• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹی ٹیاں چیخ رہی ہیں جعلی اکائونٹس کوئلوں پر ماتم کر رہے ہیںدولت میں ہزاروں گنا اضافے ریکارڈ پر ہیںپھر بھی ان سب قائدین و معززین کا دعویٰ ہے کہ ان کے ہاتھ بھی صاف ہیں، دامن بھی صاف اور مجھ جیسے شکی مزاج یہ سوچ رہے ہیں کہ ہاتھوں اور دامنوں کے صاف ہوتے ہوئے ملکی خزانہ کیسے صاف ہو گیا؟بے پناہ قرضے، محیرالعقول خسارے اورسفید ہاتھیوں سے بھی بدتر تباہ حال ادارے۔یہ ہے ملکی معیشت کا مختصر ترین تعارف تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’نواززرداری ‘‘نے 24ہزار ارب قرض کا کیا کیا؟جن پر اربوں کی لوٹ مار کا الزام ہے وہ پروں پر پانی نہیں پڑنے دے رہے اور خود کو بغیر پروں والے فرشتے پوز کر رہے ہیں تو فیصلہ کیسے ہو؟معیشت کی لاش پڑی ہے تو ظاہر ہے اس کا کوئی قاتل بھی ضرور ہو گا تو یہ کون ہے ؟دھیان مقتدر لوگوں کی طرف نہ جائے تو کدھر جائے۔ بہت ہی مقبول اور معقول محاورہ ہے کہ ....’’سارے کتے کانشی گئے تو ہنڈیا کس نے چاٹی ‘‘؟جبکہ ہمارے کیس میں تو ہنڈیا صرف چاٹی نہیں گئی بلکہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے ۔کھانے و الے ایسے لکڑ ہضم پتھر ہضم تھے کہ ملکی معیشت کے بھانڈے کا پیندا ہی کھاگئے اور اب صورتحال یہ ہے کہ جن پر شک ہے وہ اپنی دیانت کی دہائی دے رہے ہیں، باکردار ہونے کی قسمیں کچھ اس طرح کھا اٹھا رہے ہیں کہ میں بھی کبھی کبھی ڈگمگا اور لڑکھڑا سا جاتا ہوں کہ کہیں یہ واقعی معصوم اور مظلوم نہ ہوں اور میں رب کے حضور تہمت کے جرم بلکہ گناہ میں نہ دھر لیا جائوں لیکن پھر جب دھیان ’’فیکٹ شیٹ‘‘ کی طرف جاتا ہے تو اندر سے آواز آتی ہے ’’ہو نہ ہو یہی وارداتیےہیں کہ ان کے سوا اور کوئی یہ کرنے کی پوزیشن میں ہی نہ تھا۔‘‘کبھی کبھی تو یہ خیال بھی آتا ہے کہ یہ جو قسمیں کھا رہے ہیں، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ لوگ کرپشن کو کرپشن سمجھ ہی نہیں رہے جیسے کسٹمز والے حرام کو ’’سپیڈمنی ‘‘ قرار دے کر حلال سمجھنے کے بعد خلوص دل سے یہ سمجھتے کہ وہ حرام سے محفوظ ہیں۔اور تو اور اس ملک میں وہ طبقہ بھی موجود ہے جو سمگلنگ کو تہہ دل سے ’’کاروبار‘‘ سمجھتا ہے یا وہ لوگ جو ’’شکل مومناں کرتوت کافراں‘‘ ذخیرہ اندوزی کو بھی تجارت سمجھتے ہیں۔مختصراً یہ کہ مجھ جیسے بیشمار لوگوں اور ان لوٹ مار کے الزام سہتے شرفا میں اک رسہ کشی سی جاری تھی۔دونوں پارٹیوں کو وزیراعظم عمران خان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ اس نے یہ کنفیوژن ختم کرنے کا تیربہدف نسخہ تجویز کر دیا کہ لٹیروں کی نشان دہی کیلئے SECP, FIA, FBR, ISIاور IBپر مشتمل انکوائری کمیشن یہ کارخیر انجام دےگا تاکہ صحیح معنوں میں دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہو سکے۔