• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آدھی صدی سے بھی زیادہ عرصہ ہوا ہم اسکول میں تعلیم حاصل کررہے تھے کبھی کبھی بڑے بھائی کے ساتھ بھوپال ٹاکیز میں فلم دیکھنے چلے جاتے تھے۔ جب کوئی نئی فلم آتی تو باقاعدہ اس کا ٹش بیگ پائپ بینڈکے ساتھ چار پہیوں پر احرام نما شکل کے ٹھیلے پر دونوں جانب فلم کا نام، اداکاروں کے نام اور تصاویر کے ساتھ یہ سڑکوں پر سے گزرتا تھا اس کے لیڈر کے ہاتھ میں ایک صفحہ کا اشتہار بھی ہوتا تھا وہ بھی وہ بانٹتا جاتا تھا۔ اس کااپنا چارم تھا دلکشی تھی۔ یاد نہیں فلم کا نام کیا تھاغالباً نمستہ تھا اور اس کو مدھوک نے لکھا تھا:
آئے بھی وہ گئے بھی وہ ختم فسانہ ہوگیا
میرے لئے تو موت کا یہ اِک بہانہ ہوگیا
یہ تو یاد ہے کہ یہ گیت مشہور موسیقار نوشاد نے کمپوز کیا تھا۔ اگر یادداشت ساتھ دے رہی ہے تو اس گیت کو پارول گھوش نے نہایت ہی سریلی آواز میں گایا تھا۔
یہ وہی نوشاد ہیں جنہوں نے بابل کے اس مشہور گیت کی کمپوزنگ کی تھی۔
ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ کسی کا
افسانہ میرا بن گیا افسانہ کسی کا
اس گیت کو طلعت محمود اور شمشاد نے گا کر دل لُوٹ لئے تھے۔پرانی بات ہے صحیح یاد نہیں غالباً یہ گیت مشہور شاعر شکیل بدایونی نے لکھا تھا۔
دیکھئے بات شمشاد اور نوشاد تک اس لئے پہنچ گئی کہ ’ آئے بھی وہ گئے بھی وہ‘ والی بات سے میری مراد اور اشارہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی ”سونامی“ آمد سے تھا۔ کینیڈا سے آنے سے بیشتر تمام ٹی وی چینلز ان کی آمد کی اشتہار سے بھرے پڑے تھے، اخبارات، شہروں میں تصاویر، پوسٹرغرض کروڑوں روپے کی کثیر رقم اس اشتہار بازی پر گزری۔ لوگوں کو حضرت عمر اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کی طرح نجات دہندوں کا تصوّر پیش کیا گیا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی شخصیت اور آمد کو حکمراں طبقہ، خاص طور پر پی پی پی نے بہت سراہا اور پنجاب میں ن لیگ کی حکومت کو اگلے الیکشن میں شکست دینے میں مددگار سمجھا۔ ان کو ہر طرح کی سہولت دی گئی، سرکاری اداروں کو ہدایات دی گئیں کہ ان کے جلسے اور کارکردگی میں کوئی رخنہ نہ ڈالا جائے۔ لاہور کے جلسے میں عوام کی بڑی تعداد (جس میں پنجاب میں منہاج القرآن کے تمام اسکولوں کا اسٹاف اور ان کے عزیز و اقارب شامل تھے)کی شرکت نے طاہر القادری کو کچھ زیادہ ہی خوش فہمی میں مبتلا کردیا کہ وہ اب بلامقابلہ ملک کے پسندیدہ ترین اور ہر دلعزیز رہنما ہیں۔ حکمرانوں کی توقع اور پلاننگ کے قطعی برعکس انہوں نے اپنی تقریر میں اور بعد میں پریس کانفرنسوں میں اچانک غیر قانونی اور غیردستوری مطالبات کا سلسلہ شروع کردیا۔ انسان اکثر چھوٹی موٹی ہر دلعزیزی سے اپنا دماغی توازن کھو بیٹھتا ہے اور خام خیالی کا شکار ہوجاتا ہے۔ان کے مطالبات میں الیکشن کمیشن کی فوراً تحلیل، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل، صدر، وزیر اعظم، وزیراعلیٰ، گورنروں اور وزیروں کی چھٹی وغیرہ شامل تھے۔ لاہور سے جلوس روانہ ہوا تو پنجاب حکومت نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور اس طوفان کا رُخ اسلام آباد کی جانب کردیا۔ مختلف اندازوں کے مطابق50 ہزار سے ایک لاکھ افراد کا مجمع تھا اور اس میں ہزاروں خواتین مع کمسن بچوں کے (جو غالباً ان کے اپنے اسکولوں سے وابستہ ہیں) موجود تھے۔ شیخ الاسلام خود تو ایک نہایت آرام دہ، تمام آرائشوں سے آراستہ کیبن میں اپنے عزیز ترین رشتہ داروں اور ساتھیوں کے ساتھ تھے مگر ان کے مرید باہر سڑکوں پر نہایت سرد موسم میں تکلیف کا شکار تھے۔ آپ اپنے قافلہ کو نہایت ہی غلط اور قابل مذمت طور پر حضرت امام حسین  اور ان کے قافلے سے مشابہت دے رہے تھے۔ حضرت امام حسین  تو کہیں دور آرام سے بیٹھے اپنے اَعِزّاکو تکلیف میں نہیں جھونک رہے تھے اور لذیز کھانوں سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ انہوں نے سب کے ساتھ تکلیف کا سامنا کیا اور جامِ شہادت نوش فرمایا تھا۔
جب اس قافلے نے بلیو ایریا اسلام آباد میں پڑاؤ ڈال دیا اور مطا لبات کی بوچھاڑ کر دی تو رحمن ملک اور کائرہ صاحب گھبرائے۔ادھر قادری صاحب نے پہلے ڈی چوک پر حملہ کی تیاری کی اور پھر پارلیمینٹ، ایوان وزیراعظم، ایوان صدر پر بھی قبضے کی دھمکی دے دی بلکہ ایک،ایک،دو،دو گھنٹوں کے الٹی میٹم دیئے جانے لگے۔ اگر یہ اس قسم کا جاہلانہ اقدام اٹھاتے تو بہت خون خرابہ ہوتا۔رحمن ملک نے صبروعقل وفہم کا مظاہرہ کر کے حالات کو قابو میں رکھا۔ قادری صاحب پہلے حکومتی وفد سے مذاکرات کا مطالبہ کرتے رہے پھر کہا کہ سوائے وزیراعظم کے کسی سے بات نہ ہوگی، پھر ان کو بھی خاک ِچپل سمجھااور کہا کہ صدر کو ان کے کیبن میںآ نا پڑے گا۔جب حالات بگڑنے لگے اور مظاہرین میں موجود عورتوں اور بچوں کی حالت زار ناقابل برداشت ہونے لگی تو ہمارے گرینڈ اولڈ وائز مین آف گجرات یعنی چوہدری شجاعت حسین نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ایک بڑا وفد مع فاروق نائیک، کائرہ ، خورشید شاہ ، بابر غوری ، فاروق ستار، مشاہد حسین، افراسیاب خٹک وغیرہ کو لے کر ”کیبن مسیحا“ پہنچ گئے۔ قادری صاحب کو جان چھڑانے اور فیس سیونگ کا اچھا موقع مل گیا۔ بہت شور و غل ، ہلچل، توقعات باندھی گئیں اور آہستہ آہستہ قادری صاحب کے پھُکنے کی ہوا نکلنا شروع ہوگئی۔ گھنٹہ بھر میں تمام معاملات طے پاگئے،نہ ہی الیکشن کمشن تحلیل ہوا، نہ ہی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں، نہ ہی حکومتیں ٹوٹیں اور نہ ہی فوراً غیرجانبدار حکومت کی تشکیل ہوئی۔ چوہدری صاحب اپنے وفد کے ساتھ گئے، قادری صاحب کے ساتھ ہر ایک نے فرداً فرداً جھپیاں ماریں جیسے برسوں پرانے یار دوست ہوں۔ کچھ دیر بعد چوہدری صاحب نے نہایت ہنر مندی سے جیب سے مٹھی بھر مٹی نکالی اور ”مٹی پاؤ“ کی پالیسی پر عمل کیا اور تمام اختلافات کو شان و شوکت سے دفنا دیا۔ ایک غیر قانونی ، غیر دستوری کاغذ کے ٹکڑے پر دستخط ہوگئے جو بقول زرداری صاحب نہ قرآن ہے نہ حدیث۔
ڈاکٹرطاہر القادری ایک مغل بادشاہ کی طرح تشریف لائے، ایک بڑا جلوس ساتھ تھا،ہاتھی پر سواری کے بجائے ایک فائیو اسٹار کیبن میں تشریف لائے، بلیوایریا کو پانی پت اور ترائین کے میدان ِ جنگ میں تبدیل کیا، شور و غل کیا اور پھر ایک بے قیمت کاغذ ہاتھ میں لے کر آرام دہ گاڑی میں واپس لاہور چلے گئے اور اپنی فوج کو بے یار و مددگار چھوڑ گئے۔ جب ان کی فوج یہاں سے پسپا ہوئی تو پیچھے غلاظت و تعفن کا سمندر چھوڑ گئی جس کی سفائی میں شہر کی انتظامیہ کوکئی دن لگ گئے۔ یہ پورا کھیل گویا ہمارے فقید المثال غالب# کے اس شعر کی عکاسی کرگیا۔
