• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تھیوری اور پریکٹس کا تفاوت تو ہمیشہ سے ہے اور آنے والے سالوں میں بھی ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا لیکن پر عزم انسانوں کی جدوجہد یہ ہونی چاہئے کہ اس خلیج کو پاٹنے یا کم سے کم کرنے کے لئے جو کچھ ہو سکتا ہے کریں، مثال کے طور پر ہماری سو سائٹی میں انسانی مساوات کا تصور بلاشبہ موجود ہے لیکن با لفعل اس کی کیا صورتحال ہے؟ اس سے شاید کوئی بھی با شعور انسان بے خبر نہیں ہوگا۔ کہنے کو مساوات مردوزن کی تڑپ بھی ہماری سو سائٹی میں بہت ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ہم بضد ہیں کہ ’’عورتوں کو جو حقوق ہم نے دے رکھے ہیں دنیا کے کسی مذہب یا کسی تہذیب نے بھی خواتین کو ایسے حقوق نہیں دئیے، مغر ب نے حقوق کے نام پر عورتوں کا صرف استحصال کیا ہے، اس بیچاری پر دہری تہری ذمہ داریاں لاد دی ہیں جبکہ ہم نے عورت کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کی حیثیت سے وہ مقام دیا ہے زمانہ جس کی نظیر ڈھونڈ نے سے قاصر ہے ۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہمارے اخبارات میں ، ہمارے ٹی وی چینلز میں، ہماری مساجد میں، ہمارے گھروں میں اور ہماری سوسائٹی کی عام محفلوں میں پیہم دہرائی جاتی ہیں، باتوں کی حد تک ہم سب اپنے منہ میاں مٹھو بنے بیٹھے ہیں کیونکہ دوسری جانب بالفعل جو صورتحال ہے اسے ملاحظہ کرتے ہوئے دنیاکی مہذب اقوام ہماری منافقت پر رنجیدہ و پریشان ہیں۔ عالمی اداروں کی رپورٹس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کوئی دن ایسے نہیں گزرتا جب ہمارے یہاں حواکی کوئی نہ کوئی بیٹی غیرت کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے قتل نہیں کی جاتی۔۔ معصوم بچوں اور بچیوں کو ریپ کرنے کے بعد ثبوت مٹانے کے لئے گلا دبا کر مار ڈالا جاتا ہے، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس 55 پاکستانی خواتین پر تیزاب پھینکا گیا اورصرف 17ملزموں کو گرفتار کیا جا سکا، 423خواتین کو ریپ اور 304کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ مارپیٹ کے واقعات جمع کیے جائیں تو ظلم کہاں تک جاتا ہے ہماری سوسائٹی میں عورتوں کے خلاف بہت سے جرائم بوجوہ رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔
وطن عزیز میں خواتین کے خلاف کرائمز کی ہوشر با تفصیلات ملا خطہ کرنے کے بعدکوئی بھی منصف مزاج انسان یہ کہنے پر مجبور ہو گا کہ ہماری سوسائٹی میں عورت کل بھی مظلوم و مجبور تھی اور آج بھی مظلوم و مجبور ہے۔ اس کے بعد ہمارے اس دعوے میں کہاں صداقت رہ جاتی ہے کہ ہم نے اپنی مسلم سو سائٹی میں عورتوں کو جو حقوق دے رکھے ہیں دنیا کے کسی سماج یا تہذیب نے وہ حقوق نہیں دئیے۔ ہمیں جو اصل تکلیف پہنچی ہے وہ بحیثیت چیئرمین ثالثی یا مصالحتی کونسل عورتوں کی بے بسی اور حالت زار دیکھ کر محسوس ہوئی ہے خدا کسی کو عدالتی چکروں میں نہ ڈالے اور سچ تو یہ ہے کہ عورتیں بیچاری رل جاتی ہیں۔ بدنصیبی یا بدقسمتی سے یا گھر والے قوام مردوں کے غلط فیصلوں سے اگر ان کے پلے نکھٹو خاوند باندھ دئیے جائیں تو عورت ذات زندگی بھر کے لئے آنسو بہاتی اور آہیں بھرتی رہ جاتی ہے کیونکہ ہمارے روایتی سماج میں مرد تو جہاں بیوی کے اوپر سوتن لا سکتا ہے وہیں اسے طلاق دے کر با آسانی دوسرا بیاہ بھی رچا سکتا ہے لیکن عورت بیچاری طلاق یافتہ ہونے کے بعد چاہے اسے جوانی میں ہی طلاق ہو جائے اپنے لئے بہت سے دروازے بند پاتی ہے۔ طلاق کی عدت گزارنے کے بعد اس دُکھیاری کے لئے قانون نہ تو کسی نان و نفقے کا بندوبست کرتا ہے نہ کوئی اور با عزت راستہ اسے فراہم کرتا ہے۔ سوسائٹی کے دبے ہوئے کمزور اور مظلوم طبقات سے ہمدردی رکھنے والے ہر انسان کو پنجاب گورنمنٹ کے تحفظ حقوق نسواں بل سے ایک نوع کا اطمینان نصیب ہوا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ خواتین پر تشدد اور بد کلامی جرم تصور ہو گا۔ تشدد کی شکار خاتون کو گھر سے بے دخل نہیں کیا جا سکے گا۔ خاتون پر تشدد کرنے والے مرد کو دو دن کے لئے گھر سے نکالا جاسکے گا۔ تشدد کرنے والے مردوں کو عدالتی حکم پر ٹریکنگ کڑے لگائے جائیں گے اس ٹریکنگ سسٹم کو اُتارنے والے مردوں کو عدالتیں سزا دینے کی مجاز ہوں گی۔
