• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ شادی کی ایک تقریب تھی مجھے دور سے ایک صوفے پر جگہ نظر آئی وہاں جاکر بیٹھ گیا چند لمحوں کے بعد اپنے پڑوسی پر نظر پڑی تو احساس ہوا کہ چہرہ شناسا ہے یاد آیا کہ یہ صاحب سپریم کورٹ کے جج ہیں اور میں نے انہیں ٹی وی کی اسکرین پر دیکھا ہوا ہے۔ اتنے میں ایک اور صاحب آگئے جو جج صاحب کے پرانے واقف کار تھے۔ انہوں نے جج صاحب سے ہاتھ ملاتے ہی تبصرے کا پھول پھینکا۔ پھول کانٹے دار تھا جس کی تصدیق ان صاحب کی معنی خیز مسکراہٹ کر رہی تھی۔ انہوں نے فرمایا ”آج کل تو آپ نے ساری حکومت کو ٹیک اوور کیا ہوا ہے“۔ ان کا اشارہ سپریم کورٹ کی جانب تھا جج صاحب تو خاموش رہے کہ جج کی خاموشی اچھی لگتی ہے لیکن مجھ سے نہ رہا گیا۔ وہ حضرت میرے بھی جاننے والے تھے، چنانچہ میں نے جج صاحب کی خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عرض کیا کہ صاحب جب ہر طرف کرپشن، نااہلی، بدنیتی اور لاقانونیت کے دریا بہہ رہے ہوں اور انتظامیہ لوٹ مار میں مصروف ہونے کے ساتھ ساتھ بے حس ہو، وہاں کسی ادارے کو تو عام لوگوں کی داد رسی کا فرض سرانجام دینا چاہئے۔ موجودہ ماحول میں لوگ انصاف اور اپنے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے عدلیہ کی جانب دیکھتے ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ عدلیہ لوگوں کی توقعات کا بھرم بھی رکھتی ہے۔ اسے آپ ٹیک اوور کہہ لیں یا ایکٹوزم آپ کی مرضی لیکن ذرا یہ تو سوچئے کہ اگر یہ چراغ بھی بجھ جائے تو لوگوں کے لئے صرف تاریکی باقی بچے گی، انتظامیہ کی من منی کے راستے میں واحد رکاوٹ طاقتور آزاد عدلیہ ہے۔ اگر یہ رکاوٹ بھی ہٹ جائے تو یقین رکھئے ملک میں (غدر) مچ جائے گا۔ ویسے اب بھی کوئی کسر باقی نہیں۔ میں تو انتظامیہ کی دیدہ دلیریاں، من مانیاں اور لاقانونیت کے ”تماشے“ دیکھتا ہوں تو حکمرانوں کی سنگدلی کی داد دیتا ہوں اور خود پریشانی کے سمندر میں ڈوب جاتا ہوں۔
وہ صاحب تو میرا لیکچر سن کر خاموش ہوگئے لیکن میں دل ہی دل میں سپریم کورٹ کی ”سخت جانی“ کی داد دینے لگا۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر موجودہ سپریم کورٹ سخت جان نہ ہوتی تو کبھی کی بے بسی کا رونا رو کر پرانی راہ اختیار کرلیتی۔ پرانی راہ کیا تھی؟ آپ جانتے ہیں کہ تقریباً 54برس تک پاکستان پر اسٹیبلشمنٹ حکومت کرتی رہی اور نظریہ ضرورت کا طوق قوم کی گردن میں سجا رہا۔ اسٹیبلشمنٹ کیا تھی؟ عدلیہ، انتظامیہ اور فوج کا گٹھ جوڑ… سادہ الفاظ میں فوج، عدلیہ اور حکمرانوں کے گٹھ جوڑ نے 1954ء میں قانون ساز اسمبلی کی منسوخی سے لے کر جنرل پرویز مشرف کے ٹیک اوور تک ملک پر حکومت کی۔ عدلیہ دلیری سے انتظامیہ اور فوج کے ہر غیر آئینی اقدام پر مہر تصدیق ثبت کرتی رہی۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے ساتھ وہ گٹھ جوڑ ٹوٹا، عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہوئی تو لوگوں نے نصف صدی کے بعد سکھ کا سانس لیا اور ہماری تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ریاست کے تین ستونوں (مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ) میں سے صرف ایک ادارے کی کوششیں اور قانون کی حکمرانی کے نفاذ کی خواہشیں عوام کے مسائل کو حل نہیں کرسکتیں۔ ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے تینوں ستونوں یا اداروں کی ایک جیسی کارکردگی اور خلوص نیت ضروری ہے۔ میری اس گزارش کے پس منظر میں ملکی افق پر نگاہ ڈالئے اور صرف گزشتہ چند ماہ کی پیش رفت کا تجزیہ کیجئے، بات واضح ہوجائے گی۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ انتظامیہ یعنی حکمران اتنے طاقتور ہیں کہ انہیں نہ مقننہ کی پروا ہے اور نہ عدلیہ کی اور نہ ہی رائے عامہ کی۔ پارلیمینٹ حکمرانوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنی نظر آتی ہے چنانچہ ڈرون حملوں سمیت پارلیمینٹ کی قراردادیں ناکامی کی تصویریں بن چکی ہیں۔ زیادہ دور نہ جائیں، ابھی کل کی بات ہے کہ کئی ماہ تک سپریم کورٹ میں سوئٹزر لینڈ کیس کا ذکر ہوتا رہا۔ یہ ثابت ہوچکا کہ صدر زرداری نے ایس جی اور کوٹیکناکمپنیوں سے کمیشن لے کر تقریباً ساٹھ ملین ڈالر سوئٹزر لینڈ کے بینک میں چھپائے ہوئے تھے۔ چیف جٹس نے دو درجن بار اس عزم کا اعادہ کیا کہ یہ رقم پاکستانی قوم کی ہے اور اسے ہر قیمت پر واپس لایا جائے گا۔ کئی برس تک اس رقم کی واپسی کا مقدمہ چلتا رہا اور حکومت ٹال مٹول سے کام لیتی رہی۔ سوئٹزر لینڈ حکومت کو خط لکھنے کا معاملہ طول پکڑتا گیا حتیٰ کہ توہین عدالت میں سزا پاکر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی مستعفی ہوگئے۔ اندر کی بات تو یہ ہے کہ گیلانی صاحب اور ان کا خاندان ان گنت سکینڈلوں میں ملوث ہوکر حکمرانوں کے لئے بھاری پتھر بن گیا تھا جبکہ زرداری صاحب کے لئے ان کے اپنے سکینڈل ہی کافی تھے چنانچہ صدر صاحب نے حکمت سے کام لیتے ہوئے گیلانی سے نجات حاصل کرلی۔ گیلانی ”شہید سوئٹزر لینڈ“ کا خطاب پاکر رخصت ہوگئے۔ سوئٹزر لینڈ میں کیس کھلنے کا قانونی عرصہ گزر گیا تو حکومت نے راجہ پرویز اشرف کی حکومت سے خط لکھوا دیا۔ تازہ اطلاع کے مطابق زرداری صاحب سوئٹزر لینڈ کے بینک سے رقم منتقل کروا کر کہیں اور ٹھکانے لگا چکے ہیں۔ سوچئے کہ یہ کیس کتنا عرصہ چلتا رہا، چیف جسٹس رقم کی واپسی کا بار بار اعلان کرکے قوم کو خوشخبری سناتے رہے۔ نتیجہ کیا نکلا؟صفر!!۔ سٹیل ملز، پی آئی اے اور نیب قومی ادارے ہیں، تینوں ادارے ہماری آنکھوں کے سامنے برباد ہو رہے ہیں۔ سٹیل ملز اور پی آئی اے نے اربوں روپوں کا بوجھ قومی خزانے پر ڈال رکھا ہے۔ سپریم کورٹ کئی بار ہدایات دے چکی ہے۔ عمل کا خانہ خالی ہے یہی حال کراچی کے امن عامہ کے حوالے سے ہوا۔ سپریم کورٹ کی ہدایات پس پشت ڈال دی گئیں۔ بلوچستان حکومت کے بارے بھی سپریم کورٹ کے ریمارکس کو اس وقت تک اہمیت نہ دی گئی جب تک ہزارہ قبیلے نے میتیں سڑک پر رکھ کر چار دن تک احتجاج نہ کیا۔ خدایا۔ وہ منظر یاد آتا ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہزارہ قبیلے کے لوگ اپنے پیاروں کے جنازے رکھے نہایت پرامن احتجاج کرتے رہے اور حکمران بے حسی سے عوام کے مٹنے کا منظر دیکھتے رہے۔ وزیراعظم جاگے تو کوئی دو دن بعد… وزیراعلیٰ کیمبرج کے ہوٹل میں پڑے خراٹے لیتے رہے۔ شاید ہی دنیا کی تاریخ میں سیاسی حکمرانوں، اور جمہوری حکومتوں کی ایسی بے حسی کی مثالیں ملتی ہوں۔ میمو گیٹ سکینڈل ملکی سکیورٹی کے حوالے سے نہایت اہم تھا۔ بڑا شور و غوغا ہوا:
