• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دنوں کتابوں کی ایک دکا ن پر میرا ٹاکرا اپنے ایک نیم خواندہ انگلش میڈیم انٹلیکچوئل دوست سے ہو گیا۔ موصوف نے دونوں ہاتھوں میں قریباً ایک درجن کتابیں تھام رکھی تھیں جنہیں بڑی مشکل سے اپنی ٹھوڑی کے ساتھ بیلنس کر رکھا تھا ۔ان میں سے زیادہ تر کتابیں انگریزی میں غیر ملکی مصنّفین کی تھیں جن کے بارے میں میرا خیال تھا کہ اگر صاحب بہادر ان تمام کتابوں میں سے ایک دو ہی پڑھ لیں تو ان کی آنے والی نسلیں سنور جائیں۔مجھے دیکھتے ہی حضرت نے تمام کتابیں کاؤنٹر پر ڈھیر کر دیں اور زبردستی بغل گیر ہوتے ہوئے فرمانے لگے:
”یار،اچھا ہو ا آج یہاں تم سے ملاقات ہو گئی ،یہ بتاؤ تم نے کیرن آرمسٹرونگ کو پڑھا ہے ؟“
میں نے کہا ”زیادہ تو نہیں ،بس رسول اللہ ﷺ پر اس کی کتاب ’محمدﷺ‘ پڑھی ہے ۔“
یہ سنتے ہی میرے دوست کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔”خدا تمہارا بھلا کرے …یا ر کیا کمال کی کتاب لکھی ہے اس عورت نے …غیر مسلم ہوتے ہوئے بھی رسول اللہﷺ پر اس قدر اعلیٰ کتاب شاید ہی کسی اور نے لکھی ہو…یہ گورے بھی عظیم لوگ ہیں …دین ہمارا ہے اور تحقیق یہ لوگ کرتے ہیں …اب دیکھو ناں …“ اس کے بعد اگلے پندرہ منٹ تک موصوف گوروں کی مدح سرائی کرتے رہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہے کہ اسلام سے متعلق مستند ترین کتب بھی گوروں کے ہاں لکھی گئی ہیں ،ہم نے فقط جھک ہی ماری ہے ۔جواباً میں نے صرف ہوں ہاں ہی کی جس سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ میں ان کے دلائل کے سامنے بالکل بے بس ہوں لہٰذا انہوں نے اپنی پر مغز تقریر کے اختتام پر مجھے یہ آفر کی کہ اگلی ملاقات ان کے دولت کدے پر ہوگی جہاں وہ مجھے اپنی غیر ملکی کتب کا ذخیرہ دکھا کر ثواب دارین حاصل کریں گے ۔میں نے وعدہ کر لیا،جان چھوٹ گئی ۔
کیرن آرمسٹرونگ ہو یا مائیکل ایچ ہارٹ ،ہماری eliteگورے کا نام سنتے ہی ”ڈُل“ جاتی ہے ،یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس میدان میں مسلمانوں نے بھی بے پناہ کام کیا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ عربوں نے کاغذ کا استعمال آٹھویں صدی کے اوائل میں ہی شروع کر دیا تھا لہٰذا اس دور میں اسلامی تاریخ پر تحقیق نہ صرف بہت تیزی سے ہوئی بلکہ اسے کاغذ پر محفوظ بھی کر لیا گیا۔ حضرت محمد ﷺ کو دیگر تمام انبیا ء پر جو فوقیت حاصل ہے اس میں ایک بہت بڑا امتیاز یہ بھی ہے کہ تاریخ میں آنحضرت ﷺ کی زندگی جس قدر تفصیل کے ساتھ محفوظ ہے وہ کسی دوسری برگزیدہ ہستی یا پیغمبر کی نہیں۔آپ کی پیدائش سے لے کر جوانی تک ،نبوت سے لے کر غزوات تک اور آخری خطبے سے لے کر وصال تک کے تمام واقعات جزئیات کے ساتھ تاریخ میں موجود ہیں ۔یہی نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے خانگی معاملات ،آپ کی ذاتی زندگی ،آپ کا رہن سہن، اخلاق عالیہ ،بطور باپ، شوہر ، کزن اور دوست کے آپ کا برتاؤ، بھی مورخین نے نہ صرف documentکیا بلکہ مختلف ادوار میں اس کی اتھارٹی پر بحث ہوتی رہی ،مخالفین کے اعتراضات کا منہ توڑ جواب دیا جاتا رہا اور مسلسل آپ کی حیات طیبہ پر کام ہوتا رہا جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔
ہم لوگ چونکہ مغرب سے ضرورت سے زیادہ مرعوب ہو چکے ہیں اور اس مرعوبیت کی وجوہا ت بھی کسی قدر ٹھوس ہیں چنانچہ جب اسلام یا آنحضرتﷺ کی زندگی کے بارے میں بات ہوتی ہے تب ہماری نام نہاد اشرافیہ کی تسلی صرف اس وقت ہوتی ہے جب انہیں غیر ملکی محققین کے حوالے دئیے جائیں ۔اس eite نے کیرن آرمسٹرونگ یا مائیکل ایچ ہارٹ کا نام تو سن رکھا ہے مگرمولاناصفی الرحمن مبارکپوری کی الرحیق المختوم یا علامہ شبلی نعمانی کی سیرت النبی کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں لگتا ہے جیسے ان پر اردو میڈیم کی چھاپ لگ جائے گی ۔اسی طرح ہماری elite نے کبھی ابن اسحاق کو پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ابن اسحاق 85ہجری میں مدینہ میں پیدا ہوئے،آپ کا پورا نام محمد بن اسحاق بن یاسر تھا ۔آپ کے داد ا کو حضرت خالد بن ولید نے ایک جنگ کے دوران قیدی بنایا اور بعد ازاں دیگر قیدیوں کے ہمراہ حضرت ابوبکر  کے پاس مدینہ بھیج دیا۔ وہاں سے انہیں بطور غلام ،قیس بن مکرمہ بن المطلب بن عبد مناف کے حوالے کر دیا گیا تاہم بعد میں اسلام قبول کرنے کے بعد انہیں آزاد کر دیا گیا ۔ابن اسحاق نے تیس برس کی عمر میں مصر کا سفر کیا جہاں انہیں یزید بن ابو حبیب کے لیکچرز سننے کا موقع ملا ،بعد ازاں مدینہ واپسی پر انہوں نے ان لیکچرز کا تمام مواد اکٹھا کر کے ترتیب دیا۔ الزہری ،جو اس وقت مدینہ میں تھے ،کا ابن اسحاق کے بارے میں کہنا ہے کہ مدینہ کبھی علم سے خالی نہیں ہو سکتا جب تک ابن اسحاق وہاں موجود ہیں۔ ابن اسحاق وہ پہلے مورخ تھے جنہوں نے حضرت محمد ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے متعلق کتاب لکھی اور یہ بلاشبہ ایک عظیم الشان کارنامہ تھا۔ابن اسحاق کے شاگرد ،ال بقاعائی کے پاس اس کتاب کی دو کاپیاں تھیں جن میں سے ایک ابن الہشام کے پاس پہنچی جنہوں نے اصل متن کی تدوین کی اور فقط وہی تدوین شدہ کام ہی آج محفوظ ہے ۔اس کتاب کی خصوصیت اس لحاظ سے بہت زیادہ ہے کہ یہ آنحضرتﷺ کے وصال کے بعد تقریباً سو ا سو سال کے عرصے کے اندر لکھی گئی (گو کہ ابن الہشام کی تدوین شدہ کاپی بعد میں منظر عام پر آئی)اور یوں اس کے ذرائع اس لحاظ سے مستند تھے کہ ان میں صحابہ کرام اور تابعین شامل تھے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ پر لکھی گئی کتب کی کمی نہیں تاہم اب ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ہم ان لکھی ہوئی باتوں پر عمل بھی کریں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم ہر سال عید میلاد النبی کے موقع پر محافل میلاد منعقد کروانے کے ساتھ ساتھ علمی مباحث کو بھی فروغ دیں جن کا رواج اس لئے ختم ہوتا جا رہا ہے کہ شدت پسندی کی وجہ سے کوئی مخالفانہ نقطہ نظر ہی سننے کو تیار نہیں۔ اور اس عدم برداشت کا نقصان سب سے زیادہ خود مسلمانوں کو پہنچ رہا ہے ۔گستاخ رسولﷺ اور دیگر جہنمیوں کی بات دوسری ہے ،ان کا مقصد کسی قسم کی علمی بحث نہیں بلکہ فقط اشتعال دلا کر مسلمانوں کے جذبات کی دل آزاری کرنا ہے اور وہ بھی آزادیٴ اظہار کی آڑ میں ۔حالانکہ یہ آزادی اگر ان کی والدین کی شان میں گستاخی کے ضمن میں استعمال کی جائے تو زیادہ مناسب بات ہوگی ۔ان کے علاوہ مغرب میں آئے دن کوئی نہ کوئی ”محقّق“ اٹھتا ہے اور غیر مستند حوالوں یا روایتوں کی مدد سے اسلام پر حملے شروع کر دیتا ہے ،جس کا جواب دینے کی بجائے ہم اس کی کتاب پر پابندی لگا دیتے ہیں حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان رقیق حملوں کا مدلل اور مستند جواب دیا جائے جس کی اہلیت بلاشبہ جید علمائے کرام میں موجود ہے اور یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم روز آخرت حضرت محمد ﷺ کی شفاعت سے بہرہ مند ہوسکتے ہیں ۔لیکن یہ کام وہی علمائے کرام انجام دے سکتے ہیں جو اسوئہ حسنہ پر چلنے کی تلقین ہی نہ کرتے ہوں بلکہ خود بھی آقاﷺ کے راستے کے مسافر ہوں ، اس آقاﷺ کے جس کے کپڑوں پر پیوند لگے ہوتے تھے اور جو اپنی ضرورت سے زیادہ ہر شے دوسروں کو بانٹ دیا کرتے تھے ۔ہم جوش خطابت میں تو اس آقاﷺ کی مثالیں دیتے ہیں مگر اپنی تقریر ختم کرتے ہی کلاشنکوفوں کی چھاؤں میں باہر آتے ہیں اور لینڈ کروزر سے نچلے درجے کی گاڑی میں بیٹھنے کو توہین سمجھتے ہیں ۔کون لوگ ہیں ہم!
تازہ ترین