• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس کالم کا عنوان ہم نے ’’جیسا دیس، ویسا بھیس‘‘ تجویز کیا تھا ۔ برانہیں تھا ، تاہم چونکہ ’’بھیس‘‘ کا لفظ ہمارے ہاں ذرا غیر پارلیمانی سا شمار کیا جاتا ہے او ریہ لفظ سنتے ہی خواہ مخواہ ’’سادھ کے بھیس میں چور‘‘ ’’رہبر کے بھیس میں رہزن‘‘ ’’زاہد کے بھیس میں رند‘‘ اور ’’عالم کے بھیس میں جاہل‘‘ جیسے نامعقول سے خیالات ذہن میں کلبلانے لگتے ہیں ۔ لہذا ہم نے اسے تبدیل کرتے ہوئے اقسام لباس کردیا۔ اس دیس کے ’’بھیس ‘‘ یعنی لباس کی اقسام ملاحظہ فرمائیے ، کچھ آج ، کچھ پھر کبھی ۔
قومی لباس: شلوار قمیص اور شیروانی ہمارا قومی لباس ہے ۔ اگر سر پر جناح کیپ بھی سجی ہو تو سونے پہ سہاگہ ہے۔یہ لباس ہمارے قومی تشخص کے عین مطابق اور بڑا ہی باوقار پہناوہ ہے ۔ اس بھیس کی حقیقی ترویج مردِ مومن ضیاء الحق کے دور میں ہوئی ، جب خبرنامے میں جھوٹ بولنے کے لئے بھی شیروانی لازم تھی ۔ صدر مملکت خود بھی قومی لباس زیب تن فرماتے اور وزیر ،مشیر ، ممبران شوریٰ اور افسران بھی ۔ یقینا فرازؔ نے اسی دور میں کہا تھا :
یار خوش ہیں کہ انہیں جامہ احرام ملا
لوگ ہنستے ہیں کہ قامت سے زیادہ پہنا
انگریزی لباس: یہ قومی لباس کا متضاد اور راندہ درگاہ لباس ہے ۔ پینٹ شرٹ ،کوٹ، نکٹائی وغیرہ پر مشتمل یہ زنانہ ،مردانہ اور بچگانہ لباسوں کی صورت میں رائج ہے ۔ اسے مغرب زدہ اور ملکی نظریاتی تشخص سے نابلد لوگ پہنتے ہیں اور تشخص ہذا مجروح کرتے ہیں ۔
لباسِ فاخرہ: کئی لوگ اسے فاخرہ کالباس سمجھتے ہیں ، جو بالکل غلط ہے ۔ بجا کہ میڈم فاخرہ کے پاس بے شمار لباس ہیں اور وہ کہتی ہے کہ میں اتنے لباس نہیں بدلتی ، جتنے ’’یہ‘‘ موقف بدلتے ہیں (بعض اوقات میڈم ’’موقف‘‘ کی جگہ ’’پارٹیاں‘‘ بھی کہہ دیتی ہے ) مروجہ معنوں میں لباس فاخرہ پہننے سے مراد کوئی بڑا منصب سنبھالنا ہے اور فراز ؔ کو زحمت کلام دینا ہے کہ …یار خوش ہیں …اسے خلعت فاخرہ بھی کہتے ہیں۔
خلعت جواز:یہ بھی بڑا ہی پر وقار لباس ہے ۔ اسے تیار تو زیب تن کرنے والا خود کرتا ہے لیکن اسے پہناتا کوئی اور ہے ۔ جب آئین کے آرٹیکل 6کے کسی مجرم کے فعل کو عدل و انصاف کے اعلیٰ ترین درباروں سے جائز قرار دیاجاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ آئین توڑنے کے اس عمل کو خلعت جواز عطا کردی گئی ہے ۔ یہ خلعت عطا ہوتے ہی کئی درگاہو ں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔
لنڈے کا لباس: وقت کے تقاضوں اور بڑھتی فی کس آمدنی کی بنا پر یہ لباس روز بروز عوام میں مقبول ہوتا جا رہا ہے ۔ اس میں ماپ اور سائز وغیرہ کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتااور اکثر’’لنڈیوں منگائی دا، فِٹ کرائی دا ، تاں گل پائی دا‘‘ کا ترددبھی نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں یوں بھی ہوتا ہے کہ راہ چلتے صاحب لباس کا لباس خود کہہ رہا ہوتا ہے ’’ میں لباس ہوں کسی اور کا ، مجھے پہنتا کوئی اور ہے‘‘ ۔
فلمی لباس: اس لباس کے بارے میں ڈاکٹر یونس بٹ کہتے ہیں کہ ہیروئن کو دیکھ کر سمجھ نہیں آتی کہ وہ ان کپڑوں میں گھُسی کیسے ؟ اس کی مزید وضاحت میڈم نور جہاںنے ایک فلمی نغمے میں کی ہے کہ ’’میری پھُلاں والی کُرتی …ہوئی وکھیاں توں تنگ وے ‘‘البتہ طول و عرض کے حوالے سے پنجابی فلموںکے ہیرو کا لباس اس کا متضاد ہوتا ہے ۔اگر کوئی آدمی یہ لباس پہن کر شہر میں نکل جائے تو پاگل خانے والے پکڑ کر لے جائیں ۔
