• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں زکوۃٰ،صدقات اور خیرات کی مدمیں خطیررقم خرچ کی جاتی ہے۔ زکوۃٰکو فرض سمجھ کر ہٹا بھی دیا جائے تو خیرات وصدقات کی نیت سے بھی بڑی رقم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سارے خیراتی ادارے بھی فلاح انسانی کی نیت سے کام کررہے ہیں۔ کھانا کھلانے سے لیکر علاج معالجہ تک الغرض ہر ضرورت کی فراہمی غریبوں کے لیے موجود ہے۔ اِدھر سینکڑوں کی تعداد میں این جی اوز کام کررہی ہیں۔ جن کا مقصد غریبوں کی فلاح وبہبود ہے۔ جب ملک میں اتنا کچھ غریبوں کے لیے ہورہا ہے تو پھر ملک میں غربت کا گراف نیچے جانے کہ بجائے اُوپر کی طرف کیوں جارہا ہے؟ یقیناً ایک بڑا سوال ہے۔غیرملکی ڈونر ایجنسیاں بھی یہاں بڑے پیمانے پہ کام کررہی ہیں۔ جیسے یو ایس ایڈ(USAID) ،جائیکا (JICA)،یونیسف(UNICEF)،یونیسکو(UNESCO) ، ایشین ڈیولپمنٹ بنک(ADB) ،ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن( (WHO وغیرہ وغیرہ جو تعلیم، صحت اور غریب کے خاتمہ کے لیے کام کررہے ہیں۔ تو ایسے میں مثبت نتائج کیوں نظر نہیں آرہے؟یقیناً کہیں نہ کہیں کچھ گڑبڑضرور ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پہ جس مقصد کے لیے کام ہورہے ہوں مگروہ کہیںنظرنہ آرہاہو۔(1)۔ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ غربت کا معیار بلند ہوگیاہو۔ یعنی صرف کھانے، پینے، رہنے، علاج وتعلیم کی سہولیات میسرنہ ہونا غریب کی علامت نہ ہوں ۔بلکہ اور بھی دوسری چیزیں اس میں شامل ہوگئی ہوں۔ جیسے لباس، تن ڈھانپنے کے علاوہ اضافی اور نئے ہونا، کھانا معمول کے علاوہ اور اچھاہونا، مگر صرف سرچھپانے کے لیے نہیں بلکہ پکا گھرملکیت کے ساتھ میسرہونا، سرکاری اسکولوں ، اسپتالوں سے تعلیمی، علاج کی سہولتیں حاصل کرنے کے بجائے نجی اسکولوں اور ہسپتالوں سے رجوع کرناتب کہیں جاکہ غربت کی سطح سے اُوپر آنا ہے ۔تو یقینا ًملک سے غریب کا خاتمہ ابھی نہیں ہوا۔(2)۔دوسری وجہ غربت کا خاتمہ نہ ہونے کی شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس قدر بڑی تعداد میں خیرات وصدقات کاملنا اور نجی اداروں کی طرف سے بہت سی سہولیات کا میسرآنے کی وجہ سے لوگ سست ہوگئے ہیں۔ کیونکہ جب بغیر محنت کے بہت ساری ضروریات زندگی فراہم ہوں تو محنت کرکے آدمی کمائے اور پھر ان ضروریات کو حاصل کرے ۔لہٰذا محنت سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ غربت کی چادر اوڑھ لی جائے۔یہی وجہ ہےکہ ہمارے ہاں نوکری نہ ملنے کابہت شور مچایا جاتا ہےلیکن شور مچانے والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کررہے ہیں کہ نہیں ۔دوسری طرف آپ دوردراز علاقوں سے اٹھ کر شہری علاقوں میں رمضان سے پہلے آجانا کوئی معمولی بات نہیںجب آمدورفت کے ذرائع اور پٹرول بہت مہنگے ہوچکے ہوں تو ایسے میں پورے پورے خاندان کے قافلے کیصورتحال میں سفر کرناکوئی سستا کام تو نہیں آخر اس کے اخراجات آتے بھی ہوں گے اور یہ اٹھاتے بھی ہیں۔ایسے میں یہ غریب کہاں ہوئے؟کیونکہ ایک متوسط گھرانااپنے علاقے سے کہیں باہرجانے کے لیے صرف پوچھتا ہی رہ جاتا ہےکیونکہ اتنی مہنگائی میں ان کے لیے یہ خرچہ برداشت کرنا آسان نہیں۔ایسے میں یہ خانہ بدوش اور غریب لوگ (عادی غریب) کیسے برداشت کرلیتے ہیں؟یقیناً یہ وہ ثبوت ہےکہ محنت کے بغیر تمام سہولتیں آسانی سے مل جائیں۔بھلے اس کے لیے اپنا بنابنایا گھر چھوڑ کے پلوں کے نیچے رہنا پڑے،یا ُپلیا کے اوپر سوناپڑے!(3)۔غربت کے کم نہ ہونے کی وجہ ایک یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اعلان توبہت ہورہا ہو، ادارے اور ایجنسیاں کام کرتی نظربھی آرہی ہوں ۔ لیکن یہ سب تصویر کا ایک رخ ہو۔ دوسرے رخ میں مال غریبوں تک پہنچتا ہی نہ ہو۔ یعنی اعلان ہو، تصویر بنوائی جائیں۔لیکن عملاً غریبوں تک وہ مال منتقل نہ کیا جاتا ہو۔ غیرحکومتی ادارے (این جی او)بھی یہی کررہے ہوں۔ مال غریبوں کے نام پر لے رہے ہوں لیکن غریبوں تک مال پہنچانہ رہے ہوں۔ بلکہ اپنا بنک بیلنس بڑھارہے ہوں۔ اس کی بڑی واضح مثال بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی ہے کہ آئے دن کسی نہ کسی امیر گھرانہ یاکہنا چاہیئے کہ غریب گھرانے کے علاوہ دوسرے امیر اور متوسط گھرانوں کو بے نظیرانکم سپورٹ کی طرف سے کئی ہزار روپے ملنے کا پیغام موصول ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بیچ میں کہیں کوئی گڑبڑ ضرورہورہی ہے۔ یعنی حقداروں کو ان کا حق مکمل طور پر وصول نہیں ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک سے غربت کا خاتمہ کم ہونے کہ بجائے بڑھتا جارہا ہے۔ اسی نامناسب تقسیم کی وجہ سے روپے کاارتکاز بڑھتا چلاجارہا ہے۔ مال تقسیم کرنے والوں کے اثاثے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ لیکن جن کو مال ملنا چاہیئے ان کی مالی حالت کم سے کم ترہوتی چلی جارہی ہے۔ ایسے میں ارباب اختیار کو سوچنا ہوگا کہ 25 سے 30 سال سے غربت کے خاتمہ کی مہم چل رہی ہے آخر کیا وجہ ہے کہ غربت میں کمی نہ آسکی؟ کیونکہ اب وقت سخت کنٹرول اور Strong regulation کاہے۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین