• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ کے شہر برسٹل کابس ڈرائیور عبدالغنی جاوید زندہ باد۔ وہ پاکستان کے شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ کے چک نمبر 252گ ب لسوڑی سے برطانیہ آیا تھا۔ اُس کا بیٹا ساجد جاوید برطانیہ کا وزیر داخلہ، اِس وقت برطانوی وزیراعظم بننے کی دوڑ میں سب سے آگے ہے۔ اگر یہ حیرت انگیز واقعہ رونما ہو گیا تو برطانیہ کی تاریخ بدل جائے گی۔ برطانیہ جہاں پاکستانی نژاد نوجوان نسلی اور مذہبی تعصب کا شکار ہیں وہاں ساجد جاوید کا اِس مقام تک پہنچنا کسی کمال سے کم نہیں۔ یہ سوال برطانوی انگریزوں کے لئے بڑا وحشت ناک ہے کہ ایک پاکستانی اگر برطانیہ کا وزیراعظم بن گیا تو کیا ہوگا۔ صادق خان جب لندن کا مئیر بنا تھا تو قدامت پسند انگریزوں کو بے حد تکلیف ہوئی تھی۔ برطانیہ کے پہلے پاکستانی لارڈ میئر محمد عجیب نے مجھے خود بتایا تھا کہ اُس کا لارڈ میئر بننا کئی انگریز وں کے لئے ناقابلِ برداشت تھا۔ ساجد جاوید کی کامیابی یقیناً باراک اوباما کے امریکی صدر بننے سے زیادہ حیران کن ہوگی۔

ساجد جاوید برطانوی وزیراعظم بنتے ہیں یا نہیں مگراس وقت تمام برطانوی نشریاتی ادارے اور اخبارات اُن کے حالات زندگی، اُن کا خاندانی پس منظر اُسی طرح لکھ رہے ہیں جیسے ساجد جاوید سچ مچ برطانیہ کا وزیراعظم بن گیا ہو۔ ایک اخبار نے لکھا۔ ’’ساجد جاوید جب اسکول میں زیر تعلیم تھے تو انہیں مسلسل یہی مشورہ دیا جاتا رہا کہ تمہیں یونیورسٹی جا کر کیا کرنا ہے؟ بہتر ہے ریڈیو مکینک ہی بن جاؤ‘‘ لیکن انہوں نے وہ سب کچھ کر کے دکھایا جس کی ان سے توقع نہیں کی جا رہی تھی۔

ساجد جاوید کے والد عبدالغنی جاوید 1961میں برطانیہ آئے تھے، راچڈیل میں سکونت اختیار کی تھی، روئی کی فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ پھر بس ڈرائیور کی ملازمت اختیار کر لی۔ چند سال کے بعد راچڈیل سے برسٹل آ گئے جہاں ان کے پانچ بیٹے پیدا ہوئے۔ دو کمروں کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے، یہ فلیٹ ایک ملبوسات کی دکان کے اوپر تھا۔ دو ہزار بارہ میں ان کا انتقال ہوا۔ ساجد کے بھائیوں میں سے باسط جاوید پولیس آفیسر ہیں۔ طارق جاوید ایک کامیاب کاروباری شخصیت تھے، سپر مارکیٹ کی ایک چین کے مالک تھے۔ ان کا گزشتہ سال انتقال ہو گیا۔ خالد جاوید ایک فنانشل ایڈوائزر ہیں اور عاطف جاوید پراپرٹی کا بزنس کرتے ہیں، ملٹی ملین پاؤنڈز کی جائیداد کے مالک ہیں۔

ایک اور اخبار نے ان کے متعلق لکھا جب ساجد جاوید نے اسکول میں ریڈیو یا ٹی وی مکینک بننے سے معذرت کی تو ان کے ٹیچرز نے کوشش کی کہ وہ اے لیول میں تین مضامین نہ رکھیں جو یونیورسٹی جانے کے لئےلازمی ہوتے ہیں، ان کا خیال تھا کہ وہ مضامین مشکل ہیں، ساجد جاوید انہیں سنبھال نہیں سکے گا۔ لیکن اساتذہ کے اندازوں کے بالکل برعکس ساجد جاوید امتحان میں کامیابی حاصل کر کے ایکزیٹر یونیورسٹی میں معاشیات اور سیاسیات کے مضامین میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی یونیورسٹی میں اُن کی ملاقات مارگریٹ تھیچر کے ساتھ کام کرنے والے ایک گروپ سے ہوئی، اس گروپ میں شامل کئی نوجوان ٹوری پارٹی میں اعلیٰ عہدوں تک پہنچے۔

