• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمنٹ ڈائری،حکومت اور اپوزیشن میں ہنگامہ آرائی سالانہ روایت

اسلام آباد(محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار)بجٹ کے حوالے سے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ہنگامہ آرائی اب سالانہ روایت کی شکل اختیار کر چکی ہے،حزب اختلاف کے ارکان کو بجٹ تقریر کی نقل تو درکنار بجٹ دستاویزات بھی فراہم نہیں کی گئیں، قومی اسمبلی میں منگل کی شام آئندہ سال کے بجٹ کی دستاویز پیش ہونے کے فوری بعد انہیں پارلیمانی ایوان بالا سینیٹ کو سونپ دیا گیا تا کہ وہ مقررہ مدت میں بجٹ تجاویز کا جائزہ لے کر اپنی سفارشات ایوان زیریں، قومی اسمبلی کو غور و خوض کے لئے ارسال کرسکیں۔ منگل کی شام قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو حکمران اتحاد اور ایوان میں موجود وزیراعظم عمران خان کے لئے منظرتادیر استعجاب اور خوشگوار حیرت کا باعث بنارہا کیونکہ خزانے کے وزیرمملکت حماد اظہر فراٹے بھرتے ہوئے بجٹ تجاویز پڑھتے چلے جا رہے تھے اور حزب اختلاف کے تین ارکان کے سوا پورا انکلوژر خالی تھا وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ حزب اختلاف نے ایوان میں آئے بغیر بجٹ تقریر کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ یہ گمان کم و بیش بیس منٹ تک قائم رہا۔ پیپلزپارٹی کے چند ارکان ٹہلنے کے انداز میں داخل ہوئے جس کے بعد حزب اختلاف کے ارکان جوق دَر جوق ایوان پہنچے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کی خواتین نے گتّے کے پلے کارڈ نکالے جنہیں مرد ارکان کے درمیان تقسیم کر دیا گیا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پیپلزپارٹی کے گروپ لیڈر بلاول بھٹو زرداری سے ان کی نشست پر جا کر کان میں کھسر پھسر کی اور ارکان نے سابق وزیر داخلہ اور ماہر معیشت احسن اقبال چوہدری کی قیادت میں اعتراضات اُٹھا دیئے کہ وزیر خزانہ ورق پر ورق پڑھے جا رہےہیں۔حزب اختلاف کے ارکان کو بجٹ تقریر کی نقل تو درکنار بجٹ دستاویزات بھی فراہم نہیں کی گئیں۔ خزانے کے وزیر مملکت حماد اظہر نے پارٹی فیصلے کے مطابق نگاہ اِدھر اُدھر اٹھائے بغیر تقریر آموختے کے انداز میں پڑھنا جاری رکھا تاہم خزانے کے لئے وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر شیخ عبدالحفیظ نے قومی اسمبلی کے اہلکاروں کو بھگا دوڑا کر بجٹ دستاویزات منگوائیں اور حزب اختلاف کے ارکان میں تقسیم کرا دیں۔ قائد حزب اختلاف شہبازشریف ایوان میں پہنچے تو انہوں نے اگلی صف میں بیٹھے ارکان کے عقب سے گزرتے ہوئے اپنی نشست سنبھالی وہ اس اَمر کو یقینی بنا رہے تھے کہ اپنی نشست پر پہلے سے موجود قائد ایوان وزیراعظم سے ان کی نگاہیں چار نہ ہو سکیں۔ اس طرح انہیں سر کی جنبش یا ہاتھ بڑھا کر ایک دوسرے سے خیرسگالی کے جذبات کا تبادلہ نہ کرنا پڑے یہ رسم عمران خان نے شروع کی تھی۔ اسی دوران ارکان نے ہلکے پھلکے نعرے لگائے اور خزانے کے وزیرمملکت کو آئی ایم ایف کے منشی کا لقب دیا پھر ان کے جس اعلان پر حکومتی ارکان ڈیسک بجاتے وہ اسے جھوٹ جھوٹ سے دھتکارتے، چند لمحوں میں حزب اختلاف کے ارکان غول کی صورت میں اگلی صفوں میں یکجا ہوگئے ہوٹنگ اور نعرے بازی سے شروع ہونے والا احتجاج بے قابو ہوتا چلا گیا۔ اسپیکر اسد قیصر اس منظر کے سامنے بے بس تھے۔ حزب اختلاف کے ارکان نے کورس کے انداز میں نعرے لگانے شروع کر دیئے ’’گو نیازی گو‘‘ سب سے زیادہ لگایا جانے والا نعرہ تھا گلی گلی میں شور ہے سارا ٹبّر چور ہے، مک گیا تیرا شو نیازی ہائے نیازی ہائے نیازی، گلی گلی میں شور ہے علیمہ باجی چور ہے۔ ابتداً عمران خان اور شاہ محمود قریشی باہم گفتگو کے ذریعے احتجاج کو نظرانداز کرنے کا تاثر دیتے رہے، وہ اسے تادیر برقرار نہ رکھ سکے خان نے کانوں میں ایئرفون لگا لئے اچانک حزب اختلاف کے ارکان اسپیکر کی نشست گاہ اور ارکان کی نشستوں کے درمیان گزرگاہ میں پہنچ گئے۔ تحریک انصاف کے ارکان نے بھاگم بھاگ اس گزرگاہ پر وزیراعظم کی نشست کے گرد حصار بنا لیا اور اس طرح یہ گزرگاہ بھی تقسیم ہوگئی۔ حزب اختلاف کے ارکان وزیرمملکت برائے خزانہ تک پہنچ کر ان کی تقریر میں رخنہ ڈالنا چاہتے تھے، حکومتی ارکان کا خیال تھا کہ وہ وزیراعظم پر لپکنا چاہتے ہیں اس طرح گزرگاہ پر سرحد بن گئی۔ حزب اختلاف کے ارکان دھکا دے کر حکومتی حصے میں داخل ہونے کی کوشش کرتے تو حکومتی ارکان انہیں زور لگا کر پسپا کر دیتے اسی کھینچا تانی میں بعض ارکان ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوگئے اور خطرہ پیدا ہوگیا کہ کہیں فریقین کے درمیان فری اسٹائل دنگل ہی نہ شروع ہو جائے، حکومتی چیف وہپ ملک محمد عامر ڈوگر نے یقینی تصادم کو کامیابی سے روک لیا۔ عمران خان کا پیمانہ صبر بھی لبریز ہوگیا ان کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی، اب وہ اشتعال کے عالم میں تھے انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اپنے ارکان کو آگے آنے اور جوابی یلغار کے اشارے دیئے لیکن بیشتر ارکان اپنی نشستوں سے نہیں اُٹھے اس طرح ڈیڑھ دو درجن حکومتی ارکان نے ہی آخر تک مورچہ سنبھالے رکھا۔ بجٹ کے حوالے سے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ہنگامہ آرائی اب سالانہ روایت کی شکل اختیار کر چکی ہے لیکن منگل کو آصف علی زرداری کے بعد حمزہ شہباز کی گرفتار نے ماحول کو حددرجہ کشیدہ بنا رکھا تھا، اسی پس منظر میں تصادم کی کیفیت حاوی رہی۔ نیب کی گرفتاریوں کا کریڈٹ حکومتی وزراء حکومت کو دیتے ہیں پھر یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ نیب کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان محاذ آرائی آئندہ دنوں میں بڑھے گی اور اندیشہ ہے کہ دونوں پارلیمانی ایوانوں پر اس کا غلبہ رہے گا۔ 
تازہ ترین