• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

 ؎’’اُن کے ہونے سے بخت ہوتے ہیں.....باپ گھر کے درخت ہوتے ہیں ‘‘ ؎ ’’ عزیز تر مجھے رکھتا تھا، وہ رگِ جاں سے.....یہ بات سچ ہے، مِرا باپ کم نہ تھا ماں سے.....وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پہ رکھتا تھا.....یہی وجہ تھی، مجھے چُومتے جھجکتا تھا.....وہ آشنا مِرے ہر کرب سے رہا ہر دَم.....جو کُھل کے رو نہیں پایا، مگر سِسکتا تھا.....جُڑی تھی اُس کی ہر اِک ہاں، فقط مِری ہاں سے.....یہ بات سچ ہے، مِرا باپ کم نہ تھا ماں سے.....پُرانا سوٹ پہنتاتھا، کم وہ کھاتا تھا.....مگر کھلونے مِرے سب خرید لاتا تھا.....وہ مجھ کو سوئے ہوئے دیکھتا تھا جی بھر کے.....نہ جانے سوچ کےکیاکیامُسکراتا تھا..... مِرےبغیر تھے سب خواب اس کے ویراں سے.....یہ بات سچ ہے، مِرا باپ کم نہ تھا ماں سے‘‘ ؎ ’’ رہا پا برہنہ وہ خود مگر، نیا بُوٹ مجھ کو دِلادیا.....مِرے باپ کے اِسی رُوپ نے مجھے باپ جیسا بنادیا.....مَیں تماشا دیکھنا چاہتا تھا، سَروں کی اونچی قطار سے.....مِرے پیر کاندھے پر رکھ دیئے، مجھے دوسروں سے بڑھادیا.....جو گِلہ کیا، کڑی دھوپ میں یہ سفر کٹھن بھی ہے، سخت بھی.....تو رَدا میں مجھ کو چُھپالیا، کڑی دُھوپ، لُو سےبچالیا.....کبھی سردیوں میں ہوا چلی تو، ٹھٹھرتی رات کو فرش پر.....مِرا باپ چُپکے سے سوگیا، مجھے اپنا کھیس اُڑھادیا‘‘ اور ؎ ’’زباں پہ لفظ، بدن میں لہو محبّت ہے.....یہ میرا باپ نہیں، چار سُو محبّت ہے‘‘۔

’’ماں‘‘ کی طرح ’’باپ‘‘ بھی ایک سہ حرفی، مگر اپنی ذات میں مکمل لفظ ہے۔ ایک ایسا الوہی، ماورائی سا رشتہ کہ جس کے تصوّر ہی سے قلب و ذہن کے نہاں خانوں، دریچوں سے کون کون سے مناظر نہیں جھانکنے لگتے۔ باپ کہلانا تو دُور کی بات، باپ بننے کا احساس ہی ایک شخص کی کیسے کایا پلٹتا ہے، اِس کا اندازہ اُس سَرخوشی و سرشاری سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے، جو اُس مرد کے انگ انگ سے جھلکتی ہے، جسے پہلی بار یہ اطلاع ملتی ہے کہ ’’وہ باپ بننے جارہا ہے۔‘‘ کسی نے کہا تھا ناں کہ ’’منگنی ہوئی تو مرد دوستوں سے گیا، شادی ہوئی، تو گھر والوں سے گیا اور بچّے ہوئے، تو خود سے گیا۔‘‘ تو بس وہ ’’خود سے جانے والی‘‘ کیفیت اُسی پل سے، اُس کے چہرے سے ہویدا ہونے لگتی ہے۔ ماں اگر اپنی کوکھ میں پلتے وجود کی سانس کے ساتھ سانس لیتی ہے، تو باپ بھی اُسی روز سے اِک اَن دیکھے وجود کی محبت میں بُری طرح گرفتار ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور پھر اُس شدید محبت کا پہلا بے اختیار اظہار اس بے ساختہ، بے ریا بوسے کی صُورت ہوتا ہے، جو ایک باپ، پہلی بار اپنے جگر گوشے کو اپنے وجود سے لِپٹا کے، بانہوں میں بھر کے اُس کے ماتھے پر ثبت کرتا ہے۔ ماں کی نرم و گرم گود اگر بچّے کو پُرسکون کرتی ہے، تو باپ کے سخت ہاتھوں کا لمس، مضبوط و توانا وجود، گھنیرا سایہ گویا دنیا کے تمام تر آلام و مصائب سے تحفّظ کا استعارہ بن جاتا ہے۔ ایک کم زور، نرم و نازک، ننّھے مُنّے سے پودے کو اس احتیاط و محبت سے سنیچنا، اُس کی اِس طور نگہداشت، آب یاری کرنا کہ اُس کی اٹھان میں کوئی ہلکی سی کمی، خامی نہ رہ جائے۔ وہ پروان چڑھے، تو ایسا تناور، گھنیرا درخت ہو کہ اُسے پالنے پوسنے، اٹھانے بڑھانے والے بھی اُس کے سائے میں بیٹھنا چاہیں، کچھ اتنا آسان امَر بھی نہیں۔ اِک عُمر کی نقدی ختم، ایک زندگی فنا ہوتی ہے، تو ایسی ’’چھپّر چھاں‘‘ تیار ہوپاتی ہے۔ اور یہ صرف ایک باپ ہی کرسکتا ہے۔ صرف ایک باپ، کہ دنیا میں یہ وہ واحد شخص ہے، جو اپنی اولاد کو خود سے زیادہ طاقت وَر، مضبوط و توانا، خود سے زیادہ خوش باش، شاداں و فرحاں اور خود سے زیادہ کام یاب و کامران دیکھ کر دل سے خوش ہوتا ہے۔ تب ہی تو ایک ڈاکو بھی اپنی اولاد کو ڈاکو نہیں، ایک اچھے انسان کے رُوپ ہی میں دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے۔

