• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنی بے سروپا سیاسی الجھنوں کی شکار، عقائد در عقائد کی پیچیدگیوں میں غلطاں اور ہر آن نجات کی فکر سے بوجھل لیکن سرمستیوں میں مگن اس عظیم پاکستانی قوم کو کون سمجھائے کہ دنیا ان کے شور شرابے سے بے نیاز اپنا کام کر رہی ہے اور کسی کو اس سرزمین پر بپا ہونے والے ہنگاموں اور لگائے جانے والے نعروں اور کئے جانے والے تبصروں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ جس دوران ہم نجات اور انقلاب کے خبط کے دائمی اسیر رہے، دنیا میں ہونے والی سائنسی ترقی کی ایک جھلک اس پیشرفت سے ملتی ہے… برطانوی سائنسدانوں نے ڈی این اے (خلیے میں پایا جانے والے کیمیائی مادہ جو زندگی کے سربستہ رازوں کا امین ہے) کے انتہائی چھوٹے ٹکڑے جو ایک خاکی ذرے سے بڑے نہ تھا، میں عظیم الشان مواد ، جو ستّر ہزار فلموں کے برابر تھا،کو اسٹور کرنے کا طریقہ دریافت کیا ہے۔ کیا ذہن چکرا گیا ہے یا نہیں؟ میں اس کا ذکر اس لئے نہیں کر رہا کہ یہ کوئی انتہائی انوکھی ترقی ہے بلکہ اس لئے کہ آج کے اخبارات میں اس کا ذکر ہوا ہے۔
اس دوران ہمارا حال یہ ہے کہ ہم حماقتوں کے شاہکار تخلیق کر رہے ہیں، بے سروپا انتہاپسندانہ نظریات کو جواز بنا کر ایک دوسرے کو ہلاک کر رہے ہیں اور جب اس مصروفیت سے کبھی فراغت ہو تو انقلاب کے تانے بانے بننے لگتے ہیں۔ جہاں تک اس اسلامی جمہوریہ کی حکومت کا تعلق ہے تو اس کو سوائے پابندیاں لگانے کے اور کچھ نہیں سوجھتی…یوٹیوب پر پابندی لگاتے ہوئے عقیدے کی سربلندی کے لئے یہ بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اگر حماقتوں کا کوئی عالمی مقابلہ ہو تو صرف یہی اقدام ہمیں طلائی تمغہ دلا دے۔ حقیقت یہ ہے کہ ویب کا جال فحاشی یا توہین آمیز مواد کیلئے نہیں ہے، اگرچہ ایسا مواد بھی اس میں ڈالا جا سکتا ہے۔ یہ دراصل علم کا وہ خزانہ ہے جس نے اس زمین کو گھیرے میں لیا ہوا ہے اور ہر کوئی اس تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ کیا دور دراز ممالک میں واقع عظیم الشان کتب خانوں یا عجائب گھروں میں جا کر علوم کے چشموں سے فیضیاب ہونا آسان کام ہے؟ یقینا نہیں، لیکن سائبر اسپیس نے اس کام کو اتنا سہل بنا دیا ہے کہ انگلی کی ایک ادنیٰ سی جنبش آپ کو کسی بھی لائبریری میں لے جاتی ہے تاہم ہم نے حماقتوں کی حد کرتے ہوئے اس کا ایک بڑا اور اہم حصہ خود پر حرام کر رکھا ہے۔ کوئی استدلال یا معقول رویہ اس کا جواز پیش نہیں کر سکتا لیکن یہ سر زمین استدلال کی گزرگاہ ہے بھی نہیں۔
اداس اور بے کیف شاموں کو جب سرخ انگارہ سورج شفق کورنگین تر کرتا ہوا مغرب میں اتر جاتا ہے مگر ہمارے دل اس بے رنگ زندگی ، جس کا ہر دن بقول منیر نیازی… ” اج دا دن وی ایویں لنگیا“ کی عملی تصویر بنے خزاں رسیدہ پتوں کی طرح اداس ہوتے ہیں تو کیا بہتر نہیں کہ ایس بی جان کا لافانی نغمہ…”تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے…“ یا کے ایل سہگل ،لتا، رفیع ، میڈم نورجہاں یا بہت سے دیگر استادوں کی جانفزا آواز کے مدبھرے سمندر میں خود کو گم کرلیں؟ان سب کی ریکارڈنگ یوٹیوب پر موجود ہے لیکن وا حسرتا! کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک فون وصول ہوا ”میں ایس بی جان ہوں…“ سوچا کہ کوئی مذاق کر رہا ہے، میں نے بے ساختہ کہہ دیا کہ اگر تم ایس بی جان ہو تو میں بھی بڑے غلام علی خان ہوں۔ بہرحال وہ واقعی جان صاحب تھے اور نہایت شفیق اور مہربان تھے۔ ان سے کراچی جا کر ملاقات کرنی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جن کو فراموش کرنا ممکن نہیں، جیسا کہ جب مشہور امریکی اداکار اُرسن ویلس (Orson Welles) ویسٹ انڈ میں شیکسپیئر کے لافانی ڈرامے ”اوتھیلو“ میں پُرفارم کر رہا تھا جبکہ سر ونسٹن چرچل ہال کی پہلی قطار میں بیٹھے ہوئے تھے اور جب ڈرامہ شروع ہوا تو ویلس نے کچھ مدہم سی آواز سنی جو مسلسل اُسے پریشان کرتی رہی۔ پتہ چلا کہ یہ چرچل ہیں جو ڈرامے کی ہر لائن کو ساتھ ساتھ ادا کر رہے ہیں۔ بعد میں چرچل اسٹیج کے پیچھے گئے اور پورا ”اوتھیلو “ حرف بہ حرف سنا دیا اور خاص طور پر اُن حصوں کی نشاندہی کی جن کو مسٹر ویلس نے چھوڑ دیا تھا۔ اسٹیج اداکاری کے شائقین ویلس کی پُرفارمنس کو دیکھیں کہ ان کا تلفظ، لہجہ، ادائیگی، آنکھوں اور چہرے کے تاثرات اور مزاح کس درجے کے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں فتح حاصل کرنے ( جس کو دور ِ جدید کی سب سے بڑی فتح قرار دیا جا سکتا ہے) مگر انتخابات میں شکست کھانے کے بعد چرچل اپنی بیوی کلے منٹائن کے ساتھ وینس میں تعطیلات گزار رہے تھے۔ اُس وقت ویلس بھی ایک امریکی فنانسر کے ساتھ یہاں کسی فلم کے لئے رقم جمع کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ایک لنچ پر جب وہ امریکی اداکار چرچل کی میز کے پاس سے گزرے تو چرچل نے ویلس کی طرف دیکھ کر سرکو تھوڑا سا جھکایا۔ اس پذیرائی پر مسٹر ویلس خوشی سے دیوانے ہو گئے …․ اور پھر اُنہوں نے مسٹر چرچل کی جیب سے بھی رقم نکلوا لی۔ اگلی صبح جب وہ تیراکی کر رہے تھے تو ویلس تیرتے ہوئے چرچل کے نزدیک آئے اور کہا کہ ان کا سلام کرنا اُس کی زندگی کا یادگار لمحہ تھا۔ اُسی دن لنچ پر جب امریکی اداکار ہال میں داخل ہوئے تو چرچل کرسی سے کھڑے ہوئے اور بہت زیادہ جھکتے ہوئے اُسے سلام کیا۔ اس کا مسٹر ویلس پر کیا اثر ہوا، کہنا مشکل ہے۔ رچرڈ برٹن نے بھی مسٹر چرچل کے بارے میں ایسا ہی واقعہ بیان کیا ہے(یہ سب کچھ یوٹیوب پر موجود ہے مگر…)کہ جب وہ شیکسپیئر کا ڈرامہ ”ہیملٹ “ کر رہا تھا تو ایک شام ڈرامے کے مینجر نے کہا”خیال کرنا، بڑے میاں آرہے ہیں…“۔
ہر کوئی جانتا تھا کہ ”بڑے میاں“ سے مراد کون ہے۔ اس پر برٹن پریشان ہو گیا۔ اُس نے کہا کہ وہ اچھا ہیملٹ ثابت نہیں ہو سکے گا اگر اُس کا جسم پسینے میں نہایا ہوا ہو اور پریشانی کے عالم میں اُس کے تمام بال کھڑے ہوں اور وہی ہوا جس بات کا ڈر تھا، جب پُرفامنس شروع ہوئی تو اگلی قطار میں بیٹھے چرچل نے ساتھ ساتھ ڈرامہ دہرانا شروع کر دیا۔ برٹن نے اُن کو چکمہ دینے کی بہت کوشش کی…کبھی ادائیگی تیز اور کبھی آہستہ کرتے ہوئے مگر بے سود۔ جب پہلا ایکٹ ختم ہوا تو چرچل اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑے ہوئے تو اداکاروں نے سکون کا سانس لیا کہ اب ”بڑے میاں“ سے نجات مل گی ہے لیکن اچانک برٹن نے اپنے دروازے پر دستک سنی۔ دروازہ کھولا تو چرچل نے ادب سے سرجھکا کر کہا ”مائی لارڈ ہیملٹ، کیا میں آپ کا واش روم استعمال کر سکتا ہوں؟“بعد میں برٹن کو پتہ چلا کہ ”بڑے میاں“ کو اُس عظیم ڈرامہ نگار کے ایک درجن کے قریب ڈرامے زبانی یاد ہیں چنانچہ چرچل کو تقریر اور آوازوں کے اتار چڑھاؤ کا ملکہ ایسے ہی حاصل نہ تھا۔
