• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اپنے آپ کو، بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کو بہت غیر محفوظ سمجھ رہا ہوں۔ ایک ریاست کے چاروں ستونوں پر جب لوگوں کا اعتماد نہ رہے تو یہ موسم بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا۔ چاروں ستون عوام کی نظر میں قابلِ اعتبار نہیں رہے ہیں۔ جمہور کے اس عدم اعتماد کا نتیجہ اس ریاست میں انقلاب ہوتا ہے یا انارکی۔ میری اس فکر کا سبب حالیہ گرفتاریاں نہیں بلکہ مجموعی صورتِ حال ہے۔

پاکستان میں مکمل عوامی انقلاب کے امکانات کبھی نہیں رہے۔ کیونکہ یہاں قومیتیں ہیں کوئی قوم نہیں۔70 کلفٹن میں 20دسمبر 1971سے پہلے، پھر 4جولائی 1977کے بعد عام طور پر انقلابِ فرانس کی بات ہوتی تھی۔ حیات محمد شیر پائو، ڈاکٹر مبشر حسن، محمود علی قصوری، جے اے رحیم، شیخ محمد رشید تبادلۂ خیال کرتے تھے کہ ہم انقلابِ فرانس کے کس مرحلے پر ہیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو انہیں سمجھاتے تھے کہ پاکستان کی ارضی صورتِ حال ایسے کسی انقلاب کا مرکز نہیں بن سکتی۔ فرانسیسی ایک قوم تھے۔ پاکستان ایک قوم نہیں ہیں۔ روئیداد خان کو 1990کے عشرے میں پاکستان انقلاب کے دہانے پر لگا۔ لیکن وہ انقلاب نہیں آیا۔ پھر عمران خان نے اسے تبدیلی کا نام دیا۔ وہ بھی نہیں آ سکی۔

ہم 1958ء سے یہ دیکھتے آرہے ہیں کہ جب بھی یہاں حالات مظلوموں اور ظالموں کے درمیان فیصلہ کن موڑ کی طرف جانے والے ہوتے ہیں تو یہاں Cosmetic Revolution (ظاہری انقلاب) برپا کر دیا جاتا ہے۔ مارشل لا لگتا رہا یا کسی مقبول شخصیت کو برسرِ اقتدار لایا گیا تاکہ عوام کا اصل انقلاب کی طرف مارچ رُک جائے۔

اس وقت پھر لاوا پک رہا ہے۔ پہلے صرف میڈیا سے یہ تاثر پھیلتا تھا۔ اب سوشل میڈیا نے تو حد کر دی ہے۔ کسی کو سیاستدانوں سے خدشات ہیں تو دوسروں کو عدلیہ سے۔ ایک طبقے کو انتظامیہ اور خاص طور پر فوج سے شکایات ہیں۔ پارلیمنٹ پر تو کبھی بھی اعتبار نہیں کیا گیا۔ حکومتی پارٹی اور اپوزیشن ایک دوسرے پر اتنے الزامات عائد کرتے رہتے ہیں کہ دونوں ہی اپنا اعتبار کھو رہے ہیں۔ عدلیہ پر بھی خلق خدا نے مکمل اعتماد کبھی نہیں کیا۔ جس کے خلاف فیصلہ آیا اس نے عدلیہ پر چمک، صوبائیت اور نجانے کیا کیا تہمتیں عائد کیں۔ اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مسئلے پر رائے عامہ پھر تقسیم ہے۔ عدلیہ کو طرح طرح کے طعنے دیے جارہے ہیں۔

حال ہی میں سینئر فوجی افسروں کو سخت ترین سزائیں دینے کے انکشافات سامنے آئے۔ اس سے یہ تاثر تو کم ہی قائم ہوا کہ فوج کا اپنا نظامِ احتساب ہے، وہاں کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے کیونکہ ایک طبقے نے شکوک و شبہات بڑے شد و مد سے پھیلائے۔ اس کے بعد فوجی افسروں کی طرف سے رضا کارانہ طور پر تنخواہوں میں اضافے سے روکا گیا۔ اس کے جواب میں بھی فوج کو جو والہانہ پذیرائی ملنا چاہئے تھی وہ نہیں ملی۔

