• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقتصادی سروے19-2018‘ٹیکس استثناءکی لاگت میں 80فیصد اضافہ

اسلام آباد(مہتاب حیدر)اقتصادی سروے 2018-19میں پیر کے روز اس با ت کا انکشاف ہوا ہے کہ ٹیکس استثناء کی لاگت میں 80فیصد کا بڑ ااضافہ ہوا ہے، جسے معیشت کے متعدد شعبوں کی طاقتور لابیوں کو فراہم کیا گیا ہے۔تمام ٹیکسز پر ٹیکس استثنا کی لاگت ، ترجیحاتی تجارتی معاہدے (پی ٹی ایز) اور پاک۔چین اقتصادی راہداری(سی پیک)میں خاصا اضافہ ہوا ہے اور یہ رواں مالی سال کے دوران 972اعشاریہ4ارب روپے تک پہنچ چکا ہے ۔جب کہ گزشتہ مالی سال 2017-18کے دوران اسی مدت میں یہ 540ارب روپے تھا یعنی رواں مالی سال میں اس ضمن میں 431اعشاریہ42ارب روپے یعنی 80فیصد اضافہ ہوا ہے۔2018-19میں سیلز ٹیکس استثنا کی لاگت 597اعشاریہ7ارب روپے رہی ، جب کہ 2017-18میں یہ 281اعشاریہ05ارب روپے تھی، انکم ٹیکس 61اعشاریہ78ارب روپے کے مقابلے میں 141اعشاریہ6ارب روپے رہا ۔جب کہ کسٹمز ڈیوٹی استثنا کی لاگت 198اعشاریہ15ارب روپے کے مقابلے میں 233اعشاریہ1ارب روپے رہی۔مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اپنے آج کے خطاب میں پانچ اہم برآمدی شعبوں کے لیے صفر درجہ بندی کے نظام سے دور کرنے کے حکومتی فیصلے کا اعلان کریں گے۔اقتصادی سروے سے واضح ہوتا ہے کہ صفر درجہ بندی کے پانچ برآمدی شعبوں میں چمڑا ، ٹیکسٹائل، قالین، سرجیکل اور کھیلوں کی اشیا،ایس آر او 1125کی لاگت کا تخمینہ 86اعشاریہ7ارب روپے لگایا گیا ہے۔رواں مالی سال کے دوران چین سے درآمدات پر دیئے گئے استثنا کی مجموعی لاگت سے آمدنی میں 32ارب روپے سے زائد کا خسارہ ہوا ہے۔SRO 1296(I)/2005کے تحت چین سے پاکستان درآمدات کے باعث 25لاکھ روپے ریونیو خسارہ ہوا۔جب کہ سی پیک کے تحت چین سے درآمدات پر دی گئی کسٹمز ڈیوٹی پر چھوٹ سے 2018-19میں 1اعشاریہ009ارب روپے ریونیو کا خسارہ ہوا ۔جب کہ چین سے درآمدات پر SRO 659(I)/2007کے تحت دی گئی کسٹمز ڈیوٹی پر چھوٹ سے 2018-19میں 31اعشاریہ620ارب روپے کا بڑا خسارہ ہوا ، جب کہ 2017-18میں یہ خسارہ 31اعشاریہ415ارب روپے تھا۔ڈائرکٹ ٹیکسز کی صورت میں انکم ٹیکس استثنا کی لاگت بڑھ کر 2018-19میں 79اعشاریہ868ارب روپے ہوگئی ۔جن دو اہم مراعات پر استثنا دیا گیا ان میں توازن، ماڈرنائزیشن ، پلانٹ اور مشینری کی تبدیلی پر سرمایہ کاری میں ٹیکس کریڈٹ اور آئی پی پیز کو دی گئی چھوٹ سے 2018-19میں 108اعشاریہ988ارب روپے کا ریونیو خسارہ ہوا ، جب کہ گزشتہ مالی سال کے دوران یہ خسارہ 52اعشاریہ643ارب روپے تھا ۔سیلز ٹیکس ایکٹ کے چھٹے شیڈول (استثنا شیڈول)کے تحت دیئے گئے سیلز ٹیکس استثنا کی وجہ سے ایف بی آر کو 301ارب روپے کا بڑا ریونیو خسارہ ہوا۔جب کہ گزشتہ سال چھٹے شیڈول کے تحت دیئے گئے استثنا کی لاگت 172اعشاریہ1ارب روپے تھی۔لہٰذا سیلز ٹیکس ایکٹ کے استثنا شیڈول کی وجہ سے 2018-19میں خسارہ بڑھ کر 128اعشاریہ9ارب روپے ہوگیا۔2018-19میں سیلز ٹیکس استثنا کی لاگت کا تخمینہ 597اعشاریہ7ارب روپے لگایا گیا تھا۔سیلز ٹیکس میں اہم استثنااور 2018-19میں اس استثنا کی لاگت SRO # 1125(I)/2011جو کہ سیلز ٹیکس پر رعایتی شرح سے متعلق ہے جو کہ خام مال، ٹیکسٹائل سے متعلق اشیا، قالین، چمڑا، کھیل اور سرجیکل شعبوں کو دی گئی ۔جس کی وجہ سے قومی خزانے کو 86اعشاریہ7ارب روپے کا نقصان پہنچا۔پانچویں شیڈول کے تحت درآمدات اور مقامی سپلائی اور چھٹے شیڈول کے تحت درآمدات آمدنی میں خسارے کا سبب بنی ۔جب کہ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990کے آٹھویں شیڈول سے قومی خزانے کو 170اعشاریہ49ارب روپے کا بڑا ریونیو خسارہ ہوا۔انکم ٹیکس استثنا کی لاگت 2017-18میں 61اعشاریہ777ارب روپے سے بڑھ کر 2018-19میں 141اعشاریہ645ارب روپے تک پہنچ گئی۔انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 65بی کے تحت توازن، ماڈرنائزیشن ، پلانٹ اور مشینری کی تبدیلی پر سرمایہ کاری میں ٹیکس کریڈٹ لینے پر آمدنی میں 90اعشاریہ954ارب روپے کا خسارہ ہوا۔آرڈیننس کے سیکشن 65ڈی کے تحت نئی صنعتوں کے قیام کے لیے ٹیکس کریڈٹ کے نتیجے میں 5اعشاریہ487ارب روپے کا خسارہ ہوا۔انکم ٹیکس آرڈیننس 2001کے سیکشن 64اے کے تحت کریڈٹ جو کہ ہائوس بلڈنگ پر سود سے متعلق تھا ، اس سے ریونیو میں 1اعشاریہ191ارب روپے کا خسارہ ہوا۔سیکشن 64اے بی کے تحت کریڈٹ جو کہ تعلیمی اخراجات پر قابل منہا الائونس کی وجہ سے ریونیو میں اعشاریہ067ارب روپے کا خسارہ ہوا۔جب کہ2018-19کے دوران آئی ٹی سروسز کی برآمدات پر استثنا کی وجہ سے اعشاریہ608ارب روپے کا خسارہ ہوا ۔رواں مالی سال کے دوران کسٹمز ڈیوٹی رعایت بڑھ کر 233ارب روپے ہوگئی ۔جس میں آٹو موٹو سیکٹر کو 26اعشاریہ6ارب روپے کی کسٹم ڈیوٹی استثنا بھی شامل ہے اور پانچویں شیڈول کے تحت 99اعشاریہ5ارب روپے کی رعایت /استثنا بھی شامل ہے۔

تازہ ترین