنہ دیتے تھے بیٹیوں کو۔ بیس برس بعدگانا شروع کیا مگر وہ بات کہاں آواز، بقول روشن آرا بیگم کے، روزانہ ریاض کے بعد ہی ٹھیک رہتی ہے۔ یہ وہی ملکہٴ موسیقی ہیں جنہیں شوہر کے کہنے پر بھینسوں کے باڑے میں تہہ خانے میں جا کر ریاض کرنا پڑتا تھا کہ شوہرکا حکم تھا کہ آواز باہر نہ جائے۔ یہ وہی ملکہٴ موسیقی ہیں جن کے نام پر بڑے غلام علی خان کا سر ادب سے جھک جاتا تھا۔ یہ وہی ملکہٴ موسیقی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ستار کی تار اور روشن آرا کی آواز میں فرق محسوس نہیں ہوتا تھا۔ آج جب بھی لالہ موسیٰ سے گزرو وہ بہت یاد آتی ہیں۔
اکیلی ملکہ پکھراج تھیں، جن کے گانے کو سننے کے لئے ادب سے ان کے شوہر زمین پر بیٹھ جایا کرتے تھے اور ہمیشہ ملکہ پکھراج کے علاوہ طاہرہ کو اور اپنی نواسی کو بڑی محبت سے اور زبردستی گانا سکھایا۔
ہماری بہت سی گانے والیوں کے سر پہ عاشق ہو کر لوگوں نے شادیاں کیں مگر آصف علی پوتا، جیسے موسیقی کے شیدائیوں نے بھی ناہید اختر کو گھر میں بٹھا لیا۔ کہتے یہ ہیں کہ اپنی مرضی سے نہیں گاتیں مگر نفسیات دان کچھ اور کہتے ہیں۔
عابدہ پروین کے شوہر، شیخ صاحب چونکہ خود ریڈیو پہ ملازم تھے اس لئے وہ عابدہ کو سندھی اور اردو کلام منتخب کر کے دیتے تھے۔ وہ تو ان کی زندگی نے وفا نہ کی ورنہ عابدہ میں بھی صوفیانہ طرز کے علاوہ ٹھمری اور غزل کی نئی آب و تاب بھی آسکتی تھی۔
تصور خانم نے بھی کسی زمیندار سے شادی کرلی تھی۔ کچھ دن کے سکھ چین کے بعد، جب شوہر کی اچانک رحلت ہوئی تو تصور خانم کو اپنے بھائیوں کے گھر لوٹنا پڑا اور بھولی ہوئی سنگت کویاد کرنا پڑا۔
نیرہ نور کا گانا اس لئے سلامت رہا کہ اس کی شادی بھی موسیقی کے شیدائیوں میں ہوئی۔ شوہر کو بھی گانے کا شوق تھا۔ نیرہ نے فلموں کے لئے بہت کم گایا کہ فلموں والے دستخط تو دس ہزار کے کرواتے تھے اور دیتے چند ہزار تھے۔ اب بچے ماشاء اللہ جوان ہو کر کام کرنے لگے ہیں تو خود نیرہ نے گانا بند کر دیا ہے۔ ہماری تو خواہش ہے کہ نیرہ گائے اور خوب گائے مگر اس کی مرضی۔
یہ صحیح ہے کہ اگر مرضی نہ ہو تو کوئی بھی فن چھوڑ دینا، ذاتی خواہش ہو سکتی ہے مگر ہم نے دیکھا کہ منور سلطانہ نے گانا چھوڑا کہ ایوب رومانی نے ریڈیو میں ہونے کے باوجود ان کا گانا چھڑوا دیا تھا۔ اب کس کس کا نام لوں اور بتاؤں کہ سیاں چوہدری نے کس طرح گانے کو ترک کیا۔ بلقیس خانم نے کبھی کبھی گانے پر کیوں انحصار کیا۔ یہ رہ گئی اکیلی ٹینا ثانی جو بچے کے ذرا بڑے ہونے کے بعد اسقامت کے ساتھ اور بہت اچھا گا رہی ہیں ورنہ ایک دو غزلیں گانے کے بعد گل بہار، غائب ہوگئیں۔ شاہدہ پروین کے ساتھ زندگی نے وفانہ کی ورنہ کافی اور ٹھمری گانے میں اس کا کوئی جواب نہ تھا۔
خلاصہ یہ کہ ہماری فنکار خواتین اپنے خاندان کو عزت دلانے کے لئے بہت کام کرتی ہیں۔ جب خاندان زندگی کی معراج پہ پہنچ جاتا ہے تو ان کا وہی گانا گھر والوں کو لائق عزت نہیں لگتا ہے۔ امیر خسرو کو ناہید اختر اور مہناز نے گا کر امر کردیا تھا ان کی زندگی میں بہت کٹھن مراحل آئے مگر سب سہہ گئیں۔ آج جب مہناز نہیں ہے تو مجھے اپنی ساری دوستیں یاد آرہی ہیں جو ہیں ان کو خدا سلامت رکھے۔
تازہ ترین