• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک تو نامعلوم کیوں سشیل کمار شندے ایک دم اتنے اچھے لگنے شروع ہو گئے ہیں ،بہت سے لوگ شاید شندے کا نام بھی نہ جانتے ہوں گے ، ان کے لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ شندے کون ہیں اور انہوں نے ایسا کیا کام کیا ہے کہ وہ اچانک ہمارے بہت سے لوگوں بشمول شدت پسندوں کے پسندیدہ آدمی بن گئے ہیں۔ سشیل کمار شندے انڈیا کے وزیر داخلہ ہیں اور انہوں نے ہندوستان کی پارلیمینٹ میں یہ بیان دے کر بھونچال کھڑا کر دیا کہ ہندوستان میں بی جے پی اور آر ایس ایس نے ہندو شدت پسندی کو فروغ دینے کے لئے ٹریننگ کیمپس بنائے ہوئے ہیں۔ مغربی میڈیاکا مطالعہ کرنے والوں کیلئے شاید یہ بات کچھ حیرت کی نہ ہو ، اس لئے کہ کچھ مغربی جرائد میں گاہے بگاہے اس طرح کی رپورٹس آتی رہی ہیں کہ ہندوستان میں شدت پسندی جس کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں، فروغ پا رہی ہے۔ نیوز ویک نے آج سے قریباً دو برس پہلے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی جس میں بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے جو تبدیلیاں انہوں نے بچوں کی کتب میں اور پھر اساتذہ کی بھرتیوں میں ہندومت پر شدت سے عمل پیرا ہونے والے لوگوں کو ترجیح دینے کے معاملے میں کیں۔ اس کے نتائج کے حوالے سے کافی کچھ لکھا۔
آج جب ہم ہندوستان میں رہنے والے بعض مسلمان جرنلسٹوں سے بات کرتے ہیں تو وہ بھی یہی بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں اگرچہ سیکولر رجحانات رکھنے والے دانشور جن میں ارون دھتی رائے کا نام سب سے اہم ہے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ملک میں سیکولر سوچ کو فروغ ملے لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس اس کے بالکل برعکس سوچ رکھتی ہیں اور یہ ان ہندو شدت پسندوں کی شدت پسندانہ سوچ کی وجہ سے ہے کہ شندے صاحب کو یہ بیان دینا پڑا کہ ان تنظیموں نے ہندوستان میں ٹریننگ کیمپس بنا رکھے ہیں۔ شندے صاحب کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب ہندوستان مغربی دنیا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ امن سے محبت کرنیوالا اور دنیامیں ترقی کی رفتار کو تیز کرنے میں مدد دینے والا ملک ہے۔ ہندوستان کے مغربی دنیا کو یہ یقین دلانے کی بدولت ہی یہ ہوا کہ اسے افغانستان میں ایک اہم رول ملا، لیکن شندے صاحب کے بیان نے ہندوستان کی سیکولر قوتوں کو ایک طرف اور بی جے پی اور آر ایس ایس کے حامیوں کو دوسری طرف ہلا کے رکھ دیا ہے۔ بی جے پی جو اس وقت کانگریس پارٹی میں ہونے والی تبدیلیوں کے سبب جہاں سونیا گاندھی کے بیٹے راہول گاندھی کو نائب صدر منتخب کر لیا گیا ہے خود اپنی لیڈر شپ میں تبدیلیوں کی خواہاں ہے اور اس نے بی جے پی کی صدارت کے لئے راج ناتھ سنگھ کو چنا ہے، نے مطالبہ کیا ہے کہ شندے کو فوری طور پر کابینہ سے برطرف کیا جائے۔ بی جے پی نے ساتھ ہی شندے کیخلاف ملک گیر ہڑتالوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ بی جے پی کی ہی ایک اور شدت پسند لیڈر سشما سوراج نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ شندے کے پاکستان کی شدت پسند تنظیموں سے تعلقات ہیں۔
یہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ ہی کی بدولت ہے کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمان خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ شاہ رخ خان جیسے بڑے اداکار اور ہندوستانی سینما پر راج کرنے والے اداکار تک ، جب خود کو اس اثر کی وجہ سے غیر محفوظ سمجھتے ہوں تو دوسروں کا اور کیا کہنا۔ اپنے ایک مضمون میں جو دو تین روز قبل آؤٹ لک میں شائع ہوا ہے شاہ رخ خان کہتے ہیں کہ 9/11 کے واقعات نے ان کی زندگی کو صدمے سے دوچار کیا ہے۔ ہندوستان کے رہنے والے سیاسی لیڈران ان سے اس واقعے کے بعد کہتے ہیں کہ اپنے اصل ملک یعنی پاکستان واپس جاؤ، شاہ رخ کہتے ہیں کہ ان کی ذات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ہندوستان کے بہت سے سیاسی رہنما یہ کہتے ہیں کہ کیونکہ شاہ رخ مسلمان ہیں لہٰذا ان کے ملک کے وفادار ہونے کے حوالے سے شک پائے جاتے ہیں۔ شاہ رخ کا کہنا ہے کہ ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ شاہ رخ کی ہمدردیاں ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ ہیں۔ یہ تمام اس کوشش کے باوجود کہ شاہ رخ نے ایک ہندو عورت سے شادی کی، اپنے بچوں کے نام ایسے رکھے کہ جو مسلمانوں کی بجائے ہندو نام لگتے ہیں لیکن ہندو شدت پسند انہیں معاف کرنے کو تیار نہیں اور وہ بھی صرف اس جرم کی وجہ سے کہ وہ مسلمان ہیں۔ شاہ رخ اپنے والد کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے والد نے آزادی کی جنگ لڑی اب ان کے خلاف ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور اس میں نعرے لگائے جاتے ہیں کہ شاہ رخ کو پاکستان چلے جانا چاہئے۔ شاہ رخ پر لگائے جانے والے یہ الزامات بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے زیر تحت چلنے والے ادارے اور لوگ ان کے بارے میں کیا رجحانات رکھتے ہیں۔ ایسے میں سشیل کمار شندے کا بیان کہ ہندوستان میں ہندو شدت پسندوں کے ٹریننگ کیمپس بنے ہوئے ہیں، بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ابھی چند روز قبل میری سری نگر سے آئے ایک مسلمان جرنلسٹ سے ملاقات ہوئی جنہوں نے مسلمانوں اور کشمیری مسلمانوں کی حالت کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ جہاں ہندوستان میں ہندو شدت پسندوں نے اپنی کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے وہاں یہ بات بھی تو ہے کہ شندے اور کانگریس کے اور بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اس بات کا سرکاری طور پر اعتراف کر رہے ہیں کہ یہاں شدت پسندوں کے کیمپس ہیں۔ وہ شندے اور کانگریس کے ایسے دوسرے لیڈروں کے حوالے سے یہ مثبت بات کرتے ہوئے کہنے لگے کہ مسلمانوں کی ایسی حالت اور خاص طور پر کشمیری مسلمانوں کے مسائل کے حوالے سے شاید پاکستان میں رہنے والے لوگ یہ سوچتے ہوں کہ انہیں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنی چاہئے لیکن بھائی آپ ہماری مدد صرف تب کر سکتے ہیں اگر آپ اپنی مدد کریں۔
اگر پاکستان کی ریاست کمزور ہو گی تو ہندوستان کے مسلمان بھی کمزور ہوں گے، اگر پاکستان میں شدت پسندی میں اضافہ ہو گا تو اس کا ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں پر برا اثر پڑے گا۔ پاکستان کے لئے بہترین راستہ یہی ہے کہ اپنے آپ کو معاشی طور پر مضبوط قوت بنائے، ریاست کا نظام بہتر کرے، امن و امان قائم کرے اور خود کو ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ایک بہترین ماڈل کے طور پر پیش کرے۔ ممبئی پر حملہ کرنے والے پاکستانیوں کے ٹولے نے ہندوستان میں رہنے والے لوگوں کے لئے شدید مشکلات پیدا کی ہیں، امید ہے پاکستان کے شدت پسند یا ایسے عناصر کی حمایت کرنے والے لوگ یہ بات سمجھ جائیں گے۔
تازہ ترین