سپریم کورٹ نے فیصلہ دیدیا، نتیجہ کیا نکلا؟ رینٹل پاور ہاؤسز کیسز میں سپریم کورٹ نے وزیر پانی بجلی کو قانون و ضابطے کی خلاف ورزی اور کرپشن کا ذمہ دار قرار دیا۔ زرداری صاحب نے اسے وزیراعظم بنا دیا۔ سپریم کورٹ نے رحمان ملک کو سزا دی۔ صدر صاحب نے معاف کر دی۔ اصغر خان کیس سمیت بہت سی مثالیں ہیں لیکن دہرانے کا کیا فائدہ کہ یہ ابھی کل کی باتیں ہیں۔ حج سکینڈل کے بعد دوسرا بڑا سکینڈل توقیر صادق کی شکل میں سامنے آیا۔ ذرا ملاحظہ فرمایئے کہ توقیر صادق میٹرک پاس ہے لیکن گیلانی صاحب نے اسے اوگرا کا سربراہ لگا دیا۔ ایسی مثالیں تو مغلیہ دور حکومت میں بھی نہیں ملتیں۔ مغل بادشاہ بھی اہم عہدوں پر تقرری سے قبل اہلیت کو پرکھتے تھے۔ توقیر صادق نے قومی خزانے سے 82بلین روپے کی کرپشن کی۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ کیا اتنے تھوڑے عرصے میں وہ 82ارب رپے اکیلا ہضم کرگیا؟ اگر اس نے ”حصے“ نہ دیئے ہوتے تو حکمرانوں کو پسو نہ پڑتے، نہ اسے سرکاری محلات میں چھپایا جاتا، نہ جھنڈے والی گاڑی میں اسلام آباد پہنچایا جاتا اور نہ پاسپورٹ منسو خ ہونے کے باوجود نہایت محفوظ طریقے سے ملک سے باہر بھجوایا جاتا۔
یواے ای کی پولیس نے توقیر صادق کو پکڑا تو گرفتاری کے کاغذات نامکمل ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ کاغذات نامکمل بدنیتی کی بین دلیل ہیں۔ شاہ رخ کو قتل کا مجرم ہونے کے باوجود پروٹوکول کے ساتھ دبئی بھجوایا گیا۔ فیوچر کنسرن کا مالک عاصم ملک اربوں روپے کا فراڈ کرکے ملک کے ایک وزیر کے ذریعے انگلستان پہنچ گیا کس کس زخم کو چھیڑوں اور کس کس کا نوحہ لکھوں۔ سپریم کورٹ سخت جان ہے کہ اپنی بے بسی سے سمجھوتہ نہیں کرتی اور حکمران بے حس اور طاقتور ہیں کہ انہیں کسی کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں۔ پتہ یہ چلا کہ جب تک ریاست کے تینوں ادارے راہ راست پر نہ چلیں عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں نہ ملک کے حالات سنور سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اتنی کرپشن، لاقانونیت اور اقرباء پروری کے باوجود حکمران کیوں اتنے بے حس، لاپروا اور پراعتماد ہیں؟ یہ صورتحال اس لئے ہے کہ انہیں یقین ہے ان کے ووٹر پھر بھی انہیں ووٹ دیں گے۔ وہ اپنے سیاسی کارکنوں کو نوکریاں اور دوسری چھوٹی چھوٹی سیاسی رشوتیں دے کر خوش کر رہے ہیں اور خود اربوں روپوں کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ بحث کا حاصل یہ ہے کہ جب تک عوام ایماندار اور اہل لوگوں کو منتخب نہیں کریں گے اور کرپٹ حکمرانوں کو مسترد نہیں کریں گے حالات میں تبدیلی کی آرزو شرمندہ تعبیر نہیں ہوگی۔
نوٹ:(گزشتہ سے پیوستہ کالم میں میں نے ” ترک مولات“ لکھا تھا جسے ” ترک حوالات“ بنا دیا گیا۔ پرسوں تصحیح کی تو ”ترک سوالات“ بن گیا، قارئین نوٹ فرمالیں اصل الفاظ ترک موالات ہے جو عدم تعاون کی تحریک کا حصہ تھا)
تازہ ترین