• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیصل کامران ایک دین دار اور دیانت دار افسر تھا۔جوڈو کراٹے میں بلیک بیلٹ تھا۔ایک ماہر نشانہ باز تھا۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر پوری دسترس رکھتا تھا۔اس کے پاس ایک سکھی اور خوشگوار فیملی تھی ۔وہ پختہ ارادوں اور حوصلوں والا نوجوان تھا۔پوری ایمانداری سے اپنی ملازمت کرتا تھا۔جھوٹ اور کرپشن کے خلاف ایک ایسی دیوار کی طرح تھا جسے گرانا ممکن نہیں تھا۔کرپشن کو روکنے کیلئے کئی دفعہ اپنے افسران کے ساتھ تلخ کلامی تک جا چکا تھا۔حتیٰ کہ ایک مرتبہ اس سے زبردستی رینٹل پاور کیس کی فائل تک چھین لی گئی تھی۔ ایسا نوجوان بغیر کچھ کہے ، بغیر کچھ بتائے بغیر ، کوئی خط ، کوئی ای میل، کوئی میسج کئے بغیر کس طرح خود کشی کر گیا ہے یہ بات حلق سے اترتی نہیں۔ بے شک رینٹل پاور کیس میں ملوث لوگ بہت طاقت ور تھے۔ اربوں روپے کا معاملہ تھامگر وہ تو اس کیس کی تفتیش کو انجام تک پہنچا تھااب اسے خود کشی کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ دباؤ سے نکلنا تو لمحہ بھرمیں ممکن تھا۔ ملازمت ہی چھوڑنی تھی نا اورملازمت چھوڑنے کا حق اس کے پاس تھااس حق کے ہوتے ہوئے زندگی چھوڑنے کا” تُک “ہی نہیں بنتا ۔کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ وہ دباؤ کا شکارتھا۔ایسا دباؤ جو کسی کو خود کشی پر مجبور کررہا ہو وہ دور سے دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے چچا کے بقول اس کی اسی رات نو بجے اس کے ساتھ گفتگو ہوئی تھی وہ بالکل نارمل تھا۔ اسی رات اس کی اپنی وائف سے بھی بات ہوئی جس سے وہ موبائل فون میں بیلنس ڈلوانے کی بات کر رہا تھاپھر جب صبح اسے لٹکا ہوا دیکھا گیا تو اس وقت کمرے میں لائٹ آف تھی۔ یعنی لٹکنے کے بعد اس کی روح نے پرواز کرنے سے پہلے بجلی کا بٹن بھی بند کیا تھا۔ چلیے ایک لمحے کو تصور کرلیتے ہیں کہ اس نے خود کشی کی۔ تو اسے اتنے تکلیف دہ عمل سے گزرنے کی کیا ضرورت تھی۔گن بھی اس کی دسترس میں تھی نیند آور گولیاں بھی اس کے پاس تھی اس کے باوجوداس نے ازار بند جوڑ کرپنکھے سے لٹک کر خود کشی کی ۔پھر اس میز کے متعلق کچھ پتہ نہیں ہے جس پر کھڑا ہو کر اس نے خود کوپنکھے کے ساتھ لٹکایااس میز کو کیسے پاؤں سے دور دھکیلا۔کیا کسی نے یہ چیک کیا ہے کہ اگر وہ میز پنکھے کے نیچے رکھی جائے تواس کے پاؤں میز تک پہنچتے بھی ہیں یا نہیں یا میز سے نیچے آرہے ہیں۔ پھر لٹک کر مرنے والے کی گردن لمبی ہوجاتی ہے آنکھیں باہر آجاتی ہیں۔کامران فیصل کی نہ آنکھیں باہر نکلی ہوئی تھیں نہ گردن لمبی ہوئی تھی۔
کامران فیصل نے ایک دن پہلے اپنی بہن کو فون پر کہا تھا کہ میں بہت خوش ہوں کہ چیف جسٹس نے مجھے وہ کیس واپس لے دیا ہے جو مجھ سے لے لیا گیا تھا۔ یقیناً سپریم کورٹ کے ساتھ کامران فیصل کے اچھے روابط تھے ۔اس بات کا ثبوت اس کی لکھی ہوئی وہ رپورٹس ہیں جن پر نیب کے چیئرمین نے دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا اور وہ چیئرمین کے دستخط کے بغیر سپریم کورٹ تک پہنچ گئی تھیں۔ جنہیں وہاں دیکھ کر چیئرمین نیب پریشان ہوگیا تھا۔ یعنی وہ چاہتاتو چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی ای میل کر سکتا تھا۔ اس کیس کے حوالے سے اس کے پاس جو مواد تھا یقیناً اس کے لیپ ٹاپ میں ہونا تھا یا کمپیوٹر میں، لیکن اس کا لیپ ٹاپ کمرے میں موجود نہیں تھا۔کہاں چلا گیااس پر کسی نے غور نہیں کیا۔ خود اڑ کر کہیں گیا یا کوئی اٹھا کر لے گیا۔ اٹھانے والا کون ہوسکتا ہے ایسے سوالات پر پولیس غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہی۔ پولیس اس کے پاس کسی لیپ ٹاپ کی موجودگی کو تسلیم ہی نہیں کر رہی،کیوں؟۔ پھرکامران فیصل کے کمپیوٹر سے بھی کچھ نہیں مل سکا یعنی سب کچھ ڈیلیٹ کردیا گیا تھامگر کیسے؟ کمپیوٹر سے تو کچھ بھی مکمل طور پر ڈیلیٹ کرنا ممکن ہی نہیں۔ کمپیوٹر کو جاننے والوں کو علم ہے کہ اس کی ہارڈ ڈرائیو سے ڈیلیٹ شدہ تمام معلومات دوبارہ نکالا جا سکتا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ یا تو کمپیوٹر سے ڈیلیٹ شدہ مواد نکالنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی یا پھر کمپیوٹر کے اندر سے کامران فیصل کی ہارڈ ڈرائیو نکال کر کوئی دوسری ہارڈ ڈرائیو لگادی گئی ہے ۔اس کے علاوہ اس کی سرکاری ڈائری بھی کمرے میں موجود نہیں تھی۔ یہ سب چیزیں کہاں چلی گئیں
نیب کے کچھ لوگ پولیس کی آمد سے پہلے کمرے میں کھڑکی کی وساطت سے داخل ہوچکے تھے۔ نیب کے لوگ کس لئے وہاں پہنچے اور کھڑکی کے راستے اندر کیوں داخل ہوئے۔ وہ دوگھنٹے تک اس کمرے میں کیا کرتے رہے۔دو گھنٹوں بعد پولیس کو کیوں بلایا گیا۔ انہوں نے پولیس کے آنے سے پہلے لاش اتارکیوں لی ۔ پولیس جب وہاں پہنچی تھی تو لاش بستر پر اوندھی کیوں پڑی ہوئی تھی ۔ وقوعہ میں استعمال ہونے والی چیزیں پولیس نے اپنی تحویل میں کیوں نہیں لیں ،خاص طور پر وہ میز جس پرکھڑا ہو کر پھندا گلے میں ڈالنے کی کہانی بیان جارہی ہے ۔سب سوال ابھی تک جواب کے منتظر ہیں ۔پوسٹ مارٹم کی رپورٹ جس کے مطابق اس کے جسم پر کوئی خراش بھی نہیں تھی۔ اسے مسترد کرتے ہوئے اہل خانہ نے لاش میڈیا کے سامنے رکھ دی جس پر تشدد کے نشان موجود تھے اور کہاکہ یہ پوسٹ مارٹم رپورٹ جھوٹ کا پلندا ہے۔ ٹیلی ویژن پر تشدد کے نشان تک دکھائے گئے مگر کسی عدالت یا کسی اتھارٹی نے یہ حوصلہ نہ کیا کہ لاش کے دوبارہ پوسٹ مارٹم کا حکم دے دے ۔ کامران فیصل کے والد نے کہا کہ میرابیٹاایک مسلمان تھااور الٰم سے والناس تک ہر آیت کا مفہوم جانتا تھا وہ خودکشی کر ہی نہیں سکتا تھا اور خودکشی کرنے و الے کی کلائیوں اور پنڈلیوں پر رسیاں باندھنے کے نشانات نہیں ہوتے، اپنے آپ کو باندھ کر کوئی خود کشی نہیں کرتااور اگر اس نے ہاتھ پاؤں باندھ کر خود کشی کی ہے تو انہیں کھولاکس نے اور وہ رسیاں کہاں گئیں ۔اس کے کمرے میں اس کے ساتھ ایک روم میٹ تھا جو وقوعہ کی رات اپنے گھر گیا ہوا تھا ابھی تک اس کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ کیوں ۔