ایک ننّھے مُنّے، گل گوتھنے سے بچّے کو پَل پَل بڑھتے دیکھنا، اپنا دن رات تج کے، پوری زندگی تیاگ کے اپنے کاندھے برابر کھڑا کرنا ایک باپ کے لیے کس قدر فخر و اعزاز کی بات ہوتی ہے، یہ صرف ایک باپ ہی جانتا ہے۔ جِسے کاندھوں پہ اُٹھائے اُٹھائے پھرنا، جس کے لیے دفتر سے تھک ہار کے آنے کے بعد بھی گھوڑا بن کے پورے گھر کے چکّر کاٹنا، جس کے ننّھے ننّھے پائوں، اپنے پیروں پہ رکھ کے چلنا سکھانا، جس کی انگلی تھام کے کبھی اسکول، مدرسے چھوڑ کے آنا، کبھی پارکوں، بازاروں میں گُھمانا، جھولوں پہ بٹھانا، پنگھوڑا ہلانے سے لے کر واکر، سائیکل، بائیک، گاڑی حتیٰ کہ ہوائی جہاز تک اُڑاتے دیکھنا ذہنی و قلبی سکون و اطمینان کا باعث بنے۔ جس کے لیے غبارے پُھلانا، غلیل چلانا، پتنگیں اُڑانا، آنکھ مچولی، چُھپن چُھپائی کھیلنا، ٹوٹے کھلونے جوڑنا، ڈول ہائوس سیٹ کرنا، گُڈے گڑیا کا بیاہ رچانا، کبھی بائولر بننا، تو کبھی فٹ بالر، باڈی بلڈر، سوئمر، ہاکی/ٹینس/ اسکواش پلیئر حتیٰ کہ نوکر، شوفر، خانساماں، نائی، موچی تک بننا گوارہ ہی نہ ہو، بلکہ دل سے اچھا لگے، وہ اس بَھری دنیا میں اِک اپنے جگر گوشے، ’’اولاد‘‘ کے سوا بھلا کوئی اور ہوسکتا ہے۔

