• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم کی معاونِ خصوصی برائے سماجی تحفظ، خاتمہ غربت اور چیئر پرسن احساس پروگرام ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا یہ انکشاف یقیناً نہایت خوشگوار ہے کہ مالی وسائل کی شدید قلت کے باوجود وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کیلئے سماجی تحفظ کا بجٹ دگنا کر کے لاکھوں غریب اور معذور افراد کو اہم سہولتیں فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ غربت یا جسمانی مسائل کی وجہ سے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے اہلِ وطن بلاشبہ صاحبانِ اختیار کی خصوصی توجہ کے حقدار ہیں اور مالی مشکلات کے باوجود اس مقصد کی خاطر اضافی وسائل کا مختص کیا جانا ثابت کرتا ہے کہ موجودہ حکمران اپنی اس ذمہ داری کا بھرپور احساس رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے اپنی پریس کانفرنس میں اس پروگرام کی پالیسی ڈائریکشنز کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سماجی تحفظ کے ضمن میں تین گروپ ہیں جن کو پالیسی کور دینا ہے۔ ان کے بقول پہلا گروپ سالہا سال سے غربت میں گھِرے ہوئے لوگوں کا ہے، دوسرا آفت زدہ گروپ ہے جو کسی وقتی مشکل کی وجہ سے غریب ہو رہا ہے اور تیسرا گروپ معذور افراد کا ہے۔ اِس ضمن میں مختلف اقدامات کی جو تفصیل اُنہوں نے پیش کی اس میں دس لاکھ غریب لوگوں کیلئے راشن اسکیم، تمام مستحق معذور افراد کو انصاف کارڈ کا اجراء نیز ویل چیئر، آلہ سماعت اور سفید چھڑی کی مفت فراہمی، جبری مشقت کے شکار بچوں کے تحفظ کیلئے نئے ادارے کا قیام، نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم میں معذور افراد کیلئے دو فیصد کوٹہ اور کفایت شعار پروگرام کے تحت 70لاکھ غریب خواتین کو وظائف کا اجراء شامل ہیں جبکہ یتیموں کیلئے نئی پالیسی کے تحت یتیم خانوں کی حالت بہتر بنائی جائے گی۔ علاوہ ازیں ہر ماہ 80ہزار بے روزگار افراد کو بلا سود قرضے، سلائی مشینیں، مال مویشی، دکان کے سامان کی فراہمی، غریب طالبعلموں کیلئے انڈر گریجویٹ اسکالرشپ اسکیم، ٹیوشن فیس، ہاسٹل کا خرچہ اور وظیفہ دیا جائے گا جبکہ غریب بچیوں کیلئے وائجر اسکیم اور سیکنڈ چانس اسکیم شروع کی جا رہی ہے تاکہ اگر وہ اسکول چھوڑ چکی ہیں تو دوبارہ داخلہ لے لیں۔ کئی پسماندہ اضلاع میں بچوں کو اسکول بھیجنے کے عوض والدین کو وظیفے کی اسکیم بھی بجٹ میں شامل ہے۔ 500سے زائد کفالت مراکز بنائے جا رہے ہیں جہاں غریب خواتین اور ان کے بچوں کو انٹرنیٹ کی سہولت، اسکول کے سبق، ہنر کی تعلیم، تعلیم بالغاں اور آئی ٹی شعبے کی آگاہی مفت مہیا کی جائے گی جس سے ان کی معاشی خودمختاری کا راستہ کھلے گا۔ ان تمام سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے تمام سرکاری اسپتالوں کو یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق تمام معذور افراد کو سرٹیفکیٹ جاری کریں تاکہ معذوری کی قسم کا تعین ہو سکے۔ اس کے علاوہ پسماندہ علاقوں میں معذور افراد کیلئے 20اسپتالوں میں سنٹر کھولے جائیں گے جہاں بازو اور ٹانگ لگانے کا انتظام بھی ہوگا۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے مزید بتایا کہ وزارت انسانی حقوق کی طرف سے اقوام متحدہ کے کنونشن برائے حقوق انسانی کے مطابق معذوروں کیلئے وفاقی سطح پر قانون سازی کی جارہی ہے اور یہ کہ وزارت پلاننگ و ڈویلپمنٹ کی ہدایت پرآئندہ تمام پی سی ون معذور دوست ہوں گے۔ سماجی تحفظ کے ان اہم اقدامات کے پیش نظر ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا یہ کہنا مبنی بر حقیقت نظر آتا ہے کہ یہ فلاحی ریاست کی جانب ایک اہم قدم ہے جو وزیراعظم کی جرأت مندانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم کسی بھی معاملے میں کاغذ پر اچھا پروگرام بنا لینا سفر کا محض پہلا مرحلہ ہوتا ہے جبکہ اصل کامیابی اسے عملی جامہ پہنانا ہے۔ لہٰذا حکومت کا اصل امتحان اب یہ ہے کہ غریب اور معذور افراد کیلئے جن اقدامات اور فیصلوں کا اعلان کیا گیا ہے، ان پر پوری طرح عمل بھی ہو۔ اس کیلئے ہر سطح پر میرٹ اور شفافیت کا مکمل اہتمام اور مستقل نگرانی و جائزے کا نہایت مؤثر نظام بروئے کار لانا ضروری ہے تاکہ کسی بھی سطح پر اقربا پروری اور کرپشن سماجی تحفظ کے اس مستحسن پروگرام کو متاثر نہ کر سکیں، اس کے فوائد پوری طرح مستحق افراد تک پہنچیں اور اسکے نتیجے میں وہ بھی معاشرے کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار کماحقہٗ ادا کرنے کے قابل بن سکیں۔

تازہ ترین