• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں آمدنی اور اخراجات میں توازن پیدا کرنے کے لئے وفاقی حکومت نے ٹیکسوں کے نفاذ سمیت جو مشکل معاشی اہداف مقرر کئے ہیں اور ان کے حصول کے لئے جو سخت اقدامات تجویز کئے ہیں۔ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے بدھ کو پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں ان پر عملدرآمد کے لئے کسی بھی حد تک جانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جو حکومت کے پختہ عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس مقصد کی خاطر کچھ بااثر لوگوں کو ناراض کرنا پڑا تو اس سے بھی دریغ نہیں کیا جائے گا۔ ان کا اشارہ یقیناً رائے عامہ کے بعض حلقوں، بزنس کمیونٹی کے کچھ طبقوں اور اپوزیشن کے مخالفانہ ردعمل کی جانب تھا جن کی رائے میں بجٹ اہداف غیر حقیقی تخمینوں پر مبنی ہیں جو حاصل نہ ہو سکے تو حکومت پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس اور دوسری ضروریات زندگی پر مزید ٹیکس لگا سکتی ہے۔ جس سے افراط زر میں مزید اضافہ ہو گا، مہنگائی مزید بڑھے گی اور ٹیکسوں کا بوجھ برداشت نہ کر سکنے والی صنعتیں اور کاروبار سکڑنے یا بند ہونے بے روزگاری کا مسئلہ مزید سنگین ہو جائے گا۔ پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر عمر ایوب، حماد اظہر اور چیئرمین ایف بی آر بھی موجود تھے جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں کے حوالے سے بجٹ اقدامات پر روشنی ڈالی اگرچہ حکومت کی معاشی مشکلات میں اس کے بعض اپنے غیر روایتی اقدامات کے علاوہ دوسروں کی پیدا کردہ مشکلات کا بھی عمل دخل ہے لیکن ایک بات بالکل واضح ہے کہ اس وقت ملک کی معاشی ابتری پر قابو پانے کے لئے حکومت نہایت سنجیدگی سے آگے بڑھ رہی ہے اور اس کے لئے ہر رکاوٹ عبور کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ اس حوالے سے مشیر خزانہ نے کھل کر اپنی ترجیحات میڈیا کے سامنے پیش کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں عزت سے کھڑے ہونے کے لئے سب کو بالخصوص امیروں کو ٹیکس دینا ہو گا، کسی کو بھی ٹیکس کی چھوٹ نہیں دی جائے گی، پاکستان میں آمدن پر ٹیکس کی شرح 11سے 12فیصد تک ہے جو دنیا میں سب سے کم ہے، ایک لاکھ روپے ماہوار کمانے والا ایک ہزار روپے ٹیکس بھی نہیں دیتا۔ پاکستانی بنکوں کے اکائونٹس ہولڈرز کی تعداد 5کروڑ سے تجاوز کر گئی مگر صرف دس لاکھ لوگ سالانہ ٹیکس گوشوارے داخل کرتے ہیں۔ مشیر خزانہ کے مطابق کوئی سیاسی رہنما اسے آئی ایم ایف یا ورلڈ بنک کا بجٹ کہتا ہے تو یہ اس کی اپنی سوچ ہے حقائق جلد سامنے آجائیں گے ان کا کہنا تھا کہ سیاست ضرور کریں مگر قومی معیشت اور محصولاتی نظام پر نہیں، معیشت پر سب کو متفق ہونا چاہئے۔ انہوں نے بجٹ میں دی جانے والی بہت سی مراعات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ہم نئے ٹیکس غریب سے نہیں امیر سے لیں گے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر 12سو ارب کا کپڑا بیچ کر 8ارب ٹیکس دیتا ہے، کسی کو کاروبار کرنا ہے تو وہ ٹیکس بھی دے ہم نے سول حکومت کے اخراجات کم کئے ہیں۔ وزیراعظم بنی گالا میں اپنے گھر میں رہتے ہیں جس کے بجلی اور گیس سمیت تمام اخراجات خود برداشت کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے جو قرض لئے ہیں یا آئندہ لے گی ان پر اس کا بھی احتساب ہوگا۔ برآمد کنندگان پر ٹیکسوں کی زیرو ریٹنگ برقرار ہے۔ برآمدی شعبے کو مراعات ملتی رہیں گی مگر اسے برآمدات بڑھانا ہوں گی۔ فنانس بل میں فائلر اور نان فائلر کی تفریق ختم کر دی گئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بجٹ سے مہنگائی میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا ملک اس وقت شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے جس کے پیش نظر آمدنی میں اضافے اور اخراجات میں کمی کے حوالے سے مشیر خزانہ کے اقدامات قابل قدر ہیں تاہم معاشی ماہرین نے بعض امور کی طرف توجہ دلائی ہے جن پر غور کرنا ضروری ہے۔ مثلاً نئے بجٹ میں تعلیم اور صحت کے لئے مختص کی جانے والی رقوم پچھلے سال کے مقابلے میں کم کر دی گئی ہیں جبکہ موسمیاتی تبدیلی پر بجٹ میں خطیر اضافہ کیا گیا ہے حالانکہ عملی طور پر اس مد پر رقم بہت کم استعمال ہوتی ہے۔ یہ رحجان بھی دیکھا گیا ہے کہ بجٹ میں رقوم تو بہت زیادہ مختص کر دی جاتی ہیں لیکن سال کے آخر میں ان میں کمی کر دی جاتی ہے۔ اس بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے۔

تازہ ترین