اور یہ صرف اِک باپ ہی کی صفت، وصف ہے کہ دن بھر مشقّت کی چکّی میں پِس کر بھی شام ڈھلے جب بستر پر لیٹتا ہے، تو بے خبر سوئے بچّے کو ساتھ چِمٹا لِپٹا کے خُوب پیار کیے جاتا ہے۔ کبھی اُس سے محبت بھری سرگوشیاں، گُدگدیاں، اٹکھیلیاں کرتاہے، تو کبھی خوب ہنستا کھیلتا، اُسےجھوٹی سچّی کہانیاں سُناتا ہے۔ وہ باپ ہی ہوتا ہے، جو بچّے کا پہلا کھلوناٹوٹنے، پہلی چوٹ لگنے، پہلی بار ماں، ٹیچر سے ڈانٹ پڑنے، پہلی لڑائی ہونے، پہلی ناکامی پر پھوٹ پھوٹ کر رو دینے پر بازوئوں میں بھر کے ایسے دلاسا، تسلّی، بہادری کا درس دیتا ہے کہ پھر وہ زندگی بھر کے لیے زمانے کے سب ہی تھپیڑے کھانے کو تیار ہوجاتا ہے۔ وہ باپ ہی ہوتا ہے، جو بچّے کی پہلی سال گرہ، تہوار سے لے کر زندگی کے اِک اِک اہم دن کی بھرپور سلیبریشن کے لیے اپنا تن مَن دھن سب وار دیتا ہے۔ وہ باپ ہی ہوتا ہے، جو بیٹے کے اُلٹے سیدھےمشاغل، فیشنز، ہیئرکٹس اور بیٹی کی ٹیڑھی میڑھی پونیوں، لال پیلے میک اپ، دنیا کے نقشے جیسی روٹیوں اور پہلی پہلی بار کے ٹرائی کیے پھیکے بدمزہ کھانوں کی بھی دل کھول کر تعریف کرتا ہے۔ وہ باپ ہی ہوتا ہے، جس کے پرس میں رقم ہو، نہ ہو، اپنے بچّوں کی تصویریں ضرور موجود رہتی ہیں۔ وہ باپ ہی ہوتا ہے، جو بہ ظاہر سخت دل، بے لچک نظر آنے کے باوجود، اِک اولاد کی خاطر ساری زندگی پیسا کمانے کی مشین، دو جمع دو والا کیلکولیٹر ہی بنا رہتا ہے۔ اور.....وہ باپ ہی ہوتا ہے، جس کے صرف اِک ’’ہونے‘‘ کے احساس ہی سے ساری دنیا ایک محفوظ پناہ گاہ، مضبوط فصیل معلوم ہوتی ہے۔ سر پر اس کا گھنا چھتنار سایا، پُشت پہ بھاری بھرکم ہاتھ ہو تو سارے حوادث، سب آفات، بلائیں نہ جانے خود بخود کیسے ٹلتی چلی جاتی ہیں۔ بڑی سے بڑی مصیبت، پریشانی بھی آنکھیں نم نہیں ہونے دیتی۔ اِک یہ خیال ہی کہ ’’ابّو، ابّا، بابا، ابّی جی، پاپا، ڈیڈی ہیں ناں.....‘‘ اتنا توانگر ہوتا ہے کہ دنیا کے سارے مصائب و آلام اُس کے سامنے ہیچ ہوجاتے ہیں۔ سیگمنڈ فرائیڈ نے کہا تھا ’’بچّے کے لیے دنیا میں باپ کے ہونے کے احساس سے زیادہ قیمتی شئے اور کوئی نہیں‘‘

اور بلاشبہ سو فی صد درست ہی کہا تھا کہ ایک باپ کے سوا کون ایسا ہوسکتا ہے، جو کہے ؎ ہمیں بچّوں کا مستقبل لیے پھرتا ہے، سڑکوں پر.....نہیں تو گرمیوں میں، کب کوئی گھر سے نکلتا ہے۔ اور ؎ مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ.....میرے بچّے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے۔