میں ذاتی طور پر بہت خوش اور خود کو بیحد ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہوں کہ اب یہ معاملہ تمام تر شکوک وشبہات سے بالاتر ہو جائے گا کیونکہ سچی بات یہ کہ میں خود کبھی کبھی بھمبل بھوسے میں پڑجاتا ہوں کہ اللہ معافی کہیں یہی سچے نہ ہوں ۔اب یہ سارا دھندلاپن ختم ہو جائے گا، ساری شکنیں رفع ہو جائیں گی۔بات شروع ہو رہی ہے گزشتہ 10سال اور اس دوران برسراقتدار لوگوں سے تو یہ کوئی حرف آخر نہیں، حرف آغاز سمجھیں، دوسرے مرحلہ میں اس دائرہ کو وسیع بھی کیا جا سکتا ہے ۔ کچھ نابغے دور کی یہ کوڑی بھی لا رہے ہیں کہ یہ سارے ادارے وزیراعظم کے ماتحت ہیں جبکہ یہ سراسر غلط ہے کیونکہISIجیسا معتبر اور موثر ترین ادارہ وزیراعظم کے ماتحت نہیں۔تازہ ترین یہ کہ وزیراعظم نے 24گھنٹے میں یہ ہائی پاورڈ کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کر دیا ہے جس کا سربراہ شعیب سڈل جیسا نیک نام، نامور اور انتہائی تجربہ کار پروفیشنل ہوگا۔اس تحقیقاتی کمیشن کو اعلیٰ ترین سطح پر وسیع اختیارات حاصل ہوں گے۔ کسی کرپٹ کو کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں ملے گی، یہ کمیشن ملکی قرضوں میں 24ہزار ارب روپے اضافہ کی تحقیقات کرے گا۔بونڈز کے اجرا،غیر ملکی دوروں، بیرون ملک علاج، ذاتی رہائش گاہوں اور ملوں کیلئے سڑکوں اور کیمپ آفسز کی بھی تحقیقات ہوں گی۔بہتر ہوتا کوئی ٹائم لائن یا کم از کم اس کا اندازہ ہی دے دیا جاتا ۔نواز شریف اینڈ کمپنی اور زرداری فیملی کو نہ صرف اس فیصلہ پر خوش ہونا چاہئے بلکہ تجاویز بھی دینی چاہئیں اور اگر ان کے کوئی خدشات، تحفظات وغیرہ ہوں تو ان سے بھی حکومت کو آگاہ کرنا چاہئے ۔اگر وہ واقعی سچے ہیں تو اس سے بہتر موقع ممکن نہیں کہ جو اپنی ساکھ نہ سنبھال سکے،اسے سیاست کرنے کا حق نہیں ہونا چاہئے۔سیاست دان تو کیا، عام آدمی کے پاس بھی ضمیر نہیں تو کیا زندگی ہے اس کیʼʼAND I KNOW OF THE FUTURE JUDGMENTHOW DREADFUL SO,ER IT BETHAT TO SIT ALONE WITH MY CONSCIENCEWOULD BE JUDGMENT ENOUGH FOR MEʼʼروسی محاورہ ہےʼʼYOU CANNOT DRIVE STRAIGHT ON A TWISTING LANEʼʼاور سبحان اللہʼʼCHARACTER IS NEVER ERECTED ON A NEGLECTED CONSCIENCEʼʼجو لوگ احتساب کو انتقام قرار دے رہے ہیں، ان کے اندر CONSCIENCEنامی شے کی رتی بھی موجود ہوئی تو وہ اس کمیشن کو خوش آمدید کہیں گے۔رہ گئی ساکھ یعنی REPUTATIONتو اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہʼʼREPUTATION IS THE PHOTO GRAPH, CHARACTER IS THE FACEʼʼنواز زرداری کیلئے یہ کمیشن کسی تحفے اور نادر ترین موقع سے کم نہیں، خود ہم جیسوں کیلئے بھی کنفیوژن کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ کالی اورسفید چھانٹ چھانٹ کر علیحدہ کر دی جائیں گی۔

تازہ ترین