مسلسل یہی کہا جارہاہے کہ اس نے دباؤ میں آکر خود کشی کرلی ہے۔ یعنی وہ ذہنی مریض تھا۔ بے شک ذہنی امراض میں ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جس کی انتہا پر مریض خود کشی بھی کر لیتے ہیں لیکن کامران فیصل کے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے کہ انہیں اس درجہ ڈپریشن تھا اگر ایسا کچھ ہوتا تو دفتر میں اس کے ساتھ کام کرنے والے تمام ساتھیوں کو علم ہوتا یہ کوئی ایسا مرض نہیں کہ جسے چھپایا جاسکے اس کی بیوی اور اہل خانہ سے یہ مرض نہیں چھپ سکتا تھا۔
پھروہ روم میٹ جوہر رات اس کے ساتھ ہوتا ہے اس سے زیادہ اس مرض کا کسے علم ہوسکتا ہے ۔ ایک اطلاع کے مطابق نہ اس کے گلے سے انگلیوں کے نشان اٹھائے گئے اور نہ اس کمرے سے ۔کیوں ۔پولیس کویہ کام کرنے سے کس نے روکا۔پولیس نے اس طرف توجہ کیوں نہیں دی کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ لٹکانے سے پہلے کسی نے اسکی گردن دبا کر اسے نیم مردہ کردیا ہو۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ پوسٹ مارٹم کرنے والے پہلے تین ڈاکٹر کیوں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے۔ کیا ان پر بھی کوئی دباؤ تھا ۔بعد میں بلائے جانے والے تین ڈاکٹرزجنہوں نے اس قتل کو خود کشی قرار دیا ۔سنا ہے کہ وہ پہلی بار کسی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے آئے تھے کیونکہ بحیثیت میڈیکل ڈاکٹر یہ ان کی فیلڈہی نہیں تھی ۔
کامران فیصل نے ایک دوست کوجو میسج کیا تھا کہ ڈی جی ایچ آر پرانی تاریخوں میں بیان حلفی چاہتے ہیں اور اس دوست نے اسے جواباً میسج دیا تھا کہ فون بند کردو اور کمرے کا دورازہ بھی بند کردو ۔یعنی اسے اور اس کے دوست اس سلسلے میں کوئی خطرہ بھی تھا ۔حیرت ہے ابھی تک پولیس نے اس سلسلے میں ڈی جی ایچ آرسے پوچھ گوچھ نہیں کی۔کامران فیصل نے ایک دوست کوجو میسج کیا تھا کہ ڈی جی ایچ آر پرانی تاریخوں میں بیان حلفی چاہتے ہیں اور اس دوست نے اسے جواباً میسج دیا تھا کہ فون بند کردو اور کمرے کا دورازہ بھی بند کردو ۔یعنی اسے اور اس کے دوست اس سلسلے میں کوئی خطرہ بھی تھا ۔حیرت ہے ابھی تک پولیس نے اس سلسلے میں ڈی جی ایچ آرسے پوچھ گوچھ نہیں کی۔
میرے خیال میں لاش کے دوبارہ پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہے ایسے ڈاکٹر وں سے جن کے کردار بے داغ ہوں مگر ان سب باتوں سے پہلے چیئرمین نیب کو استعفی دینا چاہئے تاکہ غیر جابندارنہ تفتیش ہو سکے ۔اب جونیب کے ملاز مین کو سیکورٹی فراہم کرنے کاوعدہ کیا جارہا ہے اس کا مفہوم بھی یہی ہے کہ وعدہ کرنے والوں کو معلوم ہوچکا ہے کہ یہ خود کشی نہیں قتل ہے ۔جس شخص نے مرنے سے ایک دن پہلے اپنی بہن کو فون کرکے کہا ہوکہ قدرت مجھ سے کوئی بڑا کام لینا چاہ رہی ہے ۔وہاں یہ کیسے تسلیم کرلیا جائے کہ اگلے دن اس نے اپنے آفسران کے دباؤ میں آکر خودکشی کر لی۔ ۔جسٹس عظمت سعید کا یہ جملہ کتنا بامعنی ہے کہ ”پتہ نہیں جنازہ کامران فیصل کا اٹھا ہے یا نیب کی ساکھ کا“یقینا فیصل کامران کا جنازہ نیب کی ساکھ کا جنازہ تھا۔اب نیب کی کسی تفتیش پر کسی نے اعتبار نہیں کرنا۔مگرسب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اگر یہ طے بھی پاگیا کہ کامران فیصل نے خود کشی نہیں کی اسے قتل کیا گیا ہے ۔تو پھر کیا ہوگا۔پھر اس کے قاتلوں کو کون تلاش کرے گا۔۔۔۔وزیر اعظم پاکستان؟
تازہ ترین