ساحر علی بگّا، جن کا شمار اب پاکستان کے صفِ اوّل کے موسیقاروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے انتہائی کم وقت میں مُلک ہی نہیں، بیرونِ مُلک بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور جو موسیقار ہیں تو بہ یک وقت گلوکار، کمپوزر اور میوزک ڈائریکٹر بھی۔ جن کے کمپوزڈ گیتوں، بھنگڑوں، قومی نغموں اور مقبول ڈراموں کے او ایس ٹیز (اوریجنل سائونڈ ٹریکس) نے شہرت و مقبولیت کے نئے نئے ریکارڈ قائم کیے، خاص طور پر آئی ایس پی آر کے تحت ریلیز ہونے والے مقبولِ عام نغموں ’’بڑا دشمن بنا پھرتا ہے، جو بچّوں سے لڑتا ہے‘‘ اور ’’مجھے دشمن کے بچّوں کو پڑھانا ہے‘‘ نے تو (یادرہے، ان نغموں کے کمپوزر ساحر علی بگّا ہیں، تو گائیک ان کے بڑے صاحب زادے اذان علی بگّا) پوری قوم پر ایک سحر سا طاری کردیا۔ وہی ساحر علی بگّا اپنے اس شان دار تعارف، حوالے، کیریئر کے ساتھ ایک اور بہت ہی خُوب صُورت حوالہ بھی رکھتے ہیں، اور وہ ہے، چار بہت ہی پیارے پیارے بچّوں کے بہترین، آئیڈیل باپ ہونے کا۔ اور تب ہی آج وہ ہماری اس ’’فادرز ڈے اسپیشل بزم‘‘ کے مہمانِ خصوصی بھی ہیں۔

ویسے تو بگّا صاحب کچھ کم گو سے ہیں، مگر اپنے، اپنےوالد اور بچّوں کے ساتھ تعلق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نہ صرف کُھل کےبولےبلکہ خاصے جذباتی بھی ہوگئے، ’’میرے ابّا جی دنیا کے سب سے شان دار باپ ہیں۔ ہم پانچ بھائی ہیں اور انہوں نے ہم پانچوں میں سے کسی کی تعلیم و تربیت پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ ہر حتی الامکان کوشش کی کہ ہماری کوئی خواہش تشنہ، کوئی فرمایش پوری ہونےسےرہ نہ جائے۔ مَیں بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہوں، نہ پہلوٹھی کی اولاد ہوں، نہ سب سے چھوٹا، جن کے بارے میں عموماً کہا جاتا ہے کہ وہ والدین کے زیادہ لاڈلے ہوتے ہیں، مگر مجھے نہیں یاد کہ میں نے زندگی میں کچھ پانے کی تمنّا کی ہو اور والد صاحب نے اُس کی تکمیل کے لیے ایڑی چوٹی کا زور نہ لگادیا ہو۔ اُن کی بڑی خواہش تھی کہ اُن کی اولاد تعلیمی میدان میں بہت کام یابیاں حاصل کرے اور وہ اس معاملے میں سختی بھی کرتے تھے، لیکن مجھے بچپن ہی سے موسیقی کا شوق تھا، تو آٹھ سال کی عُمر کا تھا، جب انگلی پکڑ کے میڈم نورجہاں کےگانے کی ریکارڈنگ سُنوانے لے گئے۔ اور اتفاق سے اُس دن گانے کے ڈرمر، اعجاز حسین بلو کسی وجہ سے نہیں آسکے تھے، تو میں نے ہمّت کرکے کہا کہ ’’مَیں بھی ڈرم بجاسکتا ہوں۔‘‘ اور پھر نورجہاں جی کے کہنے پر میں نے بجایا تو سیٹ پر موجود سب ہی لوگ ہکّا بکّا رہ گئے۔ دراصل والد صاحب چوں کہ خود ایک بڑے موسیقار ہیں۔ وہ 50سے زائد میوزیکل انسٹرومنٹس بجانا جانتے ہیں، تو بس مجھے بھی یہ شوق وَرثے میں ملا تھا، پھر والدین نے بھی میرا اشتیاق دیکھتے ہوئے میری رہنمائی اور حوصلہ افزائی شروع کردی۔ مجھے پہلا گٹار امّی جی ہی نے لےکر دیا تھا اور وہ ابّا جی کو بھی قائل کرتی رہتی تھیں کہ بچّوں کو اُن کی مرضی کی فیلڈ چُننے دینی چاہیے۔ اِسی لیے آج میں پورے اعتماد، بہت فخر و یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ بہ خدا میں آج جو کچھ بھی ہوں، اپنے والدین ہی کی بہ دولت ہوں۔ وہ ہے ناں ؎ باپ سِراں دے تاج محمد، تے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں۔ تو بس، سچ تو یہی ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے بگّے (ساحر علی بگّا چوں کہ پیدایش کے وقت خاصے گورے چِٹّے تھے، تو بچپن ہی سے سب نے اُنھیں بگّا(گورا چِٹّا)کہنا شروع کر دیا، جب کہ اُن کا نام ساحر علی، والد صاحب نے ساحر علی لدھیانوی کے نام پر رکھا) کالے دنیا میں آئے اورچلےگئے،پتانہیں کتنےموتی، باپوں کا دستِ شفقت نہ ہونے کے سبب مٹی میں رُل گئے، جب کہ مَیں تو اتنا خوش نصیب ہوں کہ میرے باپ کا ہاتھ آج بھی میرے سر پر ہے اور صرف میرے ہی نہیں، میری اولاد کے سر پر بھی۔ میرے بچّے صرف باپ ہی سے نہیں، دادا سے بھی حد درجہ فرینک ہیں۔ ابّا جی نے جیسے مجھے بیسیوں میوزیکل انسٹرومنٹس بجانا سکھائے، اِسی طرح اب اذان کو بھی سکھارہے ہیں۔ اور وہ ان کے ’’یار دادا‘‘ ہیں۔ مَیں اندر ہی اندر بڑا خوش ہوتا ہوں، جب وہ اذان اور زائر (چھوٹا بیٹا) کے گلے میں ہاتھ ڈال کے اُن سے بات کرتے ہیں اور بچّے اُن سے ’’یار دادا!ایسے نہیں، یار دادا! ویسے نہیں‘‘ کہہ کے بات کر رہے ہوتے ہیں۔ مَیں اپنے بچّوں کے ساتھ حد درجہ فرینڈلی ہوں، مگر ہم اپنے ابّا جی کے ساتھ اس قدر دوستانہ انداز میں بات نہیں کرتے تھے، جیسے آج ہمارے بچّے کرتے ہیں کہ ایک حجاب، فاصلہ بہر حال رہتا تھا۔ اب تو وقت اور حالات کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا ہے۔‘‘

