• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک بار پھر پاکستانی فوج نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔14 سے17 جنوری تک تحریک منہاج القرآن کے ہزاروں حامیوں نے اسلام آباد میں دھرنا دیا ہوا تھا۔ دوسری طرف رینٹل پاور کیس میں سپریم کورٹ نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور دیگر ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا، یہ وہ لمحات تھے جب فوج مداخلت کرتی تو اُسے بے جواز قرار نہیں دیا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس طرح گزشتہ پانچ سال کے دوران فوج نے دوسرا موقع گنوا دیا۔ ایک موقع اُس وقت تھا جب موجودہ چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے لاہور سے اسلام آباد مارچ شروع کیا تھا۔
یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی‘ مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنے کی یک زبان ہوکر مخالفت کی اور جمہوری عمل کے تحفظ کے لیے بے مثال اتحاد کا مظاہرہ کیا‘ جس پر قوم بجا طور پر فخر کرسکتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوج نے بھی قابل تحسین کردار کا مظاہرہ کیا، اس پر بھی قوم کو فخر کرنا چاہئے۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ سیاسی قوتوں کے اتحاد کی وجہ سے فوج نے سیاست میں مداخلت نہیں کی۔ ان لوگوں کی طرف سے یہ رائے قائم کرنے کا بھی پس منظر ہے لیکن حقائق قدرے مختلف ہیں۔ ہمیں سیاسی قوتوں کے کردار کی لازماً تعریف کرنی چاہئے۔ جو سیاسی قوتیں ماضی میں فوج کے اشاروں پر کام کرتی رہی ہیں‘ اگر وہ آج سیاست میں فوج کے کردار کی مخالفت کررہی ہیں تو یہ اچھی بات ہے لیکن اگر فوج شعوری طور پر سیاست میں مداخلت نہیں کرتی ہے تو یہ اور اچھی بات ہے۔ اسی نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ سیاست میں فوج کی مداخلت ہوتی تو حالات دوسرے ہوتے۔
23 دسمبر 2012ء کو جب لاہور کے مینار پاکستان پر پاکستانی نژاد کینیڈا کے شہری ڈاکٹر طاہر القادری نے بہت بڑا جلسہ عام منعقد کرکے دکھا دیا تھا کہ اُس وقت سے قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں۔ کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو کسی بڑی طاقت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ بعض خفیہ اداروں نے یہ رپورٹس دیں کہ مذکورہ جلسہ عام میں ایسی کالعدم تنظیموں نے بھی شرکت کی‘ جو نظریاتی طور پر ڈاکٹر طاہر القادری کی مخالف ہیں اور جلسے میں بہت سے ایسے لوگوں کی موجودگی کی بھی اطلاعات دی گئیں‘ جن کا کسی بھی سیاسی اور مذہبی جماعت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ ڈاکٹر طاہر القادری کو پوری طرح جانتے بھی نہیں تھے، جلسہ عام میں ایسے بھی لوگ تھے جو انتہائی پُرجوش تھے اور ایسے بھی لوگ تھے جو اس ماحول کا حصہ بھی نہیں بن پارہے تھے مگریہ حقیقت ہے کہ جلسہ عام بہت بڑا تھا لوگوں کو نہ اس وقت بات سمجھ میں آئی تھی اور نہ اب تک آئی کہ ڈاکٹر طاہر القادری اچانک پاکستان کیوں آئے تھے اور اُنہوں نے سیاسی طاقت کا انتہائی مظاہرہ کیوں کیا، جس سے بہت بڑی اور مقبول سیاسی جماعتیں بھی احتراز کرتی ہیں۔ جلسہ عام ‘لانگ مارچ اور دھرنے کی وجہ سے لوگ یہ کہنے میں حق بجانب تھے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کیسی غیر مرئی طاقت کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اگرچہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے یہ یقین دلانے کے لئے بہت قسمیں کھائیں لیکن لوگ اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں لوگوں کا زیادہ تر شک پاکستانی کی طرف تھا جب ڈاکٹر طاہر القادری کے مطالبات سامنے آئے کہ حکومت ختم کردی جائے اور اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں تو لوگوں کا شک یقین میں تبدیل ہونے لگا پھر جس طرح ڈاکٹر طاہر القادری نے پسپائی اختیار کی اور حکومت کو مذاکرات کے الٹی میٹم دیئے تو لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ یہ منصوبہ فوج کا نہیں ہو سکتا۔ فوج اپنے منصوبوں میں اس طرح پسپائی اختیار نہیں کرتی ہے اور اگر حکمت عملی کے تحت پیچھے بھی ہٹتی ہے تو اس کا انداز ایسا نہیں ہوتا۔ اسلام آباد میں دھرنے کے آخری دن ڈاکٹر طاہر القادری کے رویّے سے یہ لگ رہا تھا کہ وہ اپنے آپ کو بے بس اور تنہا محسوس کررہے ہیں ان کا منہ رکھنے (فیس سیونگ) کے لئے حکومت نے ان کے ساتھ جو معاہدہ کیا اس معاہدے سے بھی یہ واضح ہوگیا کہ اگر فوج ڈاکٹر طاہر القادری کے پشت پناہی کررہی ہوتی تو پھر معاہدہ قطعی طور پر مختلف ہوتا۔ فوج کے سیاست سے دوررہنے کی وجہ سے ڈاکٹر طاہر القادری نے بہتر سمجھا کہ انہیں پسپائی کا باعزت راستہ مل سکے۔
