• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چل منصور چل کسی طوطے سے فال نکلواتے ہیں کہ بجٹ کیسا ہوگا ۔یہی وہ واحد ’’ماہر ِ مقدرات ‘‘ہے جو نیک فال نکالتا ہے۔میں نے ایک بار ایک طوطے سے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا:میں دماغ سے نہیں چونچ سے فال نکالتا ہوں ۔طوطے بھی کئی قسم کےہوتے ہیں ۔کشمیری طوطے ، پنجابی طوطے ، پٹھان طوطے ۔سب کے اعمال اپنے اپنے ہوتے ہیں مگر چونچ کی رنگت سانجھی ہوتی ہے ۔ آدمی بھی اپنے منہ سے وہی کام لیتے ہیں جو طوطے اپنی چونچ سے مگراللہ آدم زاد کی زبان دار چونچ سے بچائے کہ یہ باہر سے توسفید مگر اندر سے کالی کلوٹی ہوتی ہے ۔اہلِ سیاست کی زبانیں تو صرف کالی ہی نہیں نیلی اور پیلی بھی ہوتی ہیں ۔زبان کی کئی اور اقسام بھی ہیں ۔لمبی زبان ، کڑوی زبان ، میٹھی زبان ، تیزدھار زبان ،جھوٹی زبان، گائو زبان وغیرہ ۔ویسے تو ماضی کا تجربہ یہی بتاتاہے کہ اپوزیشن کے منہ میں ہمیشہ ’’کالی زبان ‘‘ ہوتی ہے ۔جلد یا بدیر ،اُس کے منہ سےنکلی ہوئی بات پوری ہوجاتی ہے ۔یہ پہلی مرتبہ ہواہے کہ حکمرانوں کے منہ میں کالی زبان دکھائی دینے لگی ہے ، نیلی اور پیلی بھی ۔یہ زبانیں نئے دورکے ٹی وی پروگرامزکی پیداوار ہیں ۔سنا ہے یرقان زدہ لہجے کے لوگوں کی زبان پیلی ہوتی ہے ۔نیلی زبان پر ابھی تحقیق جاری ہےمگر اتنا پتہ چلا کہ جن کے پاس دلیل نہیں ہوتی ان کی زبان نیلی ہوتی ہے۔اس وقت اپنا موضوع صرف کالی زبانیں ہیں ۔گزشتہ دنوںایک زبان ِ سیاہ نے کہاتھا:پانچ سالوں میں حکومت پچاس لاکھ مکان نہیں پچاس لاکھ افراد کی لسٹ بنالے تو بڑی بات ہے۔ جی پچاس لاکھ لوگوں کی فہرست تیار ہو چکی ہے ۔ڈیٹا جمع ہو چکا ہے مگر یہ پچاس لاکھ لوگ وہ نہیں جنہیں مکانوں کی ضرورت ہے یہ پچاس لاکھ لوگ تو وہ ہیں جو آرام دہ اور عالیشان مکانوں میں رہتے ہیں ۔جن کے گھروں کا ایک ایک کنال کا لان ہے ،جوکمرشل پلازوں کے مالک ہیں ۔ بڑی بڑی گاڑیاں رکھتے ہیں ۔ جنہوں نے بیرون ملک جائیدادیں بنا رکھی ہیں ۔جن کےبچے مہنگے مہنگے اسکولوں میں پڑھتے ہیں ۔جن کے پاسپورٹس پر ہر سال کئی ایئرپورٹس کی مہریں لگتی ہیں ۔بڑی بڑی دکانوں والے ۔جن کےلمبے لمبے کاروبار ہیں ۔بینک اکائونٹس میں بڑی بڑی رقمیں پڑی ہیں ،پانچ لاکھ روپے تک پڑی ہوئی رقم نظر انداز کر دی جائے گی۔یہ ڈیٹا نادرا، ایف آئی اے، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک اور نیب نے مل کر جمع کیا ہے ۔ان لوگوں کے خلاف 30 جون رات بارہ بجے کے بعدآپریشن شروع ۔جائیداد یں ضبط ۔بڑی سطح پرگرفتاریاں ۔اس عمل کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کےلئے شاید صدر عارف علوی کوئی صدارتی آرڈیننس بھی جاری کریں گے جس کے سبب نہ عدالت سےضمانت ملے گی اور نہ اسٹے آرڈر جاری ہو سکے گا۔

ماہ رمضان کے آخری عشرے میں صدر عارف علوی سے دو ملاقاتیں ہوئیں ۔ایک دن میں رحم کی درخواست لے کر صدر ہائوس گیا تھا۔صدر مملکت کا خیال تھا کہ جن مجرموں کو عدالتیں سزائے موت سنا دیتی ہیں انہیں سزائے موت ملنی چاہئے۔میرا موقف تھاکہ ہمارا عدالتی نظام ابھی اتنا بہتر ہوانہیں،ابھی صدرِ پاکستان نے رحم کی اپیلیں فراخ دلی سے سننی ہیں ۔بہتری لانے کی ضرورت ہے ۔قتل کے کیس میں کوئی گواہی سچی ہوتی ہی نہیں ۔مقتول کے لواحقین ہمیشہ اپنے قریبی لوگوں کو بطور ِگواہ پیش کرتے ہیں ،وہ موقع ِ واردات پر موجود نہیں ہوتے ۔معاشرہ اتنا بے حس ہو چکا ہے کہ سچی گواہی خواب بن گئی ہے ۔ سو بے گناہ کے پھانسی چڑھنے سےبہتر ہے کہ گناہگار بچ جائے ۔صد ر مملکت سے دوسری ملاقات صدر ہائوس کی ایک افطاری پر ہوئی جس میں انہوں نے کچھ یتیم بچوں کو افطاری پر بلایا ہوا تھا ۔ان ملاقاتوں کا کریڈٹ صدر مملکت کے نئے پریس سیکرٹری میاں جہانگیر کو جاتا ہے ۔ میرے نزدیک اُن کی تقرری صدر ہائوس کےلئے خوش بختی ہے ۔

کچھ کالی نیلی پیلی زبانیں حکومت کے خلاف امکانی احتجاجی تحریک کی خبریں بھی سنا رہی ہیں ۔راناثنااللہ کی زبان سے لاپتہ اپوزیشن لیڈر’’شہباز شریف کی واپسی‘‘کا اعلان ذرا تیکھے انداز میں ہوا ہے ۔ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نےتو انہیں یہ کہہ کر عید پر بلا یا تھا کہ ’’آجا تینوں اکھیاں اڈیک دیاں نیب واجاں مار ادا‘‘دیکھتے ہیں انہیں ریسو کرنے کےلئے ایئرپورٹ پر عوام جاتے ہیں یانیب کے اہلکار۔پیپلز پارٹی بھی پریشان ہے کہ پنجاب میں احتجاجی تحریک کی ذمہ داری تو نون لیگ پر ہے مگر سندھ ؟ ۔سندھ حکومت کے زیر سایہ احتجاجی تحریک شروع ہوئی تووفاقی حکومت کوگورنر راج لگانے سے کون روک سکتا ہے۔پھر انہیں نون لیگ پر اعتبار بھی نہیں ۔کیا خبر کس وقت آصف علی زرداری اینٹ سے اینٹ بجانے کا نعرہ لگائیں اورمڑ کر دیکھیں توپیچھے کوئی نہ ہو۔ایک مولانا فضل الرحمن ہیں جو بہت جھنجھلائے پھرتے ہیں ۔ نئےنئے باہر آئے ہیں اقتدار سے ، شاید پہلی بار۔وہ مدارس کے طالب علموں کو انتہائی سخت گرمی میں سڑکوں پر لانے کا فیصلہ کر چکے ہیں ،چاہے اُن کی سفید رنگت سیاہ ہی کیوں نہ پڑ جائے ۔خود اپنے لئےانہیں ایئرکنڈیشنڈ کنٹینر بنوانے کا مشورہ دیا گیا ہے مگرانہیں اپنی لینڈ کروزر کے اے سی پر بہت بھروسہ ہے ۔بڑا اچھا کام کرتا ہے ۔ روح تک کو یخ بستہ کر دیتا ہے ۔ویسےمیراخیال تو یہی ہےکہ یہ تحریک بن کھلے ہی مرجھا جائے گی ۔اس کا تعلق عوام کے مسائل سےکم اور خواص کے وسائل سے زیادہ ہے۔اِ س کی بنیاد میں بے نامی بینک اکائونٹس ہیں ،وہ مسئلہ بنے ہوئے ہیں ۔ظالم بیرونی جائیدادیں بچانے کےلئے جون کی آگ اگلتی گرمی میں عوام کو سڑکوں پر لانا چاہتے ہیں ۔

تازہ ترین