’’آپ کے والدین، آپ کے ساتھ ہی رہتے ہیں؟‘‘ہم نے پوچھا، تو بگّا صاحب نے کسی قدر حسرت سے کہا، ’’نہیں، مستقل نہیں۔ میری تو بڑی خواہش ہے، لیکن در اصل مسئلہ یہ ہے کہ اندرون بھاٹی گیٹ کے رہنے والے اس خالص شہری ہوا کے ساتھ گزارہ نہیں کر سکتے، تو بس آنا جانا لگا رہتا ہے۔ مہینے میں ایک دو ہفتے کے لیے ابّا جی، امّی جی یہاں آجاتے ہیں، تو کبھی ہم وہاں چلے جاتے ہیں۔ مگر الحمدُ للہ، میرے والدین، بھائیوں کی مجھ سے اور میرے بچّوں سے بہت اچھی بانڈنگ ہے، بلکہ بچّے ددھیال، ننھیال سب ہی سے بہت زیادہ اٹیچڈ ہیں۔ در اصل ہمارے گھرانوں میں آج بھی پُرانی ریت روایات، خالص مشرقی ماحول کسی نہ کسی انداز سے زندہ ہے۔ ہم اپنی جَڑوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح جُڑے ہوئے ہیں اور مَیں چاہتا بھی نہیں کہ میں یا میرے بچّے اپنی رُوٹس سے الگ ہوں۔ مَیں نے اپنے بچّوں کو ہر طرح کی آزادی، آسائشیں مہیا کر رکھی ہیں، مگر انہیں اپنی حدود قیود کا بھی پتا ہے۔ میری اہلیہ، امریہ ساحر، جو میری خالہ زاد بھی ہیں، وہ ایک روایتی مشرقی خاتون ہیں۔ بچّوں کی اچھی تعلیم و تربیت اُن کی زندگی کا نصب العین ہے، تو سُسرال، خاندان کے ساتھ بھی بہت گھُل مِل کے رہتی ہیں۔ پھر چوں کہ میرا اسٹوڈیو گھر کے اندر ہی ہے، تو مَیں بھی گھر کے معاملات سے غافل نہیں ہوں۔ بچّوں کی تعلیم، ضروریات، دیگر معمولات ِزندگی سب ہم دونوں مل جُل کر ہی دیکھتے ہیں۔‘‘

