• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آصف ڈار کی رپورٹ کے مطابق برمنگھم کے عرفان نصیر اور خالد نے پولیس کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ وہ لندن میں سیون سیون سے بڑے حملے کرنا چاہتے تھے ۔رپورٹ پڑھتے ہوئے مجھے ایک دہشت گرد کی کہانی یاد آگئی ۔”اس نے کہا’ آدھی رات کے پیٹ میں ہم صحرا کے بیچ میں تھے۔وہاں کوئی روڈ نہیں تھا۔ہاں کئی سڑکیں تھیں انسانی قدموں کے نشانات کی سڑکیں“اس نے کہا ”ہم اقوام متحدہ کے انتظارمیں تھے ۔ابھی بھرے ہوئے پیٹ کی دنیاخالی پیٹ دنیا کیلئے خوراک کے تھیلے بھیجے گی ۔بھکاری نسلوں کے لئے من و سلویٰ کے تھیلے ۔۔ہم سب کی نظریں آسمان کی طرف تھیں- وہاں پہلا جہاز نمودار ہوا چہروں پر رونق آگئی مگرجہازنے خوراک کی بجائے آگ کے تھیلے گرائے یعنی بم ۔۔پیٹ بھری دنیانے اس مرتبہ شاید بموں کی خیرات نکالی تھی ۔“اس نے کہا ”ہر طرف لوگ مررہے تھے۔جیسے لوگ مرتے ہیں میں نے بہت مرتے ہوئے لوگ دیکھتے ہیں۔موت کے منظر کا نقشہ نہیں کھینچا جا سکتا اس منظر کو صرف دیکھنے سے محسوس کیا جا سکتا ہے بچ جانے والے سر پٹ بھاگ رہے تھے۔میں بھی بھاگنے والوں میں سے تھا بھاگتے بھاگتے ہم سوڈان سے ایتھیوپیا پہنچ گئے۔بھاگنے کے اس سفر میں لق دق صحرا میرا ہمسفر تھاموت کا صحرا ۔۔وہی مرتے ہوئے لوگ۔ سانپوں کے ڈسے ہوئے لوگ، بھوک اور پیاس سے مرتے ہوئے لوگ“اس نے کہا ”اب ہم مہاجر تھے ایک لامکان سے دوسرے لا مکان کی طرف سفر پرروانہ مہاجر۔۔۔مہاجر کی زندگی بھی کیا ہے انسان سے جانور بن جانے کا عمل ہے ۔پھرہمیں ایتھیوپیا سے واپس سوڈان بھیج دیا گیاہم پھرگاوٴں میں اقوام متحدہ کے آنے کا انتظار کرتے رہے۔ آسمان کی طرف دیکھتے رہے۔ پھرایک طیارہ آیا۔ لیکن اس نے بھی بم برسائے بہت سی گائیں بھیسیں اور آدمی ہلاک ہوئے آخر کار اقوام متحدہ والے آئے اور ہم میں سے کچھ لوگوں کو کینیالے گئے ۔ہم عرصہ تک اقوام متحدہ والوں کے پھرآنے کے انتظار میں زندہ رہے ۔۔۔پھر موت بہت قریب آگئی ۔ اور دہشت گرد بننے کا فیصلہ کر لیا ۔سوچا کہ مرنا تو ہے ہی کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ پیٹ بھری ہوئی دنیا کے دو چار لوگ بھی ساتھ لے جاؤ شاید ان کا کھانا میرے جیسے لوگوں کو زندہ رہنے میں مدد دے۔میں دہشت گردوں کے ساتھ مل کر اس دنیا میں پہنچ گیا جہاں بھرے ہوئے پیٹ والے رہتے ہیں میں جب پہلی بار اس دنیا میں داخل ہوا تو مجھے لگا جیسے میں کسی بادشاہ کے محل میں آگیا ہوں۔میں نے جہاں تک تاریخ کا مطالعہ کیا تھا مجھے تاریخ دہشت گردی کا ایک غیر منقطع تسلسل نظر آتی تھی جو جتنا بڑا دہشت گرد تھا تاریخ میں اس کا نام اتنے سنہرے حروف میں لکھا ہوا دکھائی دیا۔کیا قدیم زمانے کے بادشاہ دہشت گرد نہیں تھے لیکن دنیا کی بڑی بڑی قوموں نے کم دہشت گردی کی ہے اس وقت بھی شاید دنیا کی بڑی بڑی اقوام ہی سب سے بڑی دہشت گرد ہیں مگر جس عمل کو وہ دہشت گردی کہتی ہے اس پر غور کیا جائے تو اس کے حاشیہ میں ہر دورکے سفید اور سیاہ دِن تہہ در تہہ لپٹے ہوئے ہیں۔ تین سو پچاس قبل مسیح قدیم یونان کے مئورّخ زینوفون کی تحریروں میں بھی’ دشمن آبادی میں دہشت گردی ‘ نفسیاتی جنگ کے باب میں موجود ہے۔ تاریخ روم دہشت گردی کی کہانیوں سے اٹی ہوئی ہے مذہبی افواہوں سے متعلق ہسپانوی عدالتی کاروائیوں کو بھی تاریخ نے اسی شیلف میں رکھا ہوا ہے۔ 