یونیفارم: یہ لباس جتنا خوبصورت ہے اتنا ہی طاقتور اور خطرناک بھی ہے ۔ یہ نیلا، پیلا، سفید، سرخ، خاکی غرض ہر رنگ میں اپنا جلوہ دکھاتا ہے ۔ قد بت فٹ ہو تو بہت جچتا ہے ،البتہ اگر یونیفارم اپنے جسم سے پھیل کر ملک کو اپنے سایہ میں لے لے تو سب کچھ تہہ و بالا ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ کوئی بھی ملک یونیفارم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس کی طاقت کا صحیح پیمانہ تو ریاستی رِٹ چیلنج کرنے والے ہی بتا سکتے ہیں ،البتہ اس کی ایک اور ’’خطرناکی‘‘ وہ بھی ہے ، جیسے گھبرائی ہوئی نرس نے ڈاکٹر کے پاس آ کر کہا ’’سر! میں تین نمبر مریض کی نبض چار مرتبہ چیک کر چکی ہوں ، ہر دفعہ اس کی نبض پہلے سے زیادہ تیز ہوتی جا رہی ہے ‘‘ ڈاکٹر نے کہا کہ ایک دفعہ پھر چیک کرو لیکن اس مرتبہ بلائوز کے بٹن بند کرنا مت بھولنا۔
صوفیانہ لباس: یہ بہت ہی سادہ لباس ہے ، جس میں دنیاداری کی کوئی رمق نہیں ہوتی ۔ تاہم ضروری نہیں کہ صوفیانہ لباس کے اندرکوئی صوفی بھی ہو۔ مروجہ اصول یہ ہے کہ لباس مکمل صوفیانہ ہونا چاہئے ، باقی کے کام خود بخود سنور جاتے ہیں (مراد دنیا کے کاموں سے ہے ، آخرت کی خدا جانے ) ۔
جبہ و دستار: یہ لباس با برکت ،پاکیزہ اور با رعب ضرور ہے مگر اب اسے سادہ نہیں کہا جا سکتا۔ قوم کی صحیح سمت میں رہنمائی عموماً یہی لباس پہن کر کی جاتی ہے ۔ ہمارے ایسے کج فہم اس لباس کی برکتوں سے نا آشنا ہیں ۔ پچھلے دنوں شیخ رشید نے قومی اسمبلی میں مہنگائی کے حوالے سے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہہ دیا کہ ’’ اپنی شلوار نیفے سے اوپر کرنے والے بھی سن لیں ‘‘ حالانکہ انہیں ’’ٹخنوں سے اوپر‘‘ کہنا چاہئے تھا۔ لباس کی اس قسم سے ہٹ کر بات کی جائے تو ہمارے ہاں ایسے ایسے مافوق الفطرت لباس بھی رائج ہیں کہ اگر بندہ پہن کر کسی مہذب ملک کے ایئر پورٹ پر اترے تو دیکھ کر مسافروں کے ہاتھ سے سامان چھوٹ جائے ۔
غریبانہ لباس: یہ دو معروف معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ایک وہ جو لباس کے نام پر تہمت ہے ۔یہ یور پ کا اخلاق باختہ لباس ہے جو یہاں کی محدودسی اقلیت ان کی نقالی میں پہنتی ہے ۔ اس کے بارے میں مثل مشہور ہے کہ وہ غربت کی وجہ سے زیادہ کپڑا افورڈ نہیں کر سکتے ،لہذا برائے نام کپڑے سے برائے نام سا تن ڈھانپنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ چھپاتا کچھ نہیں اور صاحب لباس کا ظاہر و باطن عیاں کر تاہے ۔ غریبانہ لباس کی دوسری اور مقبول ترین قسم بھوکے ننگے ملکوں میں رائج ہے ۔ اس لباس کی جامع وضاحت شیخ سعدی نے ایک حکایت میں کی ہے کہ بادشاہ نے خوش ہوکر ہزار دینار کی تھیلی فقیر کی طرف لہراتے ہوئے کہا ’’دامن بداری درویش ‘‘ (اپنا دامن پھیلا درویش) اس نے جواب میں کہا ’’ دامن از کجا آرم کہ جامہ ندارم‘‘ (دامن کہاں سے لائوں کہ میرے تن پر تو لباس ہی نہیں) اس لباس کے حامل افراد کے پاس چونکہ رہنے سہنے اور پہننے کے علاوہ دینار وغیرہ رکھنے کے لئے بھی جگہ نہیں ہوتی ،لہذا اشرافیہ ان پر ترس کھاتے ہوئے ان کے حصے کے یہ دینار خود رکھ لیتی ہے ۔
تازہ ترین