’’بیٹیاں زیادہ پیاری لگتی ہیں یا بیٹے… اور کیا کبھی اولاد کو شکایت ہوئی، کسی ایک کو، دوسرے پر فوقیت دینے کی؟‘‘ عمومی طور پر گھروں میں پائی جانے والی ایک شکایت کے حوالے سےہم نے پوچھا، تو بگّا صاحب نے بہت سختی سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا، ’’نہیں، ہرگز نہیں۔ میرے چاروں بچّے میری آنکھ کا تارا، میرے دل کا نور ہیں۔ بیٹیاں رحمت تو بیٹے برکت ہیں اور میرے بچّے تو ہیں بھی اتنے سلجھے ہوئے، سمجھ دار، تابع دار کہ کسی شکایت کا موقع ہی نہیں دیتے۔ در اصل اُن کی والدہ اُن کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجّہ دیتی ہیں اور پھر جن بچّوں کے سَروں پر بزرگوں کا سایا ہو، وہ بڑے خوش بخت ہوتے ہیں، اتنی آسانی سے نہیں بگڑتے۔ ہم سب ایک دوسرے سے اتنے رَلے مِلے ہوئےہیں کہ ہمیں تو کبھی باہر کے کسی فرد کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ میرے بچّوں کے زیادہ دوست نہیں ہیں۔ پڑھائی، کھیل کود سے فارغ ہوتے ہیں، تو میرے پاس اسٹوڈیو آجاتے ہیں۔ اذان تو باقاعدہ موسیقی کی تربیت لے رہا ہے۔ باقی تینوں بھی باپ کے کام میں بہت دل چسپی لیتے ہیں۔ اذان بڑا بیٹا ہونے، پھر اپنی خُوبیوں، خُوش مزاجی کے باعث خاندان بھر کا لاڈلا ہے، تو بڑی بیٹی الائبہ خاندان کی پہلی لڑکی ہونے کی وجہ سے ہر دل عزیز ہے۔ چھوٹا بیٹا، زائر اپنی الگ ہی شخصیت، صفات کے باعث بے حد پیارا ہے، تو سب سے چھوٹی رباب زہرا ویسے ہی چھوٹی، بھولی بھالی، معصوم سی ہونے کے سبب سب کے دِلوں کی ٹھنڈک ہے۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتا کہ کوئی باپ، اپنے دس بچّوں میں بھی بھلا تخصیص کیسے کر سکتا ہے۔ اولاد تو اولاد ہوتی ہے، اپنے وجود کا ایک حصّہ، تو کسی بھی شخص کو اپنے وجود کا کوئی حصّہ کم یا زیادہ پیارا کیسے لگ سکتا ہے۔ میری بیٹیاں میری جان ہیں، تو میرے بیٹے میری زندگی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بیٹوں سے پیار کا انداز الگ، بیٹیوں سے الگ ہے۔ بیٹوں سے بے تکلفی، یاری دوستی ہے، جب کہ بیٹیوں سے مَیں پیار کے ساتھ اُن کا احترام بھی کرتا ہوں کہ بیٹیاں محبّت ہی نہیں، عزّت و احترام بھی ڈیزرو کرتی ہیں۔ بہرحال، ہمارے والدین ہمیں دیکھ دیکھ جیتے ہیں، تو ہم اپنی اولاد کو۔ اور میرا خیال ہے، ازل سے دنیا ایسے ہی چل رہی ہے، اور شاید ابد تک ایسے ہی چلے گی۔‘‘

