وزیراعظم عمران خان نے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جو یہ تحقیقات کرے گا کہ پچھلے دس سال میں پاکستان کو کیسے لوٹا گیا اور ان لوگوں کی نشاندہی کرے گا جنہوں نے اس عرصے میں 24ہزار ارب روپے کے قرضوں کا بوجھ ڈال کر ملک کا دیوالیہ نکالا اور معیشت کو تباہ کیا۔ کمیشن میں جس کے وہ خود سربراہ ہوں گے، آئی بی، آئی ایس آئی، ایف آئی اے اور ایس ای سی پی کے نمائندے شامل ہوں گے۔ منگل کو رات گئے قوم سے خطاب کے دوران اُن کا کہنا تھا کہ میں معیشت کی تباہی پر سابق حکمرانوں سے جواب لوں گا اور کرپٹ عناصر کی نشاندہی کرکے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ قومی خزانے کے ناجائز استعمال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی بحران کی تحقیقات سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ یہ فیصلہ آنے والی حکومتوں کو بدعنوانیوں سے پاک اور صاف و شفاف طرز حکمرانی اختیار کرنے کا راستہ دکھائے گا لیکن ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی کے پسِ منظر میں بہتر ہوتا کہ وزیراعظم اپنی بجائے کسی حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج کو کمیشن کا سربراہ بناتے۔ عمران خان جن لوگوں کو بے نقاب کرنا چاہتے ہیں ان کا ذکر وہ سالہا سال کرتے آئے ہیں۔ ان میں سے بعض اس وقت احتساب کی زد میں ہیں۔ ان کے خلاف جو مقدمات چل رہے ہیں ان کا ذمہ دار وہ وزیراعظم ہی کو سمجھتے ہیں اور انہیں نیب کے ساتھ صحیح یا غلط فریق قرار دے رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں معاملہ ایک غیر جانبدار کمیشن پر چھوڑنا زیادہ مناسب ہوگا جس کی سفارشات پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں ملکی معیشت کی زبوں حالی، قومی دولت کی لوٹ مار، بیرونی قرضوں کے بوجھ اور دوسری مالی بے ضابطگیوں کا جو نقشہ کھینچا ہے حکمران پارٹی روز اوّل سے عوام کو ان سے آگاہ کر رہی ہے اور اس کے جواب میں اپوزیشن پارٹیاں بعض حکومتی شخصیات کو بھی ہدفِ تنقید بنا رہی ہیں۔ مجوزہ کمیشن کی تحقیقات میں اس پہلو پر بھی ضرور توجہ دینی چاہئے تاکہ محاسبے کی یہ کارروائی بے لاگ نظر آئے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998