اسی طرح پیٹر یسٹنوف (Peter Ustinov) کی لاجواب پُرفارمنس بھی یوٹیوب پر موجود ہے۔ ان کی اداکاری اتنی پُرلطف ہے کہ پتھر بھی مسکرا دیں۔ جب وہ دوسروں کی نقلیں اتارنے پر آتے ہیں تو اُن کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ عظیم روسی موسیقار تشاکو سکی کی دلکش دھنیں دل کو وجد میں لے آتی ہیں۔ میں نے اُن کو کبھی پورا نہیں سنا، بس شروع کے کچھ نوٹ اور پھر آرکسٹرا کے ساتھ خود فراموشی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے اطالوی اور ارجنٹائن کے موسیقاروں کو یوٹیوب پر سنا جا سکتا ہے لیکن ان کی ریکارڈنگ ہم عام مارکیٹ سے حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔
جب میری عمر کے لوگ نوجوانی کی حدود میں قدم رکھ رہے تھے تو ہمارے پاس موسیقی کے لئے صرف ریڈیو یا کسی کسی کے پاس ٹیپ ریکارڈر ہوا کرتا تھا کیونکہ ہر کوئی اُس مہنگی چیز کو نہیں خرید سکتا تھا۔ جب مجھے مشہور موسیقار بیتھوون کی کیسٹ ملی تو میں ہمہ وقت اس کو بجایا کرتا تھا کیونکہ میرے پاس صرف یہی ایک تھی۔ تاہم آج علم، تفریح اور معلومات کی فراوانی کا عالم دیکھیں! آج کی انٹرنیٹ اور آئی پوڈ کی دنیا پر نظر ڈالیں، یہ سب ایجادات اور نظام کس کے ہاتھوں انجام پارہے ہیں؟ ”محو ِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی“… اور ایک ہم ہیں کہ عقل پر پڑے پتھر کو ”استقامت“ سمجھ کر نازاں ہیں۔ آج موسیقی اور اداکاری کے شاہ پاروں سے لطف اندوز ہونے کے لئے آپ کو دنیا کے براعظموں کے چکر کاٹنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ سب کچھ ویب کی دنیا میں موجود ہے۔
میں مغربی یا مشرقی موسیقی کا ذوق تو رکھتا ہوں مگر اس کی گہرائیوں سے نابلد ہوں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے لطف اندوز ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ آپ اس کے ماہر بھی ہوں۔
اس کے لئے ”صاحب ِ ذوق “ کان چاہئیں۔ میں بعض اوقات مسکاگنی کے اوپیرا کی موسیقی نوجوانوں کو سناتا ہوں۔ وہ اس کا فہم نہیں رکھتے لیکن اسے پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر آپ کو موسیقی کی دھنوں یا آلات کا علم نہیں تو بھی اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ مغربی کلاسیکی موسیقی کسی ایک ملک یا قوم کی میراث نہیں بلکہ یہ تمام انسانیت کا ورثہ ہے تاہم جرمن دوستوں کی نازی موسیقی اس سے سوا ہے۔ اس وقت قوم کی نفسیات جس کرب سے گزر رہی ہے، اس سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ دل کے تار موسیقی کے ساتھ بج اٹھیں…اور پھر پندار کا صنم کدہ ابھی ویران نہیں ہوا ہے۔
تازہ ترین