1793/94 میں فرانسیسی اِنقلاب کے دوران ہونے والی دہشت گردی کو کون بھول سکتا ہے جِسے" دہشت یا خوف کی سلطنت" کے نام سے یاد کیا جاتاہے ۔ 1861/65 کی امریکی سِول وار جس میں” کو کلکس کلین“ نامی دہشت گرد تنظیم قائم تھی ۔کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے 1865 سے 1905 تک مغربی یورپ ، روس اور یونائیٹِڈ سٹیٹس کے لا تعداد بادشاہ، صدر ، وزیرِ اعظم اورحکومت کے اعلیٰ افسران بھی دہشت گردوں کی بندوقوں اور بموں کا نشانہ بننے۔ برطانوی تحقیق کے مطابق دنیا کا پہلا خود کش حملہ آور ایک عیسائی نوجوان سیمسن تھاجس نے تقریباً چارسو لوگوں کی جان لی تھی۔ماضی قریب میںآ ئرلینڈ اور یونائیٹڈ کنگڈم، الجیریا اور فرانس، ویت نام اور یونائیٹڈ سٹیٹس کے درمیان آزادی کی جنگوں میں دہشت گردی پیش پیش تھی اور فلسطین اور اسرائیل کشمیر اور بھارت ،روس اور چیچنیا،امریکہ اور عراق ، افغانستان اور امریکہ اتحادیوں کے درمیان ہونے والی جنگوں میں اس دہشت گردی کا سلسلہ رواں دواں ہے ۔دہشت گردی کیا ہے۔ یہ سوال بہت پیچیدہ ہے ۔یونائیٹِڈ سٹیٹس میں کوڈ آف فیڈرل ریگولیشنزمیں دہشت گردی کی تعریف دراصل" سیاسی یا سماجی مقاصد کے فروغ کی خاطرحکومت ، عوام یا اس کے کسی بھی حصہ کو دھمکانے ، ڈرانے یا اس پر دباؤ اور جبر کیلئے لوگوں یا اثاثوں کے خلاف طاقت یا تشّدد کا غیر قانونی استعمال ہے"اس کے تحت تو بے شمار حکومتی سطح پر ہونے والے جرائم بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں۔کہیں یہ دہشت گردی زندگی گزارنے کے نظریات سے طلوع ہو رہی ہے کہیں دنیا میں اپنے اقتدار کووسعت دینے کیلئے شروع ہے کہیں ذرائع پیدوار پر قبضے کی خاطر ہورہی ہے ۔جیسے صدیوں سے ہوتی آئی ہے ۔کبھی لوگوں نے اپنے نظریات پھیلانے کیلئے قتل و غارت کی ، کبھی زمین پر قبضہ کرنے کیلئے جنگیں کیں اور کبھی ذرائع پیدوار کیلئے۔۔۔مگر اس سچائی کو سمجھنے کیلئے سوڈان میں پڑھ لکھ کر زندہ رہنا بہت ضروری ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ میں ایک کامیاب دہشت گرد ثابت نہیں ہوا میں نے ایک بلیون یعنی اڑنے والا غبارہ خریدا تھا اس میں بم وغیرہ بھی باندھ لیا تھا اس بلیون کو میں نے خاص مقام پر اتارنا تھا اور پھر خود کش دھماکے کی ایک نئی تاریخ لکھنی تھی مگر مجھے اس سے پہلے پیٹ بھرے ہوئے لوگوں نے گرفتار کر لیا ہے لیکن میں خوش ہوں کہ میں گوانتانا موبے یا ابو غریب جیل میں نہیں ہوں بلکہ ایک تہذیب یافتہ ملک کی جدید جیل میں ہوں اگرچہ یہاں مجھ پر بہت زیادہ تشدد کیا گیا ہے مگر یہ تشدد اس تشدد سے کہیں کم ہے جس کا نام مگرمچھ کے منہ میں زندہ رہنا ہے۔میں مرنے کیلئے دہشت گرد بنا تھا مگر اب میں زندہ رہنا چاہتا ہوں کیونکہ جیل میں کام کرنے والی ایک لڑکی کو مجھ سے محبت ہو گئی۔۔یہ زندہ رہنے کی کوئی چھوٹی وجہ نہیں ہے۔یہ تو ایک کہانی تھی مگر یہ بات طے ہے کہ انسانیت کو دہشت گردی سے نجات دلانے کیلئے ضروری ہے کہ دنیا میں وسائل کی مساوی تقسیم کی جائے ۔ہر شخص کو جینے کا حق دیا جائے۔ انصاف کی فراہمی برابر ہو۔ڈرون حملوں میں مرنے والے بے گناہوں اور گناہگاروں کی دہشت گرد نسلیں پیدا کرنے کا عمل ختم کیا جائے وگرنہ القاعدہ وجود میں آتی رہیں گی۔
تازہ ترین