• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجٹ ،بڑی مشاورتی کمپنیاں کیا کہتی ہیں،بھاری ٹیکسوں کابجٹ،بڑی معیشت بنانےکی کوشش

کراچی (عامر اشرف ) پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے ٹیکسوں کی بھرمار اور اصلاحاتی بجٹ کو جنوبی ایشیا کی دوسری بڑی معیشت بننے کیلئے معاشی نظم وضبط کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔ آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کا بیل آ ؤٹ پیکیج لینے کیلئے آئندہ مالی سال کے دوران حکومت اخراجات میں کٹوتی اور جارحانہ ٹیکس ریوینیو اکھٹا کرنے پر مجبور ہے ۔ تجزیہ کار موجود ہ حکومت کے پیش کردہ بجٹ کو انتہائی قریب سے جانچ رہے ہیں ،جولائی میں ہونے والے انتخابات کے بعد سے گزشتہ 10ماہ کے دوران حکومت کی کارکردگی نے کاروباری اور فنانشل سیکٹرز میں خدشات پیدا کردیے ہیں ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت ایک کھرب 405ارب روپے کا اضافی ریونیو اکھٹا کرنے کیلئے بنیادی طور پر سیلز اور انکم ٹیکسز اور کسٹم ڈیوٹیز پر انحصار کررہی ہے ۔بالواسطہ ٹیکسز بشمول کسٹم ڈیوٹی سیلز ٹیکسز، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ، پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکسز ، گیس انفراسٹرکچر کی لاگت اور گیس سرچارج کے زریعے سےرواں مالی سال کے دوران تاحال ٹیکس ریونیو کی 5.8ارب روپے رقم میں سے 3.7کھرب روپے جمع کئے گئے ہیں ۔ رواں مالی سال کے دوران انکم ٹیکس اور ورکرز ویلفیئر فنڈ کے تحت براہ راست ٹیکس کو 2.1کھرب روپے تک بڑھایا جائے گا۔ اکاوئنٹنگ فرم فرگوسن کا کہنا ہے کہ براہ راست ٹیلسز اور بالواسطہ ٹیکسز کے تناسب میں تنزلی ہوئی ہے ۔ ان کے مطابق عام آدمی کی آمدنی میں عدم مساوات کوختم کرنے کی ضرورت ہے اور عام آدمی پر بالواسطہ ٹیکسز کے بوجھ کو کم کرنا چاہئے ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس دو چوائسز ہیں ایک تو یہ کہ جارحانہ ٹیکس اکھٹا کیا جائے یا اپنے اخراجات کم کئے جائیں ۔ جے ایس گلوبل نامی ادارے کا کہنا ہے کہ اگر چہ دفاعی اخراجات میں اضافہ نہیں دیکھا گیا تاہم یہ پہلے ہی تاریخی طور پر بلند ترین سطح پر ہے ۔ اگر چہ تنخواہوں میں کمی کے زریعے سے سویلین اخراجات میں کمی کی گئی ہے یہ سوالیہ نشان ہے کہ چند افراد کی تنخواہیں کم کرنے سے اس کے مجموعی طور پر کیا اثرات ہوسکتے ہیں ۔ شجر کیپیٹل نامی ادارے کا کہنا ہے کہ مذکورہ اقدامات کے باعث آئندہ مالی سال کے دوران مہنگائی کے دبائو میں اضافہ ہوگا جبکہ آمدنی کی شرح میں کمی ہوگی ۔حکومت کو توقع ہے کہ آئندہ مالی سال کے دوران ٹیکسوں میں اضافے اور انرجی سبسڈیز میں کمی کے باعث افرا ط زر کی شرح گیارہ سے تیرہ فیصد تک رہ سکتی ہے ۔ حکومت ریونیو کا ہدف حاصل کرنے کیلئے کئی اصلاحاتی اقدامات پر انحصار کررہی ہے ۔ حکومت رواں مالی سال کے ابتدائی 10ماہ کے دوران 4.4ارب روپے کے ہدف کا صرف 67فیصد ہی حاصل کرسکی ہے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق گزشتہ 9ماہ کی کم ترین 3.3فیصد شرح نمو، مالی خسارے اور مہنگائی میں اضافے کے باعث عارضی طور پر معاشی استحکام کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ ایک سال کے دوران حکومت کی جانب سے میکرواکنامک چیلنجز سے نمٹنے کیلئے سلسلہ وار ساختی اصلاحات بشمول مانیٹری پالیسی کو سخت کرنا ، اخراجات میں کمی اور ایکسچینج ریٹ کو ایڈجسٹ کرنے صورتحال مزید گھمبیر ہوگئی اور اس کے نتیجے میں ڈیمانڈ بڑھ گئی جبکہ اسے پورا کرنے کیلئے وسائل دستیاب نہیں ہوئے ۔ ان اقدامات کے باعث رواں مالی سال شرح نمو 3.3فیصد تک پہنچ گئی جبکہ اس کا ہدف 6.2فیصد رکھا گیا تھا ۔ فرگوسن کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال مستحکم اقدامات کی متقاضی ہے ۔ بی ڈی او ابراہیم اینڈ کمپنی کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام جلد شروع ہونے کا امکان ہے جس میں بچتی اقدامات کے تحت اخراجات میں کمی لائی جائے گی ، آئندہ مالی سال میں ابتدائی طور پر معاشی استحکام حاصل کرنے کی توقع ہے ۔ اسی طرح ملک میں پالیسی ریٹ میں اضافے کے باعث ملک میں سرمایہ کاری کو نقصان ہوگا ، ملک میں پہلے ہی جی ڈی پی میں سرمایہ کاری کی شرح 15.4فیصد ہےجو کہ اپنی کم ترین سطح پر ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت میں یہ شرح 30فیصد اور بنگلہ دیش میں 31فیصد ہے ۔ صرف ایک ہی سال کے دوران مرکزی بینک نے مئی 2019تک شرح سود کو بڑھا کر 12.25فیصد تک کردیا ہے جبکہ مئی 2018میں یہ شرح 6.5فیصد تھی ۔ پروفیشنل سروسز فرم ڈیلویٹ یوسف عادل نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ شرح سود میں اضافے کا مقصد سیونگز کو بڑھانا تھا تاہم سرمایہ کاری کے لئے قرضوں کے حصول پر اس کا منفی اثر مرتب ہوااور اس کے نتیجے میں سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا ۔ آئی جی آئی سیکورٹیز کا کہنا ہے کہ جب تک سرمایہ کاری کی شرح نہیں بڑھے گی ، جس کے باعث ڈیولپمنٹ بجٹ میں کمی کی گئی ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ آئندہ مالی سال کے دوران بھی جی ڈی پی کا ہدف بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا ۔ مالی سال 2019کے دوران ڈیولپمنٹ پروگرام کیلئے بجٹ کی جو رقم تقسیم کی گئی وہ بجٹ کا 73فیصد حصہ بنتی ہے ۔ انٹر مارکیٹ سیکورٹیز کا کہنا ہے کہ پی ایس ڈی پی کے ہدف میںاضافے سے آئندہ مالی سال کے دوران ترقیاتی سرگرمیاں متاثر ہوں گی ۔ مہنگائی ،شرح سوداور بجلی کی قیمتوں میںاضافے کی وجہ سے ڈیمانڈ کم ہوگی۔ المیزان انویسمنٹ نے بجٹ کو سیمنٹ، اسٹیل ، بینکس، ٹیکسٹائل، فوڈز، رئیل اسٹیٹ سیکٹر اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے لئے منفی قرار دیا ہے ۔ جبکہ فار ماسیوٹیکل ، ریفائنریز اور پیپر اور کارڈ بورڈ کیلئے اسے مثبت قرار دیا ہے ۔ انٹرمارکیٹ سیکورٹیز کے مطابق بجٹ کے فرٹیلائزرز، پاور ، ایکسپولیریشن اینڈ پروڈکشن ، ٹیکنالوجی ، سیمنٹ اور فارماسیوٹیکل سیکٹرز پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے جبکہ اس کے مطابق آٹو ، بینک ، آئل ، مارکیٹنگ کمپنیوں اور اسٹیل سیکٹرز پر بجٹ کے منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔یوں لگتا ہے کہ ملک کی 60فیصد برآمدات کرنے والے ٹیکسٹائل سیکٹر حکومت کی ترجیحی فہرست میں نیچے آگیا ہے ، کپاس پر 10فیصد ٹیکس اور عالمی مارکیٹ میں زیروریٹنگ سے نکالنے جانے کے بعد سیکٹر کو نقصان پہنچے گا ۔