• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکمران نیک اور صالح ہوں تو مواقع اور اسبابِ کار کی کمی نہیں ہوتی۔ ایک دربند ہوتا ہے تو کئی پھاٹک کھل جاتے ہیں۔ سوئس بینکوں میں پڑے 200ارب ڈالر واپس آنے کی اُمید ٹوٹی تو کراچی کے قریب زیر سمندر علاقے سے تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہونے کی خبر پھوٹی۔ برا ہو ان قنوطیت پسندوں کا جن کی یاس زدگی اس خوشی کو نگل گئی اور تیل سے دولت کی ریل پیل کے خواب چکنا چور ہوگئے۔ بعض باخبر حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ایران پر امریکہ کے متوقع حملے کے پیش نظر کیکڑا ون میں تیل کے ’’سب سے بڑ ے ‘‘ذخائر کی خبر دبالی گئی مگر دوسری طرف یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ عالمی سازش کے تحت ڈرلنگ کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں نے غلط بیانی کی ہے کیونکہ تیل نکلنا شروع ہو جاتا تو دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو سپر پاور بننے سے نہ روک سکتی۔ بہرحال وجہ جو بھی، تیل نکلنے کی خوشیاں چھن جانے سے چار سو مایوسیوں کے ڈیرے تھے۔ نوازشریف کے بعد آصف زرداری اور حمزہ شہباز کی گرفتاری کے نتیجے میں پلی بارگین سے بھی اربوں ڈالر جمع ہونے کی توقع اپنی جگہ مگر بھلا ہو ان ’نمک زادوں‘ کا جنہوں نے قوم کو اُمید کی نئی کرن دکھائی ہے۔ یوں تو گزشتہ ماہ سے ہی ’’نمک زادوں‘‘ نے مہم چلا رکھی تھی مگر جب وینا ملک اور زید زمان حامد جیسے نابغہ روزگار دانشوروں نے اس مہم کے حق میں ٹویٹس کیں تو مجھے یقین ہوگیا کہ ’’نمک زادوں‘‘کی باتیں بے بنیاد نہیں۔ سادہ اور مختصر مگر جامع بات یہ ہے کہ ہم اپنے ’’لون‘‘ میں نمک حلالی کی تاثیر پیدا کرلیں تو پوری دنیا پر حکمرانی کرسکتے ہیں کیونکہ ارض وطن نمک کی دولت سے مالا مال ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان کا گلابی نمک جسے ہمالین سالٹ کہا جاتا ہے، بہت بیش قیمت خزانہ ہے جس کی مارکیٹنگ کی جائے تو پاکستان کا شمار دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہو سکتا ہے۔ ’نمک زادوں‘ کی تحقیق کے مطابق پاکستان کا کل قرضہ 100ارب ڈالر ہے جبکہ بھارت صرف نمک کی فروخت سے سالانہ 129ارب ڈالر کمارہا ہے۔ دلچسپ مگر تشویشناک بات تو یہ ہے کہ بھارت جو نمک بیچ کر زرمبادلہ کما رہا ہے وہ اس کا اپنا نہیں بلکہ پاکستان کو چونا لگایا جا رہا ہے۔ بھارت واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان سے لاکھوں ٹن خام نمک درآمد کرتا ہے اور اسے اپنے برانڈ کے طور پر مغربی ممالک کو فروخت کرتا ہے۔ غضب خدا کا! بھارت یہ نمک پاکستان سے صرف 35پیسے فی کلو کے حساب سے خریدتا ہے جبکہ پیکنگ کے بعد یہی نمک یورپی ممالک میں 19یورو فی کلو کے حساب سے بیچا جاتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پاکستان کو کسی بائولے کتے نے کاٹا ہے جو وہ اپنے سونے کو یوں کوڑیوں کے مول بھارت کو بیچ رہا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ کسی ملک دشمن حکمران نے بھارت سے معاہدہ کر لیا تھا کہ پاکستان ہر صورت یہ خام نمک انہی نرخوں پر بھارت کو فروخت کرے گا۔ یہی وجہ ہے پاکستان اس قیمتی خزانے کو ارزاں نرخوں پر بیچنے پر مجبور ہے۔ اگرچہ ’’نمک زادوں‘‘ نے یہ بات واضح نہیں کی کہ کس بدبخت حکمران نے بھارت سے یہ معاہدہ کیا مگر مجھے پورا یقین ہے کہ یہ سب ’’مودی کے یار‘‘ کا کیا دھرا ہے۔

