• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ: 1217 ارب کا خسارہ فری بجٹ، تنخواہوں میں 15فیصد اضافہ

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے جمعہ کو سندھ کا  آئندہ مالی سال 20-2019 کے لئے 1217 ارب کا صفر خسارے کابجٹ پیش کیا ، جس میں انھوں نےسرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 15 فیصد  اضافہ کا اعلان  کیا ہے۔ بجٹ میں پیپلز پرامس پروگرام ، جوکہ چیئرمین پیپلز پارٹی نے اپنی اتنخابی مہم کے دوران غربت کے خاتمے کے لئے کیا تھا، کوشامل کیا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں، رقوم کے مختص کیے جانے کے معاملے میں پہلی ترجیح تعلیم ، صحت اور پھر امن و امان کو دیا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے وفاقی ٹرانسفرز کے 665.085 بلین روپے کے بجٹ تخمینہ سے 631.543 بلین روپے کی منظوری دی ہے، لیکن اس طرح کے دعوے گمراہ کن ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت اپنی مالی حیثیت کا جائزہ لینے میں ناکام رہی اور غلطی سے دو دن کے معاملات میں نظر ثانی شدہ وفاقی ٹرانسفرز کے دو مختلف اعداد و شمار کو مطلع کیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 11 ماہ میں، سندھ کو فیڈرل ٹرانسفرز کے حساب سے صرف 492.135 بلین روپے وصول ہوئے اور یہ متوقع ہے کہ مالی سال کے اختتام تک یہ کمی 117.527 بلین روپے تک پہنچ جائے۔

سندھ اسمبلی میں صوبائی بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ لگتا ہے کہ وفاقی حکومت نے کچھ اور ہی فیصلہ کیا ہوا ہے اپنی نا اہلی اور کام نہ کرنے کے رجحان کے ساتھ وفاقی حکومت نے جانتے بوجھتے پاکستان کے عوام کی فلاح و بہبود کوخطرے کے نشان پر رکھ دیا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی تمام تر توانائیاں لوگوں کی خدمت کرنے پر صرف کر دی ہیں ۔ انھوں نے بتایاکہ موجودہ وفاقی حکومت کی کام میں عدم لچسپی دکھائی دیتی ہے۔ وہ اپنی محصولات کی وصولی کے اہداف کے حصول میں متواتر نا کام ہورہی ہے۔ 11 ماہ میں 447 ارب روپے کی ریکارڈ کمی کے ساتھ FBR کی کارکردگی گذشتہ سال کے دوران کم ترین سطح پررہی ہے، نتیجتاْ سندھ کو اس کے حصہ سے محروم رکھا گیا ہے اور وفاقی حکومت سے ہی حصہ نہ ملنے کی وجہ سے ہمیں 117.5 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ در حقیقت رواں مالی سال وفاقی حکومت نے اپنے سالانہ ترقیاتی پروگرام (ADP) میں سندھ کو مکمل نظر انداز کیا ہے سندھ کے لئے صرف 50 اسکیمیں رکھی گئی ہیں ہمیں ADP کا3.5 فیصد مل رہا ہے، وفاقی حکومت کی سندھ اور اس کے عوام کے ساتھ کھلی دشمنی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے برعکس حکومت سندھ نہ صرف محصولات وصول کر رہی ہے بلکہ محصولات کی وصولی کے اہداف کوبھی عبور کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت کے اداروں اور وہ جو دیگر صوبوں میں ہیں کے برعکسSRBواحد محصولات وصول کرنے والا ادارہ ہے جو تواتر کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ 11-2010 کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے ٹیکس وصولی فقط 16.6 ارب روپے تھی لیکن سندھ حکومت نے رفتہ رفتہ ٹیکس وصولیوں میں اضافہ کیا اور سال 18-2017 کے دوران ہم نے 100 ارب روپے وصول کیا جبکہ آئندہ مالی سال 20-2019 کے لئے ہم نے ٹیکس وصولی کا ہدف 145.0 ارب روپے مقرر کیا ہے۔

نظرثانی شدہ تخمینہ 19-2018:

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے نشاندہی کی ہے کہ وفاقی منتقلیوں کے بجیٹری تخمینہ 665.085 ارب روپے پرنظرثانی کر کے 631.543 ارب روپے کر دیا گیا ہے، لیکن تمام دعوے گمراہ کن ہیں ۔ وفاقی حکومت اپنی مالی حالت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہی ہے اور کچھ ہی دنوں میں غلطی سے دو مختلف نظر ثانی شدہ منتقلیوں سے متعلق اعدادوشمار سے صوبوں کو مطلع کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ گزشتہ 11 ماہ میں سندھ نے وفاقی منتقلیوں کی مد میں صرف 492.135 ارب روپے وصول کئےہیں ۔ رواں مالی سال کے اختتام پر وفاقی منتقلیوں میں شارٹ فال 117.527 ارب روپے تک متوقع ہے۔ وفاقی حکومت آمدن بڑھانے میں ناقص کارکردگی کا الزام فیڈرل بورڈ آف ریونیو پر عائد کر رہی ہے لیکن یہ بالکل عیاں ہے کے ڈھانچے میں اصلاحات لا نا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کو اشیاء پرسیلز ٹیکس وصول کرنے کی پیش کش کی تھی کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ اشیاء پرسیلز ٹیکس صوبوں کو متتقل کرنے سے گوشواروں میں بلند ترین اضافہ ہوسکتا ہے جیسا کہ خدمات پرسیلز ٹیکس کے معاملے پر کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے تو مالیاتی ایوارڈ پراتفاق رائے پیدا کر نے کا کوئی حقیقیارادہ نہیں کیا۔ ایوارڈ کے اعلان میں تاخیرصوبوں کے حقوق کی قیمت پر کی گئی ہے۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ صوبائی آمدن کے اہداف 243.082 ارب روپے سے نظر ثانی کر کے 240.746 ارب روپے کردیئے گئے ہیں اس کے نتیجے میں تخمینہ شدہ رقم 1.123 ٹریلین روپے کے مقابلے میں رواں مالی سال میں نظر ثانی شدہ وصولیاں 940.777 ارب روپے تک رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وصولیوں میں کمی کے باعث ہم نے اپنے ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کی ہے جو کہ رواں مالی سال میں 172.941 ارب روپے تک رہے ہیں ۔ یہ ہمارے اہداف حاصل کرنے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔متعددتر قیا تی منصوبوں جو کہ مکمل کئے جا سکتے تھے، تم کی عدم موجودگی کے باعث تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں۔ انھوں نے مزید کہاکہ اسی طرح رواں آمدن کی مد میں تخمینہ 773.237 ارب روپے پرنظر ثانی کر کے 751.752 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ رواں آمدن کی مد میں بنیادی طور پر انتہائی سادگی کے اقدامات اور سخت مالی نظم و ضبط کے بنا پر ہوئی ہے۔ مالی سال 19-2018 کے دوران انتظامی اخراجات میں کمی کی گئی ہے۔ محکموں کی ترقی اور دیکھ بھال کے اخراجات کی بجٹ میں خاطر خواہ کمی کر کے 30 . 8 ارب روپے سے 26.8 ارب روپے کر دی ہے۔ انتظامی امور کے اخراجات کی مد میں چوتھی سہ ماہی کے بجٹ کا جزوی حصہ جاری کیا گیا ہے۔ تمام مالی مشکلات کے با و جود ہم نے اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کوشش کی ہے کہ صحت او تعلیم کی سہولیات کیلئے خاطر خواہ بجٹ مختص کی جائے ۔ ہم نے سماجی شعبہ کے اداروں کی گرانٹس میں بڑی کمی کرنے سے گریز کیا ہے ہم نے ایس آئی یو ٹی (SIUT)، انڈس ہاسپٹل، ہیڈز (HANDS)،امن فاؤنڈیشن اور سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن وغیرہ جیسے اداروں کی بہتری کیلئے اقدامات کئے ہیں ۔ ان اقدامات کے باعث ہم اپنے اخراجات کے تخمینے پر نظر ثانی کرنے کے قابل ہوئے اور 1 . 144ٹریلین روپے پر نظر ثانی کر کے 956 , 779 ارب روپے گئے ہیں۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ اس کے نتیجے میں رواں مالی سال میں متوقع خسارہ 20 .457 ارب روپے کے مقابلے میں 16 ارب روپے رہے گا۔ میں ایک مرتبہ پھر اس بات کا اظہار کر رہا ہوں کہ بروقت اخراجات میں کمی اور سادگی کے اقدامات اپنانے کی وجہ سے ہم خسارہ کم کرنے کے قابل ہوئے۔

بجٹ تخمینہ 20-2019:

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 2019-20میں صوبے کی وصولیوں کا تخمینہ 1.218ٹریلین روپے ہے جبکہ اخراجات کا تخمینہ1.217 ٹریلین روپے ہے۔ وفاقی منتقلیوں کے طور پر صوبے کو 835.375 ارب روپے وصولی کی توقع ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ہونے والی وصولیاں کل وصولیوں کا 74 فیصد ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ برسوں میں وفاقی حکومت اپنے اہداف کی وصولی میں ناکام رہی ہے۔ ہم نے وہی اعدادوشمار مد نظر رکھے جو وفاقی حکومت کی جانب سے ہمیں بتائے گئے ۔ ہم زور دے کر یہ بات کہ سکتے ہیں کہ وفاقی حکومت اپنے اہداف اس وقت تک حاصل نہیں کر سکے گی جب تک وہ بڑےپیمانے پر تبدیلیاں متعارف نہ کرائے۔ وفاقی اپنے اہداف میں ناکامی کی وجہ سے صوبائی حکومت کو اگلے مالی سال 20-2019 میں مالی مشکلات کا سنا کرنا پڑے گا ۔ ہماری اپنی صوبائی وصولیاں رفتہ رفتہ بڑھ رہی ہیں اور اگلے مالی سال کے لئے صوبائی محصولات کا ہدف 243.082 ارب روپے سے بڑھ کر 355.4 ارب روپے ہو گیا ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ موجود محصولات کی سائیڈ پر اخراجات کے لیے بجٹ کا تخمینہ 870.217 ارب روپے لگایا گیا ہے جو کہ موجودہ مالی سال کی ایلوکیشن 773.237 ارب روپے پر 12.5 فیصد اضافہ کو ظاہر کرتا ہے۔ اخراجات میں12 فیصد کا اضافہ بنیادی طور پر ملازمین سے متعلق اخراجات کا ہے۔ جس سے کسی طورپرصرف نظرنہیں کیا جاسکتا۔بالکل اسی طرح بڑھتی ہوئی یو ٹیلیٹی کے اثرات کو جذب کیا گیا ہے۔ شدید سادگی (Austerity) کی ہماری یہ پالیسی اگلے مالی سال میں بھی جاری رہے گی ۔ ہم نے اپنے جاری مصارف میں نمایاں کٹوٹیاں کی ہیں تاہم سماجی شعبوں پر اس کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اگلے مالی سال میں ترقیاتی کاموں کے لئے 283.5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جس میں صوبائی اور ضلعی اے ڈی پی کے 228 ارب روپے بھی شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت سندھ واضح طور پر سمجھتی ہے کہ ترقی وسط مدتی اور طویل المدتی حکمت عملی کی متقاضی ہوتی ہے جس کے لئے تمام اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے وسائل کا درست طریقہ استعمال بھی نہایت ضروری ہے چنانچہ اب اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے جاری اسکیموں کو سال بھر بلا تاخیر رقوم کی فراہمی ضروری ہے ۔ تا کہ ہم اپنے وہ اہداف حاصل کرسکیں جو کہ ہم نے مجموعی نمو، ملازمتوں کی تخلیق اور اپنے عوام کو بہتر خدمات کی فراہمی کے لئے متعین کئے ہیں۔ مراد علی شاہ نے بجٹ تقریر میں اپنے چیلنجز ،کا میابیوں اور مستقبل کے اہداف پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ (14-2013 سے18-2017)تک کے گزشتہ مالی سالوں کے دوران حکومت سندھ نے صوبے کی مجموعی ترقی کے