جے ایس گلوبل کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا ۔ڈیلویٹی یوسف عادل کا کہنا ہے کہ مینوفیکچرر سیکٹر کی بڑے پیمانے پر خراب کارکردگی کی وجہ سے بڑے اہداف حاصل کرنے کے لئے سمال اینڈ میڈیم انٹر پرائزز کی طرف سے براڈ بیسڈمیڈیم ٹرم گروتھ کے حصول میں دشواری ہوگی۔ ٹیکس ایڈوائزر ٹولہ ایسوسی ایٹس کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کے لئے اور اس کے لئے 5,555 ارب روپئے محصولات کے ہد ف کے لئے زیرو ریٹنگ ٹیکس کے پانچ ایکسپورٹ سیکٹر ختم کو دی گئی زیرو ریٹنگ سہولت ختم کی گئی ہے جس سے پا نچ سو ارب روپئے کی خطیر رقم منجمد ہوگی اور ایکسپورٹ سیکٹر میں نقد رقم کی کمی کی وجہ سے نقصانات ہونگے۔تعمیراتی سیکٹر میں توسیع، بیلنسنگ اور موڈرائزیشن کے لئے پلانٹس منگوانے پر 10فیصد ٹیکس کریڈٹ کے خاتمے سے تعمیراتی سیکٹر پر برا اثر پڑے گا، جے ایس گلوبل کا کہنا تھا کہ سیمینٹ اور اسٹیل سیکٹر ز پر جو کہ ملک میں اس توسیعی مراحل میں ہیںان پر اثر ات ہونگے جبکہ ریفائنریزبرائے ہایڈرو کریکر یونٹس کو فرنس آئیل پر منتقل کرنا ہوگا۔آئل ریفائنریز کو پلانٹس منگوانے کے لئے ٹیکس سے استثنیٰ دینا ہوگا تاکہ ان کو ہایڈرو ا سکمنگ ریفائنریز پر فوقیت مل سکے۔آٹو موٹیواسمبلرز کےلئے کم از کم ٹرن اور کی شرح 1.25سے 1.5تک بڑھانے کے منفی اثرات پڑیں گے۔انٹر مارکیٹ سیکیورٹیز کا کہنا تھا کہ کارپوریٹ سیکٹر پر کئے اقدامات کی وجہ سے آمدنی میں کمی ہوگی۔ایگری کلچر سیکٹر جو کہ جی ڈی پی کے 19فیصد کا تناسب پورا کرتا ہے وہ صرف صفر اعشاریہ آٹھ فیصد ہے جبکہ ہدف تین اعشاریہ آٹھ فیصد رکھا گیا ہے۔انٹر مارکیٹ سیکٹر کا کہنا تھا کہ کاٹن کی زراعت بڑھا نی پڑے گی تاکہ اس کی قیمتوں میں استحکام پیدا ہوسکے۔ڈیلیوٹی یوسف عادل کا کہنا تھا کہ سروسز سیکٹر کی شرح نے4.7فیصد ہو کر ریورس گیر لگا یا ہے اس کے گرنے کے خطرات میں اضافہ ہوا ہےجبکہ ہد ف 6.5فیصد ہےیہ شرح نمو کا نہائت اہم انجن ہےاس کی کارکردگی میں ریورس گیر لگنا خطر ناک ہے اس سے تمام امور پر برے اثرات پیدا ہونگے۔ملک کو بجائے غیرملکی امداد کے غیرملکی سرمائی کاری پر توجہ دینی ہوگی یہ فارین سیکٹر کے لئے انتہائی اہم ہے۔ فورین ڈاریکٹ انویسٹمنٹ تقریبا 2005سے2007تک کی جی ڈی پی میں 1.5فیصد تک رہی۔ جے ایس گلوبل کا کہنا تھا کہ کسٹم ڈیوٹی کی مد میں اور امپورٹ کم کرنے کے لئے غیر ضروری اشیاء کی امپورٹ پر انحصار ختم کرنے کے لئے کیش ۔اسٹریپڈ لیویڈ بڑھانی ہونگی اگر ایسا نہ کیا تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم کرنے یا کم کرنے کا ہدف شدید خطرے میں ہوگا۔ آئی جی آئی سیکیورٹیز کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال میں مالیاتی خسارے کی شرح پچھلے سال 4.9سے بڑھ کر 7.2تک ہوگئی ہے اس کا مطلب ہے کہ اخراجات میں کمی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اس کے لئے ترقیاتی بجٹ میں سنبھل کر استعمال کرنا ہوگا۔جے ایس گلوبل کا کہنا تھا کہ 29ٹریلین کے پبلک قرضے نے ایکسچینج ریٹ سمیت دیگر معاملات کو عیاں کیا ہے۔مقامی قرضوں میں بنکوںکے علاوہ دیگر ذرائع پر انحصار بھی اس کی عکاسی کرتا ہے۔ 

تازہ ترین