’’آپ کا اپنے والدین سے محبّت کے اظہار کا انداز کیا ہوتا تھا اور اب آپ کے بچّے اپنی محبّت کا اظہار کیسے کرتے ہیں؟‘‘ ہمارا اگلا سوال تھا۔ جس کے جواب میں بگّا صاحب نے حسبِ عادت مُسکراتے ہوئے کہا، ’’آج کل کے بچّے بہت ایکسپریسیو ہیں۔ ہماری نسل کو تو والدین کو بتانا ہی نہیں آتا کہ اُن کے دل میں والدین کے لیے کس قدر عقیدت و محبّت ہے۔ ہم نمازوں، دعاؤں میں تو اپنے والدین کے لیے رو رو کے اُن کی سلامتی، صحت و تن دُرستی مانگتے ہیں، مگر اُن کے سامنے ’’آئی لَو یو ابّو یا آئی لَو یو امّی‘‘ کہنے میں بہت جھجک آتی ہے۔ بڑا دل چاہتا ہے، ماں کا، باپ کا منہ، سر چومنے کو، مگر احترام، حیا غالب آجاتی ہے، جب کہ ہمارے بچّے تو اپنے ہر جذبے کا اظہار پوری شدّت سےکرتےہیں۔ خوش ہوں تو ساتھ لپٹ جائیں گے، منہ چومیں گے، گلے میں بانہیں ڈال دیں گے، سینے پر سر رکھ کے سو جائیں گے۔ خفا ہوں تو سامنے ہی پاؤں بھی پٹخ لیں گے۔ جو بات غلط لگےگی، کہنےمیں کوئی عار محسوس نہیں کریں گے۔ تو محض ایک جنریشن کے گیپ سے اولاد، والدین کے رشتے میں خاصی تبدیلیاں تو آئی ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے والدین نے اپنی جگہ ہماری تعلیم وتربیت کے معاملے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی، تو ہم اپنی جگہ اِسی کوشش میں لگے ہیں۔ ہاں، مَیں آج اس بزم اور اس دن کے توسّط سے یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ میرے والد، دنیا کے عظیم ترین باپ ہیں اور مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ مَیں دنیا کا ہر جتن کرکے بھی اُن جیسا اچھا باپ نہیں بن سکتا۔ ہمارے والدین نے کم وسائل میں جس طرح ہماری تعلیم و تربیت، ہر جائز، ناجائز خواہش کی تکمیل کی کوشش کی، ہم بہت زیادہ وسائل کے باوجود بھی اپنی اولاد کو وہ سب کچھ نہیں دے پائے۔ کوئی نہ کوئی کمی، تشنگی رہ ہی جاتی ہے۔‘‘

اذان، الائبہ، زائراور رُباب سے ہم نے مشترکہ طور پر اُن کے، اُن کے پاپا کے ساتھ ریلیشن، گھر کے ماحول اور پاپا کی زندگی کے اہم ایّام، خصوصاً ’’فادرز ڈے‘‘ کی سلیبریشن سے متعلق پوچھا، تو سب سے پہلے تو اذان نے بہت چہکتے ہوئے کہا، ’’پاپا تو ہمارے بیسٹ فرینڈ ہیں۔ آج تک ہم پر جتنی سختی ہوئی ہے، ماما کی طرف سے ہوئی ہے۔ پاپا تو سخت غصّے میں ہوں، ڈانٹ بھی رہے ہوں، تو اُنہیں ایک دَم ہنسی آجاتی ہے۔ ماما ہم پر کسی بات پہ ناراض ہو رہی ہوتی ہیں اور پاپا، پیچھے سےہنس رہے ہوتے ہیں اور جس کو ماما کے غصّے سے بچنا ہوتا ہے، وہ پاپاکے اسٹوڈیو ہی میں جا کے پناہ لیتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے، پاپا مجھ سے سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں، میری اُن سے اتنی دوستی ہے کہ بڑی سے بڑی بات بھی بہت آرام سے اُن سے شیئر کر لیتا ہوں۔‘‘

الائبہ کا کہنا ہے کہ ’’میں چوں کہ خاندان کی پہلی لڑکی ہوں، تو مَیں دادا، دادی اور پاپا کی بے حد لاڈلی ہوں بلکہ مجھ سے تو پورا خاندان ہی بہت پیار کرتا ہے۔ پاپا نے آج تک میری کوئی ایک خواہش بھی رَد نہیں کی۔ جو کہوں، وہ لا کے دیتے ہیں۔ میری ہر فرمایش پوری ہوتی ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ پاپا نے مجھے کبھی ڈانٹا ہو۔ اور مَیں بھی پاپا سے دنیا میں سب سے زیادہ پیار کرتی ہوں۔ ہم پاپا کو ہمیشہ اُن کے برتھ ڈے، شادی کی سال گرہ اور فادرز ڈے پر بہت سر پرائز کرتے ہیں۔ ہر بار اُن پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے ہم اُن کا ایونٹ بھول گئے ہیں اور پھر جب ایک دَم اُن کو بہت اچھے سے گفٹس، کارڈز ملتے ہیں، شان دار پارٹی ہوتی ہے، تو پاپا جیسےخوشی سے کھِل اُٹھتے ہیں اور تب ہمیں بہت ہی اچھا لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے، پاپا کو اندازہ ہوتا ہے، مگر وہ ہماری خوشی کی خاطر ایسے حیران ہوتے ہیں، جیسے انہیں کچھ پتا ہی نہیں تھا اور پھر بہت مزا آتا ہے۔ ویسے ہم یہ سب پارٹیز، گیدرنگز آپس ہی میں اور گھر ہی میں کرتے ہیں۔ اصل میں ہمارے دادا جان کو ریسٹورنٹس وغیرہ میں جانا بالکل پسند نہیں، تو اگر ہمیں کبھی جانابھی ہو تو ہم اِن ایونٹس پر نہیں جاتے۔ دادا، دادی، چاچو وغیرہ سب گھر آجاتے ہیں اور پھر ہم بہت انجوائے کرتے ہیں۔‘‘

