• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کی حکومت کا پہلا وفاقی میزانیہ برائے مالی سال2019-20جو گزشتہ روز قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا، یقیناً نہایت نامساعد معاشی حالات میں تیار ہوا ہے، اس لئے اس میں سخت اقدامات کا شامل ہونا متوقع ہی نہیں بالکل یقینی تھا۔ اس کے باوجود حکومتی حلقوں کی جانب سے آخری لمحات تک ان دعوئوں کے جاری رہنے کے باعث کہ بجٹ عوام دوست ہوگا، امید کی جارہی تھی کہ اس میں عام آدمی کے شب و روز کو مزید تلخ ہونے سے بچانے کیلئے خصوصی اقدامات کیے گئے ہوں گے لیکن بجٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ خوش گمانیاں قطعی پیوند خاک ہو گئیں۔ بجٹ میں چینی، گھی، تیل، دودھ، گوشت، مشروبات، سیمنٹ، سی این جی، آلو، پیاز سمیت متعدد اشیائے خورونوش پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ پٹرول، بجلی اور گیس کے نرخ پہلے ہی ماہ بماہ بڑھ رہے ہیں۔ ان اقدامات کے مجموعی اثرات کے نتیجے میں مہنگائی کے بوجھ تلے سسکتی ملک کی بھاری اکثریت کیلئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا کس قدر محال ہوجائے گا، اس کا تصور بھی ہولناک ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ان تجاویز پر نظر ثانی کی جائے اور کم آمدنی والے طبقوں کو خصوصی مراعات دے کر مزید مہنگائی کے عذاب سے حتی الوسع محفوظ رکھنے کی تمام ممکنہ تدابیر اختیار کی جائیں۔ وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے اپنی بجٹ تقریر میں دعویٰ کیا کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ایک نئے سفر کا آغاز ہوا ہے اور تحریک انصاف نئی سوچ، نئی کمٹمنٹ اور ایک نیا پاکستان لائی ہے۔ اس معاشی حکمت عملی کا لازمی تقاضا ہے کہ کم از کم عوامی استعمال کی روزمرہ اشیاء کو مزید مہنگا کرنے سے قطعی گریز کیا جائے اور ٹیکسوں میں اضافے کو دولت مند طبقوں کے استعمال کے سازو سامان تک محدود رکھا جائے۔ بجٹ کا مجموعی تخمینہ 7000ارب روپے سے زائد ہے جبکہ ٹیکس وصولیوں کا تخمینہ 5550ارب روپے ہے۔ تاہم بیشتر ماہرین مالیات اور کاروباری شخصیات اتنے بڑے ہدف کے حصول کو ناممکن قرار دے رہے ہیں۔ اگر یہ ہدف حاصل نہ کیا جاسکا تو کس صورتحال کا سامنا کرنا ہوگا اور رونما ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے کون سے راستے حکومت کے پاس ہوں گے، ان تمام پہلوؤں پر ابھی سے غور و فکر ضروری ہے۔ نئے میزانیہ میں دفاعی بجٹ کا 1152ارب روپے کی پچھلے سال کی حد پر برقرار رہنا اور پاک فوج کا رضا کارانہ طور پر کسی اضافے سے دستبردار ہوجانا نہایت قابل قدر بات ہے اور موجودہ مشکل حالات میں دوسرے شعبوں اور اداروں کو بھی اس مثال کی تقلید کرتے ہوئے کفایت شعاری کی روش اختیار کرنا چاہئے۔ محصولات کیلئے جی ڈی پی کا تناسب 12.6فیصد تک بڑھانے کا عزم حوصلہ افزائی کا مستحق ہے لیکن اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے سخت جدوجہد کرنا ہوگی۔ ترقیاتی منصوبوں کیلئے تخمینہ 925ارب روپے کا ہے۔ اس رقم کا درست استعمال کیا جاسکا تو اس کے فوائد یقیناً قومی سطح پر مرتب ہوں گے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ شفافیت اور نگرانی کا نہایت مؤثر نظام یقینی بنایا جائے۔ خسارے کا تخمینہ 3151.2ارب روپے ہے جو یقیناً ایک بھاری رقم ہے تاہم معاشی اصلاحات کے نتیجے میں امید ہے کہ ملک چند برسوں میں بتدریج اس کیفیت نکل آئے گا۔ صوبائی سرپلس کیلئے 423ارب اور ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت صوبوں کیلئے 3ہزار 255ارب روپے رکھے گئے ہیں، وفاق اور صوبوں کو ہم آہنگی کے ماحول میں ان رقوم کو زیادہ سے زیادہ بہتر طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرنا چاہئے تاکہ قومی ترقی اور خوشحالی کے حوالے سے بہترین نتائج حاصل کیے جاسکیں۔ وفاقی بجٹ کے مطابق قرضوں پر محض سود کی ادائیگی کیلئے 2891.4ارب روپے کی خطیر رقم صرف کرنا ہوگی۔ قرضوں کا یہ بھاری بوجھ ہماری معیشت کی زبوں حالی کا بلاشبہ ایک بڑا سبب ہے اور اس سے نجات کیلئے ضروری ہے کہ وسیع تر مشاورت کے ذریعے ممکنہ حد تک تیز رفتار لائحہ عمل تشکیل دیا جائے تاکہ ہمارے قومی وسائل پوری طرح ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے استعمال ہو سکیں۔ بھاشا، مہمند اور داسو ڈیم کیلئے مجموعی طور پر 70ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ،جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17فیصد برقرار رکھی گئی ہے جس میں مزید اضافے کا یقیناً کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ یہ پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔ جی ایس ٹی کی شکل میں ملک کی پوری آبادی بچوں کے دودھ اور بسکٹ ٹافی سمیت تقریباً ہر چیز کی قیمت کا لگ بھگ پانچواں حصہ حکومت کو دے رہی ہے۔ تمام اشیائے ضرورت کی مہنگائی میں اس ٹیکس کا حصہ بہت نمایاں ہے لہٰذا معاشی حالات بہتر ہونے اور انکم ٹیکس کے دائرے میں توسیع کے ساتھ ساتھ جی ایس ٹی کی شرح میں ہر ممکن کمی کو معاشی حکمت عملی کا حصہ بنایا جانا چاہئے۔ انسانی ترقیاتی منصوبوں کے لئے 60ارب اور اعلیٰ تعلیم کیلئے 45ارب روپے مختص کیے جانے کی تجویز دی گئی ہے۔ اصولاً ان مقاصد کیلئے زیادہ رقوم رکھی جانا چاہئیں کیونکہ انسانی وسائل کی ترقی ہی زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ زراعت کیلئے مختص کیے گئے 1200ارب روپے، زراعت کے طریق کار کو ترقی یافتہ بنانے کیلئے بھی استعمال کیے جانے چاہئیں، فی ایکڑ پیداوار میں بیش از بیش اضافہ، کم پانی کے استعمال سے زیادہ رقبہ کاشت کرنا اور فصلوں کے معیار کو بہتر بنانا ہماری لازمی ضرورت ہے تاکہ ہماری زرعی پیداوار برآمدی آمدنی بھی زیادہ سے زیادہ بڑھانے کا ذریعہ بن سکے۔ قبائلی اضلاع، کراچی اور بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے بالترتیب 152ارب، 45.5ارب اور 10.4ارب کی رقم کا وفاقی بجٹ میں رکھا جانا اچھا فیصلہ ہے لیکن مقررہ مدت میں ان رقوم کا طے شدہ منصوبوں کیلئے درست طور پر استعمال یقینی بنانے کا بھی مکمل اہتمام ضروری ہے تاکہ ان کے نتائج پوری طرح متعلقہ آبادی تک پہنچ سکیں۔ گریڈ ایک سے سولہ تک کے سرکاری ملازمین اور پنشن یافتگان کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ اور کم از کم تنخواہ کا ساڑھے سترہ ہزار روپے مقرر کیا جانا اگرچہ روز افزوں مہنگائی کے پیش مقابلے میں بہت کم ہے تاہم ماضی میں اس کی پابندی کرانے میں بھی کبھی کامیابی نظر نہیں آئی ، اگر اس دور میں ایسا کیا جاسکے تو یہ یقیناً ایک کارنامہ ہوگا۔ جہاں تک ٹیکس نیٹ بڑھانے کی خاطر ریٹرن فائل کرنے اور اثاثے ثاہر کرنے کو سب کیلئے ضروری قرار دینے کے اقدامات ہیں تو ان کی ضرورت اور افادیت بالکل واضح ہے۔ اس ضمن میں کیے جانے والے اصلاحی اقدامات وقتی طور پر لوگوں کے لئے کچھ مشکل کا سبب بن سکتے ہیں لیکن طویل المیعاد بنیادوں پر ان کے نتائج قومی معیشت کے پائیدار استحکام کی شکل میں سامنے آئیں گے لہٰذا تاجروں، صنعتکاروں اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو اس معاملے میں حکومت سے مکمل تعاون کرنا چاہئے۔

تازہ ترین