ہم نے اس مجوزہ قانون سے متعلق متعدد اہل علم سے گفتگو کی کہیں سے کوئی دینی یا لادینی شخص کوئی ٹھوس اعتراض نہیں اٹھا سکا محض حجت بازیاں کی گئی ہیں جیسے کہا گیا کہ ہم ’’تحفظ شوہراں‘‘ کا بل لانا چاہتے ہیں۔خدا کے بندو قانون تو سوسائٹی کے کمزور طبقات کو تحفظ دینے کیلئے بنایا جاتا ہے نہ یہ کہ طاقتوروں اور زور آوروں کو مزید زور آور بنا دیا جائے ۔ کس کو معلوم نہیں ہے کہ عورت جسمانی طور پر مرد کے مقابلے میں کمزور ہے آپ نے اسے ڈھارس دینے کی بجائے اس کا مذاق بنا دیا، اسے ابدی طور پر ناقص العقل قرار دے ڈالا،ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ تمام تر کاوشیں کر بھی لی جائیں زور آوروں کی سوسائٹی میں عورت پھر بھی کمزور ہی رہے گی کیونکہ تھیوری اور پریکٹس کا تفاوت کم ہونے میں ہنوز صدیاں لگیں گی۔ انسانی شعور اپنی ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے جہاں آج پہنچا ہے یہ بھی صدیوں کا سفر ہے۔ مانا کہ ہم حقدار کو پورا حق نہیں دلا سکتے لیکن اس کیلئے کاوش تو اٹھائیں اپنی بہتر منزل کا تعین تو کریں۔
جب ہم سب یہ مانتے ہیں کہ یہاں رسوم و روایات کے نام پر ہرروز عورتوں کا استحصال ہو رہا ہے غیرت کے نام پر یہاں روز کوئی بد نصیب کسی نہ کسی مرد کے ہاتھوں قتل ہوتی ہے اور آج تک ایسے قاتلوں کو بالفعل کبھی کوئی سزا نہیں ہو سکی اس لئے اس حوالے سے بھی قانون میں بہر صورت ٹھوس ترامیم آنی چاہئیں، الحمدللہ اس حوالے سے سفر جاری ہے آئیڈیل صورت یہی ہے کہ وہ عورت مضروب ہو یا مقتول اس کی مدعیت حکومتی سطح پر ہونی چاہئے۔باقی اس میں شریف یا اچھے مردوں کے لئے ڈرنے والی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ یہ قانون صرف شریر بدقماش، نکھٹو یا ظالم شوہروں کے ظلم سے بچائو کے لئے بطور ایک سپر یا ڈھال کے ہے ۔
آخر میں ہم وزیر اعلیٰ پنجاب کے ساتھ ساتھ وزیراعظم نواز شریف کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتے ہیںجنہوں نے یہ عندیہ ظاہر کیا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کو روکنے کیلئے قانون سازی کی جائے گی۔ ہم سب محترمہ شرمین عبید چنائے کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے سچی کہانی پر A girl in the river بناتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ظلم کو آشکار کیا بلکہ آسکر ایوارڈ جیت کر پاکستانیوں کی عزت کو بھی بحال کیا کہ کوئی تو ہے جو ظلم کی آندھی میں اپنا فرض ادا کر رہا ہے۔ وزیراعظم کے یہ الفاظ ہر پاکستانی تک پہنچنے چاہئیں کہ غیرت کے نام پر قتل غیرت نہیں سنگین جرم اور قابل نفرت اقدام ہے۔ تحریک پاکستان میں عورتوں نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا ہمارے مذہب میں بھی مردوں اور عورتوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ حکومت ہر سطح پر خواتین سے امتیازی سلوک کے خاتمہ کو ترجیح دے گی اور غیرت کے نام پر قتل جیسے غیر انسانی فعل کو روکے گی۔ مظلوم عورتوں کی خاطر آواز اٹھانے پر انہوں نے محترمہ شرمین کو قوم کی بیٹی کہتے ہوئے ان کی کاوشوں کو سراہا جس پر ہم سب وزیراعظم نواز شریف کے شکر گزار ہیں۔
تازہ ترین