• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی فلم اسٹار شاہ رخ خان کی بیوی ہندو ہے۔ شاہ رخ خان نے اپنے بیٹے اور بیٹی کے نام غیر مسلم رکھے تاکہ ان کی مسلم شناخت دونوں بچوں کے لئے وہ مسائل پیدا نہ کرے جن کا سامنا ان کے والد کو رہا ہے لیکن شاہ رخ خان کی کوئی احتیاط کام نہ آئی۔ بھارتی فلم انڈسٹری کا کنگ خان آخر کار پھٹ پڑا اور اس نے برملا کہہ دیا کہ سیکولر بھارت میں اس کی حب الوطنی مشکوک سمجھی جاتی ہے کیونکہ وہ مسلمان ہے اور کئی بھارتی سیاستدان اسے پاکستان جانے کا مشورہ دے چکے ہیں۔ شاہ رخ خان کے اس بیان پر کئی پاکستانی اخبارات نے سرخیاں جمائیں کہ شاہ رخ نے بھارتی سیکولرازم کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید نے بھی شاہ رخ کو یہ پیشکش کر دی کہ وہ پاکستان منتقل ہو جائیں۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ جب بھارت میں مسلمانوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا وہ بھارتی سیکولرازم کا پردہ چاک کرتے ہیں تو ہمیں پاکستان کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے لیکن بڑے ادب سے گزارش کروں گا کہ صرف بھارت کو نیچا دکھانے کے لئے ہمیں یہ بیان نہیں دینا چاہئے کہ شاہ رخ خان پاکستان آ جائیں۔ اس قسم کے بیانات سے شاہ رخ خان کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہو سکتا ہے۔ شاہ رخ خان کو بھارتی فلم انڈسٹری نے ”کنگ خان“ بنایا ہے اگر وہ پاکستان آ گئے تو یہاں کیا کریں گے؟ پاکستان کی فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہے لہٰذا شاہ رخ خان کو اپنا فلم کیریئر ختم کرنا پڑے گا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پاکستان کے ٹی وی ڈراموں میں اپنی قسمت آزمانے کی کوشش کریں لیکن اگر کسی نے مطالبہ کر دیا کہ شاہ رخ خان کی ہندو بیوی اسلام قبول کرے تو کیا حافظ سعید ایسی صورت میں شاہ رخ خان کے خاندان کو تحفظ فراہم کریں گے؟ ہمیں شاہ رخ خان کو پاکستان آنے کا مشورہ دیتے ہوئے یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اگر وہ پاکستان آ گیا تو پھر بھارت میں آباد کروڑوں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو گا؟ کیا بھارتی انتہا پسند ہندو تنظیمیں ان کروڑوں مسلمانوں کو بھی پاکستان کی طرف نہیں دھکیلیں گی؟ کیا ہم دس پندرہ کروڑ بھارتی مسلمانوں کو پاکستان میں بسا سکتے ہیں؟ ہم 1971ء میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والے چند لاکھ بہاریوں کو آج تک پاکستان نہیں لا سکے۔ یہ بہاری آج بھی ڈھاکہ میں جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں لیکن ہماری شان بے نیازی دیکھئے کہ ہم شاہ رخ خان کو پاکستان آ کر آباد ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔
جب کوئی بھارتی مسلمان اپنی تکلیف بیان کرتا ہے تو ہمیں ایسی بیان بازی نہیں کرنی چاہئے کہ اس کی تکلیف میں مزید اضافہ ہو اور بی جے پی یا آر ایس ایس اسے پاکستان کا ایجنٹ قرار دینے لگے۔ شائد ہم نہیں جانتے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی ذہانت اور بہادری سے ہمیں پاکستان تو بنا دیا اور ہم نے اس پاکستان کو کھلونا سمجھ کر توڑ بھی ڈالا لیکن بھارتی مسلمان آج تک پاکستان کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ بھارتی مسلمان اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لئے میڈیا پر پاکستان کو خوب برا بھلا کہتے ہیں لیکن بھارتی ہندو انتہا پسند انہیں ہمیشہ پاکستان کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ میرا یہ تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ بھارتی ہندو اور پاکستانی مسلمان امریکہ، یورپ یا مشرق وسطیٰ میں تو امن و شانتی سے مل جل کر رہتے ہیں لیکن اپنے ملکوں میں واپس جا کر امن کی آشا کو بھول جاتے ہیں۔ شاہ رخ خان کو تو صرف ڈرایا دھمکایا گیا اور طعنہ زنی کی گئی جس پر وہ بھارتی سیکولرازم کے خلاف پھٹ پڑے لیکن یاد کیجئے کہ سنجے دت کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ سنجے دت کی ماں نرگس مسلمان اور باپ سنیل دت ہندو تھا، اس کو مسلمان ماں کا بیٹا ہونے کی وجہ سے نفرت کا سامنا کرنا پڑا اور 1993ء میں ممبئی حملوں کے بعد سنجے دت کو گرفتار کر لیا گیا۔ سنجے دت پر الزام لگایا گا کہ ان کا داؤد ابراہیم سے رابطہ تھا اور داؤد ابراہیم نے ان کو ناجائز اسلحہ فراہم کیا۔ سنجے دت کو بار بار جیل جانا پڑا اور بڑی مشکل سے انہوں نے دہشت گردی کے الزام سے نجات پائی کچھ سال پہلے بھارتی پنجاب کے ایک ریٹائرڈ افسر بلجیت رائے نے ایک کتاب لکھی تھی Is India Going ISLAMIC (کیا بھارت مسلمان ہو جائے گا) اس کتاب میں بلجیت رائے نے بھارت کے پڑھے لکھے مسلمانوں کو ایک مافیا قرار دیا ہے۔ یہ کتاب شبانہ اعظمی سے لے کر شاہ رخ خان تک بھارت کے قابل ذکر مسلمانوں کے خلاف نفرت سے بھری پڑی ہے۔ کتاب میں کشمیر، آسام، مہاراشٹرا، کیرالہ اور دہلی کے مسلمانوں کو بھی مافیا کا حصہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ پڑھ لکھ کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ مصنف نے اردو زبان سے بھی سخت نفرت کا اظہار کیا ہے۔ ہمدرد یونیورسٹی دہلی اور جامعہ ملیہ دہلی یر تنقید کی ہے اور کہا گیا ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جبکہ ہندوؤں کی آبادی کم ہو رہی ہے۔ بلجیت رائے نے اس کتاب میں پاکستان کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کو بھی بھارت کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ قرار دیا ہے کیونکہ بلجیت رائے کے دعوے کے مطابق 2 کروڑ بنگالی مسلمان غیر قانونی طریقے سے آسام میں گھس چکے ہیں اور آسام کے 23 میں سے 10 اضلاع میں مسلمانوں کی اکثریت قائم ہو چکی ہے۔ آسام اور مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے جبکہ کشمیر میں ہندو داخل نہیں ہو سکتے اور اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو 2024ء تک بھارت میں مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں کے برابر ہو جائے گی اور پھر وہ دن بھی آ سکتا ہے کہ بھارت مسلمان ہو جائے گا۔ یہ وہ خوف ہے جس کی وجہ سے بھارت کی ہندو انتہا پسند تنظیمیں شاہ رخ خان جیسے مسلمانوں کو دھمکیاں دیتی ہیں۔
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے رویے اور پالیسی سے بھارتی مسلمانوں کے لئے مسائل میں اضافہ نہ کریں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور ہمیں کشمیریوں کے حقوق کے لئے آواز ضرور اٹھانی چاہئے لیکن شاہ رخ خان کو پاکستان بلانے سے پہلے یہ بھی سوچنا چاہئے کہ پاکستانی ہندو سندھ اور بلوچستان سے نقل مکانی کرکے بھارت کیوں جا رہے ہیں؟ پاکستان ہندو سیوا کے مطابق پچھلے پانچ سال سے ہر ماہ دس ہندو خاندان بھارت جا رہے ہیں کیونکہ وہ پاکستان میں خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ اندرون سندھ اور بلوچستان میں ہندو تاجروں، ڈاکٹروں اور وکیلوں کو اغواء برائے تاوان کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔ اب خیبر ایجنسی میں مقیم سکھ اقلیت بھی خوفزدہ ہے کیونکہ سکھ تاجروں کو اغواء کرکے قتل کیا جا رہا ہے۔ مت بھولئے کہ پاکستان میں موجود ہندو اور سکھ اقلیت بہت چھوٹی ہے۔ یہ سارے کے سارے بھارت چلے جائیں تو بھارت کو فرق نہیں پڑے گا لیکن بھارت میں موجود مسلمان اقلیت بہت بڑی ہے۔ اس مسلمان اقلیت کے مسائل پر بیان بازی سے پہلے ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ ذراء سوچئے! اگر حافظ سعید کے کہنے پر شاہ رخ خان پاکستان آ بھی جائے تو یہاں وہ کیا دیکھے گا؟ کراچی میں مسلمان دوسرے مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے، کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ برادری بم حملوں کا شکار ہے اور پشاور خودکش حملہ آوروں کی زد میں ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو ہندو انتہا پسندوں سے خطرہ ہے لیکن پاکستان میں تو مسلمانوں کو مسلمانوں سے خطرہ ہے۔ شاہ رخ خان تو یہاں سے دوسرے دن بھاگ جائے گا اس لئے اسے پاکستان بلانے سے پہلے پاکستان کو فرقہ پرستی اور انتہا پسندی سے پاک کیجئے۔
تازہ ترین