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے پہ وہ تماشا نہ ہوا
غرض یہ کہ اس تمام شعلہ بیان اور مہم میں ہمیں نہ ہی بابر اور نہ ہی امام حسین  جیسی شخصیات کا عکس نظر آیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی شعلہ بیانی اور مجمع کو دیکھ کر مجھے ہٹلر، مسولینی، جمال ناصر، قذافی، یاسر عرفات، صدام حسین وغیرہ کی تقاریر اور مجمعوں کی گرمجوشی یاد آگئی، جذباتی کھوکھلے نعروں سے ان لوگوں نے عوام کو بہکایا اور ان کو نہایت شدید، ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچا جس کے وہ ابھی تک شکار ہیں۔ اس قسم کی جذبات سے اور حقائق سے مبرا تقاریر سے بھولے بھالے عوام بہکاوے میں آجاتے ہیں اور نتائج کے بارے میں نہیں سوچتے۔
ان تمام واقعات کو دیکھ کر مجھے مولانا جلال الدین رومی  کی مثنوی کے یہ اشعار یاد آگئے ہیں۔ وہ اسلئے کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے اسلامی قدروں کا مذاق اُڑایا ہے
آں مُرائی در صلوٰة و در صیام
می نماید جدوجہد سے بس تمام
نا گہاں آید کہ اُوست ولاست
چوں حقیقت بنگری غرق ریاست
یعنی ریاکار نماز اور روزے میں بہت جدوجہد کا اظہار کرتا ہے تاکہ گمان ہوجائے کہ وہ (اللہ کی) دوستی میں مست ہے۔ جب تم اصلیت دیکھو گے تو اس میں اور ریاکاری میں فرق نظر آئے گا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ ، اس کے مقاصد اور اثرات و نتائج کے بارے میں ہمارے معزز اینکرپرسنز نے لاتعداد پروگرام کئے اور اس واقعے کو ہر زاویہ سے دیکھا اور اس پر تبصرہ کیا۔ کوئی بھی مثبت تبصرہ میں نے نہیں سنا مگر پھر یہ کہ میں تمام پروگرام تو نہ دیکھ سکا اور نہ دیکھ سکتا ہوں۔ مجھے صرف تعجب یہ کہ حکومت نے آخر وہ کون سی مصلحت دیکھی کہ ان کو اسلام آباد پر یلغار کرنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ سہولتیں بھی مہیا کیں۔ شہر کا نظام درہم برہم ہوگیا، دکانیں، اسکول، سرکاری دفاتر، اسپتال سب بند ہوگئے، غیر ملکی سفارت کاروں کی نیندیں اُڑ گئیں اور ان کو سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی نہیں بلکہ ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوگیا۔ آخر یہ ڈرامہ کیوں کھیلا گیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت امن و امان کی خطرناک حالت پیدا کرکے آنے والے الیکشن کو ملتوی کرانے میں دلچسپی لے رہی تھی اور یہ ہڈی ان کے گلے میں پھنس گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جس نے غیرملک کا حلف وفاداری اُٹھایا ہے اس کو ایسی خطرناک سیاسی گری کی کیوں اجازت دی گئی؟ حکومت قادری صاحب کے لاہور سے نکلنے پر پابندی لگا سکتی تھی ، ان پر اسلام آباد میں داخلے پر پابندی لگا سکتی تھی، ان کو پکڑ کر جہاز میں بٹھا کر ملک بدر کرسکتی تھی۔ دہری شہریت کے یہ حقوق نہیں ہیں کہ آپ یہاں افراتفری اور قانون کی خلاف ورزی کریں۔ دہری شہریت آپ کو صرف آسانی سے آنے جانے، رہنے اور جائیداد وغیرہ خریدنے کی اجازت تک محدودہے۔ یہ ایک تجربہ کیا گیا ہے اگر حکومت نے اس کے خلاف موثر قدم نہیں اُٹھایا توآئندہ جلد ہی غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنے والے غیرملکی امداد کے سہارے ہمارے نظام کو درہم برہم و تباہ کردیں گے۔ مالدار راشی حکمراں تو باہر بھاگ جائیں گے مگر غریب بیچارہ تباہ ہوجائے گا۔
تازہ ترین