ساجد جاوید نے زمانہ طالب علمی میں انشورنس کمپنی میں بھی ملاز مت اختیار کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انویسٹمنٹ بینکنگ کے شعبہ میں آ گئے۔ امریکی بینک چیز مین ہیٹن میں ملازمت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور صرف پچیس سال میں بینک کے وائس پریزیڈنٹ بن گئے۔ پھر ڈونچے بینک جوائن کرلیا۔ٹوری پارٹی میں انہیں آگے لانے کا تمام کریڈٹ سابق چانسلر جارج اوزبورن کو جاتا ہے مگر اُن کے جانے کے بعد بھی ساجد جاوید کےستارے عروج پر رہے۔ انہیں تھریسامے نےپہلے بزنس سیکرٹری بنایا اور پھر ہوم سیکرٹری۔ وہ پہلے پاکستانی نژاد برطانوی ہیں جو اس عہدے تک پہنچے۔ اگرچہ وزیراعظم کی دوڑ میں وہ اس وقت سب سے آگے ہیں مگر یہ اتنا بھی آسان نہیں۔ ابھی راستے میں کئی کہسار و دریا موجود ہیں دیکھتے ہیں کہ ساجد جاوید انہیں کیسے عبور کرتے ہیں۔

بہر حال یہ طے ہے کہ اگر وہ وزیراعظم بن گئے تو برطانیہ اور پاکستان میں تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ ساجد جاوید عمران خان کو بہت پسند کرتے ہیں اور انہیں پاکستانی عوام کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف کئی پاکستانیوں کے لئے اُن کا وزیراعظم بن جانا خطرناک ثابت بھی ہو سکتا ہے۔ بانی ایم کیو ایم کی گرفتاری کے سلسلے میں ان کے کئے ہوئے کچھ معاہدوں نے اہم کردار ادا کیا جن میں ملزمان کا تبادلہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ایک معاہدہ پاکستان کی لوٹی ہوئی رقم واپس دلانے کے لئے برطانیہ اور پاکستان میں ہوا ہے۔ جس کے شریف خاندان پر بہت برے اثرات مرتب ہونگے۔ اسی معاہدہ کے تحت اسحاق ڈار کو پاکستان لانے کا امکان بھی ہے۔ کہا تو یہی جارہا ہے کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے بانی ایم کیو ایم کو گرفتار نفرت انگیز تقریر کے جرم میں کیا تھا مگر سنا ہے کہ ان کے تمام جرائم پر ان سے تفتیش ہوئی ہے- کچھ لوگ یوں بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کیلئے بانی ایم کیو ایم کی حیثیت اب ختم ہو گی ہے، برطانیہ شاید پاکستانیوں میں اپنا امیج بہتر کرنا چاہ رہا ہے۔ اُن کیخلاف قتل کا مقدمہ بھی موجود ہے جس کے گواہ پاکستان کے پاس تھے اور برطانوی پولیس پاکستان آکر ان کے انٹرویو کر کے گئی تھی۔ منی لانڈرنگ کیس میں بھی نئی شہادتیں ملنے کی بات ہورہی ہے۔ خود بانی ایم کیو ایم نے بھی محسوس کرلیا ہے کہ اُن کے عروج کا ستارہ اب زوال پر آمادہ ہے، سو وہ اپنی جگہ اپنی بیٹی کو لانا چاہ رہا ہے، جس کی عمر اس وقت سترہ سال ہے جیسے ہی وہ اٹھارہ سال کی ہوگی انہیں بانی ایم کیو ایم کی جگہ دے دی جائے گی۔ اگر ساجد جاوید برطانیہ کے وزیراعظم منتخب ہو جاتے ہیں تو برطانیہ صرف بانی ایم کیو ایم کے لئے ہی نہیں زرداری اور شریف فیملی کے لئے بھی ایک اجنبی بستی بن جائے گا۔ جہاں ان دونوں فیملیز کے بہت زیادہ اثاثے ہیں۔

تازہ ترین