• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گردی سے دوچار اے این پی تاریخ کے بڑے اورصبر آزما امتحان سے گزر رہی ہے، یوں تو اس جماعت نے ابتلا کے ہر دور و ہر قسم کو دیکھا اور سہا ہے لیکن شاید موجودہ مصائب سب پر بھاری ہیں۔ فرنگی استعمار کیخلاف اس جماعت کی پیشرو خدائی خدمتگار تحریک نے باچا خان کی قیادت میں بیش بہا قربانیاں دیں، برصغیر پاک و ہند کی اکثر جیلوں کے درو بام ان کے کارکنوں سے آشنا ہوئے، قبرستان کے قبرستان آباد کئے، مال و متاع شمع آزادی پر نچھاور کر دیئے، پھر جب خدائی خدمتگار تحریک نیپ میں ڈھل گئی تو اگرچہ نام کی حد تک ملک آزاد تھا لیکن عملی سطح پر عوام کے جمہوری و انسانی حقوق پابہ جولاں تھے، نیپ عوامی حقوق کی بازیابی کیلئے صبر کے نیزوں پر برہنہ پا رقصاں رہی، پھر این ڈی پی اس راہ کی مسافر بنی، بات جب اے این پی تک پہنچی تو اگرچہ اقتدار کی غلام گردشوں میں بھی اس کے رہنما و کارکن نظر آنے لگے لیکن یہ یہاں بھی منصور بنا دیئے گئے !! بہت کچھ ملنے اور سابقہ حکومتوں کی نسبت عوام کو زیادہ دینے کے باوجود اپنے قائد تا کارکن اے این پی ہر دم موت و خوف کے حصار میں جکڑتی چلی گئی۔ خدائی خدمتگار تحریک، نیپ، این ڈی پی کی قربانیاں اگرچہ بہت ہیں لیکن مخالف معلوم تھا، اس کا اظہار بھی کیا گیا اور ان ادوار میں جبر کیلئے بھی، بہر صورت کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی اصول کا پھر بھی سہارا لے لیا جاتا لیکن معروضی صورتحال میں تو اے این پی پر مشقِ ستم کیلئے جیسے ستم کے تمام ”اصول“ بھی بالائے طاق رکھنا ناگزیر سمجھ لیا گیا ہو، اب جب ملک میں اے این پی کیلئے سیاست شجر ممنوعہ قرار دینے کی خاطر پہرے اس قدر سخت و شدید تر کر دیئے گئے ہوں کہ یہ اپنی ہی حکومت میں یرغمال بن کر رہ گئی ہو، تو پھر ماننا پڑے گا کہ اے این پی پاکستان کی مظلوم حکمراں سیاسی جماعت ہے، یہ وضاحت نوٹ فرما لیں کہ یہاں ہم اے این پی کے وابستگان کے صرف اس ”حق زندگی“ کی بات کر رہے ہیں جسے لینے کا اختیار صرف خالقِ کائنات کے ماسوا کسی اور کو نہیں دیا جا سکتا، جہاں تک اس جماعت کی سیاست اور طرز حکومت کی بات ہے تو بلاشبہ اس پر بے لاگ تبصرے کی گنجائش موجود ہے۔
گزشتہ روز اے این پی سندھ کے ترجمان عبدالمالک اچکزئی نے جب اسفند یارولی خان سے ملاقات کیلئے رابطہ کیا، تو اس تصور کے ساتھ شاہی سید کی رہائش گاہ مردان ہاؤس روانہ ہوا کہ شہداء کیلئے اظہار تعزیت اور خیر خیرت سے آگاہی کے علاوہ سیاست پر گفتگو سے احتراز ہی مناسب ہو گا، تاہم پھر بھی برسبیل تذکرہ کئی نکات زیر بحث آئے، جناب اسفند یار ولی خان کی گفتگو حسب معمول عزم و استقامت کا نمونہ تھی، جس سے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اے این پی کو سیاست سے دور رکھنے کی خواہاں قوتوں کو تاحال مایوسی کے ماسوا کچھ ہاتھ نہیں آسکا ہے، ایک خوشگوار حیرت یہ بھی ہوئی کہ اے این پی جو روایتی طور پر اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعت کے حوالے سے معروف ہے، اس کے قائد کئی باتوں میں اسٹیبلشمنٹ کے ہمنوا دکھائی دیئے، وجہ بھی اس کی انہوں نے خود بتائی اور کہا کہ فوج ہمارے ملک کا اہم ادارہ ہے ہم فوجی جوانوں کی قدر کرتے ہیں، ماضی میں ہم نے صرف ان جرنیلوں کی مخالفت کی جنہوں نے ملک پر آمریت مسلط کر کے عوام کے بنیادی آئینی و جمہوری حقوق غصب کئے، اب بھی کوئی طالع آزما ہم سے ہمدردی کی توقع نہ رکھے لیکن جرنیل اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اگر خدمات سر انجام دیتے ہیں تو پھر بلاجواز ان کی مخالفت کیونکر کی جا سکتی ہے!! انہوں نے ستائش کا پہلو نکالتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے حوالے سے جہاں اے این پی نے جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں وہاں فوج کے اہلکاروں و افسران کی قربانیاں بھی بیش بہا ہیں۔ انہوں نے پولیس کی کارکردگی کو مثالی اور قابل فخر قرار دیا، اسفند یار ولی خان نے اے این پی کے تحت ہونے والی قومی کانفرنس کے متعلق بتایا کہ ہم کسی پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنا نہیں چاہتے، ہم تمام جماعتوں کی رائے لینا چاہتے ہیں، ہمارا موقف بڑا واضح ہے ، ہم مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل چاہتے ہیں، سوات میں امریکہ کی شدید مخالفت و ناراضی کے باوجود ہم نے طالبان سے مذاکرات کئے ہیں، ہم نے زندگی بھر کسی سے ڈکٹیشن نہیں لی، ہم اپنے امور میں کسی غیر ملک یا ممالک کی مداخلت کو درست نہیں سمجھتے، ہم ڈرون حملوں کو پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں لیکن جو عرب، چیچن، ازبک و دیگر غیر ملکی وزیرستان میں بیٹھے ہیں وہ بھی پاکستان کی سرحدی حدود و قانون کو پامال کر رہے ہیں۔ ڈرون حملوں میں اگرچہ اکثر غیر ملکی مارے جاتے ہیں لیکن اس میں جو پاکستانی شہید ہوتے ہیں اس پر ہمیں دکھ ہوتا ہے لیکن دہشت گردوں کی جانب سے بم دھماکوں میں تو اس سے زیادہ اور تمام کے تمام بے گناہ پاکستانی عوام، پولیس اہلکار و افسران اور فوجی شہید ہوتے ہیں لہٰذا ڈرون حملوں کی طرح ان بم دھماکوں کیخلاف بھی جلوس نکالے اور دھرنے دیئے جانے چاہئیں۔
خان صاحب نے بتایا کہ وہ قومی کانفرنس میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو مدعو کر رہے ہیں تاکہ ہر جماعت اپنا موقف قوم کے سامنے پیش کرے اور دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے اپنی تجاویز دیں۔ ان کا موقف تھا کہ دہشت گردی کسی ایک جماعت کا مسئلہ نہیں ہے پورا ملک و عوام اس سے متاثر ہیں اگر ہم اس مسئلے سے پہلو تہی کریں گے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ایک سوال کے جواب میں اسفند یار ولی خان نے بتایا کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے دہشت گردی کے عالم اور سخت ترین حالات میں عوام کے مسائل کے حل اور صوبے کی ترقی کیلئے جو خدمات انجام دی ہیں، مخالفین بھی اس کے معترف ہیں۔ ہماری جماعت دہشت گردوں کے ٹارگٹ پر ہے لیکن ہمارے منتخب نمائندے، عہدیدار و کارکن سر ہتھیلی پر رکھ کر عوام کی خدمت کیلئے سرگرم ہیں اسلئے ہمیں امید ہے کہ عوام ہماری قربانیوں اور کارکردگی کو دیکھتے ہوئے پہلے سے بھی زیادہ ہم پر اعتماد کریں گے، گفتگو کے دوران اے این پی کے قائد نے جس طرح سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کے حوالے سے احترام کے جذبے کا اظہار کیا وہ ولی باغ کی وضع دار سیاست کا آئینہ دار تھا، اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے اور کسی مسئلے پر تمام جماعتوں کے یکجا ہونے سے یہ حسن اگر مزید نکھر جائے تو بھی کسی کے ہوش نہیں اُڑنے چاہئیں لیکن ملاقات و مکالمے کے بغیر فاصلے نہیں مٹتے اور پھر کسی بنیادی مسئلے پر سیاسی جماعتوں میں دوریاں مسئلے کو مزید سنگین بنا دیتی ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ ملک کو درپیش اہم مسائل کے حل کیلئے سیاسی و مذہبی جماعتیں باہم بیٹھ کر کوئی سبیل تلاش کر لیں۔
تازہ ترین