ممکن ہے کہ آپ سوشل میڈیا پر اداکارہ وینا ملک کے حالیہ سیاسی ملاکھڑے کے باعث ذاتی عناد رکھتے ہوں مگر وطن پرستی کے جذبے میں گندھی اس شدھ غیر سیاسی ٹویٹ سے کوئی شخص کیسے اختلاف کر سکتا ہے؟ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ قابل فخر بیٹی وینا ملک نے لکھا ہے کہ بھارت اس نمک کی فروخت سے اربوں کما رہا ہے جبکہ پاکستان صرف کروڑوں کما پاتا ہے۔ پاکستان گلابی نمک کو خام حالت میں بیچ رہا ہے جبکہ بھارت اسے برانڈ کے طور پر فروخت کرتا ہے۔ ویسے وینا جی! محض نمک ہی کیا ہم تو ہر شعبے میں بھارت کو ہنسی خوشی خام مال فراہم کر رہے ہیں اور وہ اس مالِ خام کو چمکتی دمکتی پیکنگ میں پیش کر کے دولت کما رہا ہے۔ مثال کے طور پر شوبز انڈسٹری کو ہی دیکھ لیں، کیا کیا خام مال فراہم نہیں کیا ہم نے۔ بہر حال پہلی فرصت میں گلابی نمک کا مسئلہ حل ہو جائے تو پھر باقی پاک بھارت تجارت کو بھی دیکھ لیں گے۔ اس مہم کو دیکھ کر یاد آیا کہ زمانہ طالبعلمی میں جب پاکستان کے محافظوں سے متعلق جاننے کا شوق ہوا کرتا تھا تو اخبارات میں بھارتی جاسوس پکڑے جانے کی خبریں ڈھونڈکر دلچسپی کیساتھ پڑھا کرتا۔ ایک بار بتایا گیا کہ بھارتی جاسوسوں کا نیٹ ورک پکڑا گیا ہے اور ان کی گرفتاری کا کریڈٹ نمک کو جاتا ہے۔ کہانی کچھ یوں تھی کہ ایک شخص کی مشکوک سرگرمیوں کی بنیاد پر نگرانی کی جا رہی تھی۔ ایک روز وہ کسی پان شاپ پر گیا اور کولڈ ڈرنک کی بوتل لینے کے بعد کہنے لگا بھائی! چار آنے کا نمک دینا۔ ان دنوں پاکستان میں چار آنے کا نمک کا پیکٹ ہوا کرتا تھا، دکاندار کو حیرت ہوئی کہ یہ شخص چٹکی بھر نمک کے لئے چار آنے کیوں دے رہا ہے؟ کچھ ہی دیر میں وہ سمجھدار دکاندار اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ یہ بھارتی شہری ہے کیونکہ پاکستان کے برعکس وہاں نمک بہت مہنگا اور نایاب ہے۔ اس دکاندار نے فوراً خفیہ اداروں کو اطلاع کردی اور یوں جاسوسی کا یہ نیٹ ورک پکڑا گیا۔ ہو سکتا ہے آج آپ کو یہ کہانی بہت بے وزن اور ناقابل یقین محسوس ہو مگر زمانہ طالبعلمی میں ہم اس حکایت پر بلا حیل و حجت ایمان لے آئے تھے۔

’’نمک زادوں‘‘ کی چلائی گئی اس مہم کے نتیجے میں تھوڑی بہت جستجو کی تو معلوم ہوا کہ پاکستان میں نمک کے 10بلین ٹن ذخائر موجود ہیں۔ صرف کھیوڑا کی کان میں 6.68بلین ٹن نمک کا ذخیرہ دستیاب ہے۔ نمک کی پیداوار کے حساب سے پاکستان عالمی سطح پر 20ویں نمبر پر ہے اور سالانہ 1.9ملین ٹن نمک نکالتا ہے جس سے سالانہ 50ملین ڈالر کی آمدن ہوتی ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں 110ممالک نمک پیدا کرتے ہیں مگر نمک کی 65فیصد پیداوار پر صرف 7ممالک کی اجارہ داری ہے۔ چین نمک کی پیداوار کے اعتبار سے سرفہرست ہونے کے باوجود 1.15ملین ٹن نمک درآمد کرتا ہے اور چین کو نمک برآمد کرنے والے ممالک میں پاکستان کے علاوہ بھارت بھی شامل ہے۔ اسی تحقیق و تفتیش کے دوران ایک حیرت انگیز بات یہ معلوم ہوئی کہ نمک برآمد کرکے زرمبادلہ کمانے والے ممالک میں نیدرلینڈ پہلے نمبر پر ہے جو سالانہ نمک کی فروخت سے 280ملین ڈالر کماتا ہے جبکہ بلجیم نمک کی برآمد سے سالانہ 85ملین ڈالر کما کر دوسرے نمبر پر ہے۔ ایک لمحے کو یہ سوچ کرمیرا ایمان متزلزل تو ہوا جب نیدرلینڈ پہلے نمبر پر ہونے کے باوجود محض 280ملین ڈالر ہی کما پاتا ہے تو بھارت 129ارب ڈالر کی دیہاڑی کیسے لگا لیتا ہے؟ لیکن پھر حب الوطنی کا جذبہ حقیقت پسندی پر غالب آگیا۔ جناب وزیراعظم! جہاں قرضوں کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنا رہے ہیں، وہاں کیوں نہ ’’نمک زادوں‘‘ کی سفارش پر بھی ایک کمیشن بنادیں جو نہ صرف بھارت سے معاہدہ کرنے والے بدبخت حکمران کو ڈھونڈ کر عوام کے سامنے پیش کرے بلکہ اس حوالے سے بھی اپنی سفارشات پیش کرے کہ نمک کے علاوہ کس قسم کے خام مال سے زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین