• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک تازہ رنجش کے اس موسم میں جرمنی اور فرانس کے درمیان دوستی کے معاہدے کی سالگرہ کچھ اس طرح منائی گئی کہ جیسے جنوبی ایشیا کے دو بڑے ملکوں کو تاریخ کا ایک سبق یاد دلایا جا رہا ہو۔ اس اہتمام کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ یورپ کے دو بڑے ملکوں کی باضابطہ دوستی کی پچاسویں سالگرہ تھی۔ کسی بھی واقعے کی گولڈن جوبلی کو ایک اہم سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔ کراچی میں ، میں منگل کی شام اس ضیافت میں شریک تھا جس کی مشترکہ میزبانی جرمنی اور فرانس کے سفارتی نمائندوں نے کی۔ دوسری چند تقریبات بھی منعقد کی گئیں جن میں پریس کانفرنس، لیکچر اور موسیقی کے پروگرام بھی شامل تھے۔ دونوں ممالک کے سفیروں نے مل کر ایک مضمون تحریر کیا جو اخبارات میں شائع ہوا۔ اس طرح ہم سالگرہ کے اس جھروکے سے عہد حاضر کے ایک ایسے انوکھے تجربے کو دیکھ سکتے ہیں کہ جس نے انسانی تاریخ کی سب زیادہ ہولناک اور تباہ کن جنگ کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ ویسے تو یہ تقریباً پورے یورپ کی کہانی ہے لیکن ایک خصوصی تعلق جرمنی اور فرانس کے درمیان قائم ہے۔ ان دونوں ملکوں کی دشمنی کی کہانی کئی صدیوں پر محیط تھی لیکن اب ان کے درمیان جو سرحد ہے وہ پنچھی، بادل اور ہوا کے ساتھ ساتھ انسانوں کے لئے بھی کھلی ہے۔ پوری یورپی یونین میں، جس میں اس وقت27 ملک شامل ہیں یہی صورتحال ہے۔ ان میں بیشتر ملکوں کی کرنسی بھی ایک ہے، کسی ایک ملک کا ویزا لے کر آپ یونین کے دوسرے ملکوں میں بھی جا سکتے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ اب پاکستانیوں کے لئے کسی بھی ملک کا ویزا لینا اتنا آسان نہیں ہے۔ ہم نے اپنی صورت کو اتنا بگاڑ جو لیا ہے اور باقی دنیا کے لوگ بھی کچھ کم ظالم نہیں ہیں۔
صورتحال گویا کچھ ایسی ہے کہ ہم کئی معنوں میں باقی دنیا سے کٹ گئے ہیں۔ جنوبی ایشیا پر جیسے کسی آسیب کا اثر ہے کہ قدیم تہذیبوں کے اس گہوارے میں بغض و عناد اور پسماندگی کے تاریک سائے پھیلے رہتے ہیں۔ گاہے گاہے ایک اچھے مستقبل کی جھلک دکھائی دیتی ہے لیکن ایک ایسی صبح طلوع نہیں ہو پاتی جو حد نظر تک ، پورے منظر کو روشن کر دے۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یورپ میں تو امن و دوستی کا دروازہ اس وقت کھلا کہ جب ایک طویل جنگ نے سب کچھ تباہ کر دیا۔ دوسری جنگ عظیم کی داستان بھی حیرت انگیز ہے چھ سال تک جاری رہنے والی اس جنگ نے پوری دنیا کو ہلا دیا۔ اس کا اختتام جاپان کے بڑے شہروں، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کے امریکی حملوں سے ہوا۔ غرض انسان نے یہ اعلان کردیا کہ اس نے اپنی پوری نسل کو ختم اور کرہٴ ارض کو تاراج کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں کل پانچ سے سات کروڑ ہلاکتیں ہوئیں۔ شہر کے شہر تباہ ہوگئے، یورپ کا حلیہ بدل گیا۔ صرف روس کے دو کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ بھی یاد رہے کہ 70 سال پہلے دنیا کی آبادی بھی اتنی نہیں تھی جتنی اب ہے۔ بے شمار انسانی زندگیوں پر جو اثرات مرتب ہوئے ان کا حوالہ ہزاروں کتابوں، سیکڑوں فلموں اور فن کاروں کی تخلیقات میں موجود ہے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ جب 1965ء میں ہم نے بھارت سے جنگ لڑی جو محض سترہ دن تک چلی تو اس زمانے میں، میں نے اپنی صحافت کا آغاز کیا تھا۔ میرے اس وقت کے مدیر نے کہاکہ فوج اور عوام کے حوصلوں کو بلند کرنے کے لئے دوسری جنگ عظیم کے چند جوش دلانے والے واقعات کا ذکر کرنا چاہئے۔ میرے ہاتھ ایک ایسی کتاب لگ گئی جو روس کے محاذ جنگ کی تاریخ کی تھی۔ مجھے بالکل اس کا علم نہیں تھا کہ روسیوں نے کتنی بہادری سے یہ جنگ لڑی اور کتنا نقصان برداشت کیا۔ اسٹالن گراڈ کے خونی معرکے اور لینن گراڈ کے محاصرے کی جھلکیوں پر مشتمل میں نے چند کالم لکھے۔ ایک روسی نظم مجھے یاد آرہی ہے جس کا میں نے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ ہم خون کوگرما دینے والے جنگی نغموں سے واقف ہیں۔ روس میں جنگ کی صورتحال اور بے اندازہ ہلاکتوں کے تناظر میں، اس نظم کا موڈ اور لہجہ ہی کچھ اور تھا عنوان تھا ”میرا انتظار کرنا“۔ ایک فوجی، محاذ پر جانے سے پہلے اپنی محبوبہ سے وعدہ لے رہا ہے کہ وہ اس کا انتظار کرے گی۔ اس وقت بھی جب کہیں سے یہ خبر آئے کہ وہ ہلاک ہو چکا ہے، وہ تب بھی اس کا انتظار کرے گی جب وزارت جنگ کا سرکاری خط آجائے کہ اسے مردہ تصور کر لیا گیا ہے جب اس کے اپنے والدین بھی اس خبر پر یقین کر لیں۔ فوجی کہتا ہے کہ اگر میں اس جنگ سے زندہ واپس آؤں گا تو صرف اس لئے کہ تم میرا انتظار کر رہی تھیں۔ امریکہ اس جنگ میں شامل تھا گویہ یورپ، ایشیا اور افریقہ کے چند علاقوں میں لڑی گئی، جنگ کے بارے میں ہالی وڈ کی فلمیں مجھے یاد ہیں۔ پہلے زندہ باد قسم کی فلمیں بنیں پھر ایک دور آیا جب جنگ کی دیوانگی اوراس کے بے معنی ہونے پر توجہ دی گئی۔ یورپ کے حکمرانوں اور عوام نے قسم کھائی کہ ایسا پھر کبھی نہیں ہوگا اور انسانی تاریخ کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔جرمنی اور فرانس کی دوستی کی گولڈن جوبلی کو ہمارے ملک میں اس لئے بھی ٹھیک سے منایا گیا کہ یہ دونوں ملک امن کی آشا میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔
امن کے لئے اس تحریک کو پاکستان کے جنگ گروپ اور ٹائمز آف انڈیا گروپ کی سرپرستی حاصل ہے اور جرمنی اور فرانس کے سفارت خانوں نے اپنے ملکوں کی مثال دے کر اس پروگرام کی مسلسل حمایت کی ہے۔ ”امن کی آشا“ تین سال سے مختلف شعبوں میں تعاون اور دوستی کا پرچار کر رہی ہے۔ اس ہفتے کی تقریبات میں بھی ”امن کی آشا“ کا ذکر ہوا۔ اس موقع پر ایک نئے منصوبے کا تعارف بھی کرایا گیا جس کا مقصد ممبئی اور کراچی کے درمیان تعلقات کو قائم کرنا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی غیر سرکاری تنظیمیں ایک عرصے سے دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہاں بھی ان کہانیوں کی کوئی کمی نہیں کہ عام انسانوں کی ذاتی زندگی پر ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کا کیا اثر پڑتا ہے۔ کہانی کاروں اور شاعروں نے اس المیے کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ چلتے چلتے انگریزی ادب کے ایک عظیم شاعر ییٹس (Yeats) کا ایک واقعہ۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران ان سے ایک جنگی نغمے کی فرمائش کی گئی۔ انہوں نے انکار کر دیا اور یہ انکار بھی ایک چھوٹی نظم کی صورت میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے زمانے میں ہم شاعروں کے لئے یہ اچھا ہے کہ وہ اپنی زبان بند رکھیں اس لئے کہ شاعروں کے پاس کوئی ایسا گر نہیں ہے کہ وہ سیاسی رہنماؤں کو راستہ دکھا سکیں۔ کیا یہ تبصرہ ہمارے سیاسی رہنماؤں پر بھی کیا جا سکتا ہے؟
تازہ ترین