• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اقتصادی سروے میں اس اعتراف کے ساتھ کہ اپنے مختصر عرصہ اقتدار میں حکومت معاشی ترقی، زراعت، صنعت، مینوفیکچرنگ اور خدمات سمیت کوئی بھی اقتصادی ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی، مہنگائی بڑھ گئی ہے، اندرونی اور بیرونی قرضوں میں اضافہ ہو گیا ہے، سود کی شرح بڑھائے جانے سے کاروباری طبقہ مشکلات کا شکار ہے، وزیراعظم عمران خان کی اپنی معاشی ٹیم کو یہ ہدایت ملک کے بہتر مستقبل کے لئے ان کی مثبت سوچ کی عکاسی کرتی ہے کہ آئندہ بجٹ میں جو آج پیش کیا جانا ہے ہمہ جہتی معاشی استحکام کو مدنظر رکھا جائے اور غریب طبقے پر کم سے کم بوجھ ڈالا جائے۔ وزیراعظم نے، جو وفاقی میزانیے کا خود گہری دلچسپی سے جائزہ لے رہے ہیں، اتوار کو اپنی معاشی ٹیم کے اہم اجلاس کی صدارت کی۔ جس میں مشیر خزانہ، تجارت اور محصولات کے معاونین خصوصی، اسٹیٹ بینک کے گورنر اور چیئرمین ایف بی آر شریک تھے۔ سرکاری ذرائع کے حوالے سے اب تک جو غیر حتمی اطلاعات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق حکومت کو توقع ہے کہ اس کے اقدامات سے سرکاری اخراجات میں کمی آئے گی، قومی بچتوں میں اضافہ ہو گا، سرمایہ کاری میں تیزی آئے گی اور ٹیکس نیٹ بڑھے گا جس سے معاشی شرح نمو 3.3فیصد سے بڑھ کر چار فیصد ہو جائے گی۔ وزیراعظم کے معاونینِ خصوصی فردوس عاشق اعوان اور بیرسٹر شہزاد اکبر نے بھی ایک پریس کانفرنس میں نوید دی ہے کہ نیا بجٹ غریب دوست اور کفایت شعاری پر مبنی ہو گا، اس میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینا پہلی ترجیح ہو گی، ہر محکمے کے اخراجات میں کٹوتی کی جائے گی اور اس طرح بچائی جانے والی رقم تعمیر و ترقی کے منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے خود لوگوں سے ایک پیغام میں اثاثے ڈکلیئر کرنے کی اسکیم سے فائدہ اٹھانے کی اپیل کی ہے تاکہ ٹیکس ادا کر کے وہ اپنی غیر قانونی اور بے نامی دولت کو قانونی بناسکیں۔ بتایا گیا ہے کہ ایف آئی اے اور ایف بی آر نے بیرون ملک چھپائے گئے 12ارب ڈالر کے اثاثوں کی تفصیلات حاصل کر لی ہیں۔ حکومتی اسکیم سے جن لوگوں نے فائدہ نہ اٹھایا اُنہیں اس کا سخت خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ وزیراعظم کے مطابق اس وقت مختلف ٹیکسوں سے جو 4سو ارب روپے جمع ہوتےہیں ان میں سے 2سو ارب قرضوں کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں جس سے حکومتی اور ترقیاتی اخراجات کے لئے کچھ نہیں بچتا۔ یہ صورتحال پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق نئے بجٹ میں ساڑھے سات سو ارب روپے سے زائد کے ٹیکس لگائے جانے کا امکان ہے لیکن عام آدمی کو اس کے اثرات سے بچانے کے لئے کئی ارب روپے کا ریلیف بھی متوقع ہے۔ ایکسپورٹ انڈسٹری پر ڈیوٹی کی صفر شرح ختم کر کے 17فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی خبروں نے ایکسپورٹرز کو پریشان کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت صفر شرح کی واپسی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اس سے برآمدی تجارت کو نقصان نہ پہنچے ورنہ تجارتی خسارہ بڑھنے کے ساتھ بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوگا۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ سیمنٹ اور اسٹیل پر ایکسائز ڈیوٹی اور ٹیکس میں اضافہ کیا جائے گا اس سے تعمیراتی صنعت کی لاگت بڑھ جائے گی، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے جسے ختم کرنے کے لئے حکومت کو سخت فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں لہٰذا جہاں قوم کے لئے ضروری ہے کہ وہ حکومت کے اقدامات کو قبول کرے وہاں حکومت کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے اقدامات سے ملک کی بیمار معیشت صحتیاب ہونی چاہئے اور عام آدمی پر بوجھ نہیں پڑنا چاہئے جو پہلے ہی مہنگائی میں 9.1فیصد کے اضافے تلے دبا ہوا ہے۔ حکومت اقتصادی ماہرین کی مدد سے ٹیکسوں میں اضافے اور کفایت شعاری پر مبنی جو بجٹ تیار کر رہی ہے توقع کی جانی چاہئے کہ اس سے معیشت کو فائدہ پہنچے گا سیاسی قیادت کو بھی چاہئے کہ سیاست اپنی اپنی کریں مگر معیشت پر اتفاق رائے پیدا کریں، لڑائی جھگڑوں سے معاملات سدھرتے نہیں مزید بگڑتے ہیں۔

تازہ ترین