زائر کچھ شرمیلے سے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ ’’پاپا مجھے اتنے اچھے لگتے ہیں، اتنے اچھے لگتے ہیں کہ مَیں بتا ہی نہیں سکتا۔ جب پاپا کہیں شہر یا مُلک سے باہر چلے جاتے ہیں، تو مَیں اُنہیں بہت زیادہ مِس کرتا ہوں۔ اُن کے آنے کا انتظار کرتا ہوں۔ انہیں بہت یاد کرتا ہوں اور جب وہ آتے ہیں، تو پھر اُن سے کَس کے جپھی لگاتا ہوں اور ان کے ساتھ ہی سوتا ہوں۔ پاپا کا برتھ ڈے اور فادرز ڈے ہم بہت دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ مَیں اذان بھائی کے ساتھ مل کر سارے کام کرتا ہوں اور پھر ہم پاپا کو اُن کے فیوریٹ گفٹس دیتے ہیں، تو پاپا بھی ہم سب کو بہت پیار کرتے ہیں۔ گُھمانے لے جاتے ہیں، شاپنگ کرواتے ہیں اور ہم بہت انجوائے کرتے ہیں۔‘‘

پورے گھر میں چڑیا سی چہکتی، اِدھر سے اُدھر پھُدکتی، بھاگتی دوڑتی، ہنستی مُسکراتی رُباب زہرا گھر بھرکی آنکھ کا تارا ہے۔ اُس کی میٹھی جلترنگ سی ہنسی سے گھر کے درودیوار بھی چھنک چھنک جاتے ہیں۔ رُباب نے خوب اِتراتے، اٹھلاتے ہوئے کہا، ’’پاپا اس دنیا میں سب سے زیادہ پیار مجھ سے کرتے ہیں۔ مَیں اُن کی سب سے زیادہ لاڈلی ہوں، تب ہی رات کو پاپا کے ساتھ سوتی ہوں۔ پاپا مجھے بہت ساری چیزیں لاکے دیتے ہیں۔ کبھی ڈول ہاؤس، کبھی پارلر سیٹ، کبھی کچن سیٹ، کبھی ڈاکٹر سیٹ۔ اور جب ہم خود پاپا کے ساتھ شاپنگ کے لیے جاتے ہیں تو پاپا اپنا اے ٹی ایم ہمیں دے دیتے ہیں، اور کہتے ہیں، تم لوگوں نے جو بھی لینا ہے، لے لو۔ مجھ سے ماما بھی بہت پیار کرتی ہیں۔

اذان بھائی، الائبہ آپی اور زائر بھی پیار کرتے ہیں، دادا ، دادی بھی، مگر پاپا تو سب سے اچھے ہیں۔ جب پاپا کہیں باہر جاتے ہیں، تو مَیں اُنہیں یاد کرکے روتی ہوں۔ مجھے اُن کے بغیر کچھ اچھا نہیں لگتا۔ اور ہم سب کو سب سے زیادہ مزہ تب آتا ہے، جب ہم سب پاپا کو سرپرائز دیتے ہیں۔ انہیں وِش کرتے ہیں۔ مجھے اپنے پاپا سے بس یہی کہنا ہے کہ ’’ آئی لَو یو سو مچ پاپا۔ یو آر دی بیسٹ پاپا اِن دی ورلڈ‘‘۔

تازہ ترین