اسلام آباد میں دھرنے کی وجہ سے اگر حالات بہت زیادہ خراب ہوجاتے اور فوج مداخلت کرتی تو بھی یہی کہا جاتا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو فوج لے کر آئی تھی ویسے حالات خراب کرنے میں کوئی زیادہ دیر بھی نہیں لگتی ۔ اگر ڈاکٹر طاہر القادری کو اسلام آباد لانے تک فوج کا کردار ہوتا تو پھر صورتحال بے قابو ہونے کی بات بھی کوئی غیر امکانی نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر طاہر القادری مسلسل اپنی تقریروں اور پریس کانفرنسوں میں بلا جھجھک فوج کو مداخلت کی دعوت دے رہے تھے اور وہ دہائی دے رہے تھے کہ ملک کو مبینہ کرپشن اور لوٹ مار سے بچانے کیلئے فوج ہمارا ساتھ دے۔ بعض نام نہاد دانشور اور کوتاہ قامت سیاستدان بھی ان کے سُر میں سُر ملانے لگے تھی۔ جب پہلی دفعہ ڈاکٹر طاہر القادری نے فوج سے مداخلت کی اپیل کی تھی اسی وقت ہی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے لوگ یہ سمجھ گئے تھے کہ طاہر القادری فوج کی حمایت سے محروم ہیں کیونکہ جو لوگ فوج کے اشاروں پر کام کرتے ہیں‘ وہ اس طرح کی باتیں نہیں کرتے۔
جہاں تک ڈاکٹر طاہر القادری کے مینار پاکستان کے جلسہ عام میں مختلف نظریات کے حامل لوگوں کی شرکت کا سوال ہے‘ اگر اس حوالے سے رپورٹس درست ہیں تو بعض حلقوں کی اس خیال آرائی کو تقویت ملتی ہے کہ اس جلسہ عام کو ”تاریخی“ بنانے کے لئے کچھ قوتوں کا کردار ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ ثابت ہوگیا کہ ان قوتوں کا پاکستانی افواج سے تعلق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سیاسی لوگوں نے انتہائی ”جرأت مندی“ کے ساتھ جمہوری عمل کے تحفظ کے عزم کا اظہار کیا لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بعض قوتیں ایسی ہیں جن کے مفادات غیر جمہوری حکومتوں سے وابستہ ہیں۔ وہ قوتیں آمرانہ باقیات کی حیثیت سے ہر جگہ اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہیں۔ ہمیں ان سے خبردار رہنا چاہئے۔ ان قوتوں کی اثر پذیری سیاسی جماعتوں میں بھی ہے اور ان کے ڈانڈے بیرونی قوتوں سے بھی ملتے ہیں۔ ان کے منصوبوں کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں پاک فوج نے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا عزم کررکھا ہے ورنہ مداخلت کے صرف یہ دو مواقع نہیں تھے بلکہ کئی دیگر مواقع بھی پیدا کئے جاسکتے تھے۔
اس وقت پاکستان کی سیاست میں ایک ایسی بات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ سیاستدان اپنی مرضی سے مختلف سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے عام طور پر یہ ہوتا تھا کہ عام انتخابات سے قبل کچھ سیاستدان کسی اشارے پر اس سیاسی جماعت میں شامل ہوجاتے تھے جسے عام انتخابات کے بعد حکومت ملنا ہوتی تھی‘ جو سیاسی جماعت حکومت میں ہوتی تھی اسے لوگ دھڑا دھڑ چھوڑ کر چلے جاتے تھے کیونکہ انہیں بتادیا جاتا تھا کہ اگلی دفعہ اس سیاسی جماعت کی دوبارہ حکومت نہیں بنے گی، اس مرتبہ ایسا نہیں ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بااثر سیاستدان پیپلز پارٹی میں شامل ہورہے ہیں‘ جو اپنی حکومت کی پانچ سالہ مدت مکمل کرنے والی ہے۔ ان میں وہ سیاستدان بھی شامل ہیں جنہیں قبل ازیں پتہ چل جاتا تھا یا بتادیا جاتا تھا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ ان سیاستدانوں کو بھی اب پتہ نہیں ہے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (فنکشنل) میں بھی لوگ جارہے ہیں۔ تحریک انصاف میں لوگوں کی شمولیت کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا‘ وہ انتخابات سے بہت پہلے رک گیا ہے۔ یہ باتیں اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ فوج سیاست سے لاتعلق ہے۔ اگر فوج سیاست میں بھی مداخلت کررہی ہوتی تو پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی یہ واضح ہوتا کہ انتخابات کے بعد کیا ہونے والا ہے اور لوگوں کی کسی سمت دوڑ بھی نظر آتی۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا بہترین موقع ہے جب پاکستانی فوج سیاست میں مداخلت نہیں کررہی ہے اور تمام سیاسی قوتیں جمہوری تسلسل پر متفق ہیں‘ پاکستان کو ایک باوقار جمہوری ریاست کے طور پر عالمی برادری میں منوالیا جائے اور اس کا امیج بہتر بنایا جائے تاکہ دنیا میں پاکستانیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاسکے۔ ہمارا یہ امتحان ہے کہ عام انتخابات کا منصفانہ اور شفاف انعقاد ہو اور انتخابات کو غیر متنازع نہ بنایا جائے اور ان کے نتائج کو تسلیم کرکے پاکستان کو ایک جمہوری ریاست کے طور پر آگے بڑھنے دیا جائے۔
تازہ ترین