بیورو کریسی کو ہمیشہ نوکر شاہی ہی کہا گیا۔ بعض اوقات تصدیق کے ساتھ اکثر اوقات بلا ثبوت بیورو کریسی کو ہی جمہوریت کی ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اب بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان تو انقلابی اصلاحات لانا چاہتے ہیں لیکن میاں نواز شریف اور آصف زرداری کی پروردہ افسر شاہی سب سے بڑی رُکاوٹ ہے۔

مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ‘ ایک موثر، مسلسل اور سوچی سمجھی تاثراتی مہم کے ذریعے ناقابل اعتماد باور کروائے جا رہے ہیں۔ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون، خود بھی یہ تاثر دیتا ہے۔ متاثرہ سیاستدان، جنرل، جسٹس بھی میڈیا پر جانبداری اور لفافہ جرنلزم کا آوازہ کس دیتے ہیں۔ جب تک پرنٹ کا دور تھا، ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور تنقید کے کچھ اصول تھے۔ الیکٹرونک میڈیا کے دور میں تو ایک گروپ دوسرے گروپ کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں اترتا ہے۔

تاریخ کے اوراق تو یہ گواہی دیتے ہیں کہ کسی خطّے میں ریاست کے ستونوں پر جب اعتماد کا خسارہ اس حد تک بڑھ جائے تو وہاں انقلاب کی صورت گری شروع ہو جاتی ہے۔ تو کیا یہ امید کی جائے کہ انقلاب پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے؟ مگر ہم جب واہگہ سے گوادر تک نظر دوڑاتے ہیں تو کوئی شہ سوار ایسا دکھائی نہیں دیتا جو اس انقلاب کی قیادت کر رہا ہو یا کر سکتا ہو۔ جو چاروں صوبوں میں یکساں مقبول ہو۔ جس کی فکر و دانش کو ملک کے ہر حصّے میں پذیرائی حاصل ہو۔ ایسا دور بہت ہی نازک اور خطرناک ہوتا ہے۔ پہلے جب سیاسی، سماجی اور اقتصادی بحران سر اٹھاتے تھے تو ایک متبادل مقبول شخصیت ضرور ایسی ہوتی تھی، عوام کی اکثریت اپنے آپ کو جس کے سپرد کر دیتی تھی۔

قومی اُفق پر ایسی کوئی شخصیت ابھر رہی ہے اور نہ علاقائی سطح پر۔ باریاں لینے والی دونوں پارٹیوں کے سربراہ۔ تین بار کے وزیراعظم، ایک سابق صدر مملکت، قومی خزانے میں لوٹ مار کے الزامات میں جیل میں ہیں۔ ایک باقاعدہ سزا یافتہ مجرم، دوسرے زیر سماعت مقدمات کے ملزم۔ اور بہت سوں پر ایسے ہی الزامات ہیں ایک سابق صدر اور جنرل پر آئین سے غداری کا مقدمہ ہے۔

ایسی صورتِ حال سے ہی ہماری دشمن بیرونی قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو ریاست کے چاروں ستونوں پر عدم اعتماد کی یہ فضا ان بیرونی قوتوں نے ہی بڑی محنت سے پید اکی ہے۔ ہم ایک دوسرے سے اتنے متنفر کر دئیے گئے ہیں کہ ہم یہ کھوجنا ہی نہیں چاہتے کہ ایسی مشکوک اور مخدوش صورتِ حال کی نوبت کیوں آئی ہے۔ چاروں ستونوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے اور خود پر اعتماد بحال کروانے کے لیے اقدامات کی ترتیب طے کرنا چاہئے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ سیاستدان بھی ہم میں سے ہیں۔ جج بھی ہمارے ہیں۔ افسر بھی۔ فوج بھی۔ میڈیا بھی۔ سب کو یہیں رہنا ہے۔ یہیں مرنا ہے۔ ایک دوسرے کی مجبوریاں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انارکی روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ادارے کو آئین کے طے شدہ امور کے تحت اپنا کام کرنے دیا جائے۔ اختیارات کی تقسیم ناگزیر ہے۔ قومیتوں کے خدشات دور کیے جائیں۔ اعتماد کی بحالی، بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے سے شروع کریں۔ جمہوریت کی بنیاد بھی یہی ہے۔ مقننہ اور انتظامیہ کی بھی۔ ظالموں کے مقابلے میں مظلوموں کی داد رسی کا پہلا زینہ بھی یہی ہے اور بغیر خون بہائے اصل عوامی انقلاب لانے کا راستہ بھی۔

تازہ ترین