لئے سماجی ، معاشی اور انفرااسٹرکچر کے شعبوں میں بڑی رقوم خرچ کی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے پائیدار ترقی کے لئے جن اہداف (SDGs) کو اختیار کیا وہ بھی منعکس ہوتے ہیں۔ حکومت نے اچھی صحت، اچھا رہن سہن، معیاری تعلیم ، صاف پانی اور بہتر نکاسی ،صاف اور قابل استطاعت توانائی اور معاشی نمو و سماجی مساوات اور موسمیاتی عمل کو اپنے اہم اہداف کی حیثیت سے ترجیحی طور پر تعین کیا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اس سال اگست 2018 میں اپنا عہد ہ دوبارہ سنبھالنے کے بعد مالی دشواریوں اور سال کی پہلی سہ مائی میں منتقلیوں کے باعث ترمیم کرنے کی غرض سے صوبائی اے ڈی پی کا سائز 252 ارب روپے سے کم کر کے 223 ارب روپے کیا۔ غیریقینی کی صورتحال ترقیاتی سرمائے‘ پر متعدد طریقوں سے اثر انداز ہوئی اور مجموئی سرمائے (KITTY) میں تخفیف کے باعث منصوبوں کی بروقت تکمیل پر بھی اثر پڑا۔ چنانچہ محکمہ خزانہ (3 جون 2019 تک ) تر قیاتی پورٹ فولیو کی تمام مدات (Heads) میں 130 ارب روپے جاری کر سکا۔ صوبائی اے ڈی پی کی مد میں اب تک 125.18 ارب روپے جاری ہوئے۔ اس مجموی اجرا کے مقابل جون 2019 کے اختتام تک مجموعی اخراجات کا تخمینہ تقریبا 110 ارب روپے متوقع ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ جاری کی گئی رقوم سے کم اخراجات ہوئے لیکن ایسا سال بھر ہونے والی غیر یقینی صورتحال کے باعث ہوا۔ اس صورتحال کے با و جود توقع ہے کہ جون 2019 تک 453 جاری منصوبے مکمل کر لیں گے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے وفاقی حکومت کی جانب سے پی ایس ڈی پی میں سندھ سے ہونے والی نا انصافیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وفاقی پی ایس ڈی پی مجموعی طور پر 951.0 ارب روپے ہے جس میں 127 ارب روپے فارن پراجیکٹس اسسٹنٹس (FTA) کے شامل ہیں۔ مذکورہ ترقیاتی پروگرام میں سندھ کے 50 جاری اور نئے منصوبوں کے لئے 33.3 ارب روپےمختص کئے گئے تھے۔ وفاقی پی ایس ڈی پی 20-2019 میں شامل مجموعی منصوبوں میں سے سندھ کے 12 منصوبوں کے لئے صرف 4.89 ارب روپے رکھے گئے جبکہ بلوچستان کےلیے سال 19-2018میں15.0 ارب روپے اور 18-2017 میں 27.3 ارب روپے مختص کئے گئے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی کی ترقی سے متعلق یہ یاد رکھا جائے کہ وزیراعظم نے 30 مارچ 2019 کو 162 ارب روپےکے کراچی پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ 12.1 ارب روپے کی لاگت کی 19 اسکیمیں شامل تھیں ۔

تعلیم:

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ تعلیم سے کسی بھی فرد، معاشرے اور ریاست کی مجموعی ترقی کو جانچا جاتا ہے۔ یہ وہ بنیادی چٹان ہے جس پر خوشحالی اور انسانی ترقی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے تعلیم انسانوں کو اعلیٰ ظرف بناتی اور برداشت، رواداری ،سماجی انصاف اور جمہوری رویوں کوفروغ دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ تعلیم کے لئے وسائل مختص کرتےوقت اسے تمام دیگر شعبوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔

اگلے مالی سال20-2019 کے لئے اسکول ایجوکیشن میں غیر ترقیاتی بجٹ سال 19-2018کے170.832 ارب روپے سے بڑھا کر 178.618 ارب روپے کیا جارہا ہے۔ جبکہ تر قیاتی اخراجات کی مد میں اے ڈی پی 20-2019 کے لئے 15 .15 ارب روپے کئے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہم نے مشاورتی عمل کے ذریعے سندھ کے تعلیمی شعبے کا منصوبہ اور روڈ میپ (20-2019) تیار کیا ہے۔ اس سلسلے میں سول سوسائٹی ، دانشوروں اور علم و آگہی رکھنے والوں کو ساتھ لیا گیا ہےکیوں کہ وہ مادی ترقی میں برابر کے حصے دار ہوتے ہیں ۔ شعبے کے نئے منصوبے کا فوکس اسکولوں میں نئے داخل ہونے والوں کے لئے اضافی کمرہ ہائے جماعت ( کلاس رومز ) پینے کے صاف پانی ، بیت الخلا ء اور چار دیواری کی سہولیات کی فراہمی پر رکھا گیا ہے تا کہ طالب علموں بالخصوص لڑکیوں کو شفاف ماحول فراہم کیا جائے ۔ لڑکیوں کی تعلیم کو خاص ترجیح دیتے ہوئے لڑکیوں کو ٹرانسپورٹیشن کی سہولیات کی فراہمی کے لئے مناسب فنڈز کی تجویز ہے تا کہ دیہی علاقوں کے اسکولوں میں طالبات کی کمی کے مسئلے سے نمٹا جا سکے۔ ہم نے اسکول سے باہر رہ جانے والے بچوں کو تعلیم کی طرف واپس لانے کے نظام کے تحت بھی اقدامات کئے ہیں اس سلسلے میںڈائر یکٹوریٹ آف لٹریسی اینڈ نان فارل ایجوکیشن کوخصوصی فنڈز فراہم کئے جارہے ہیں تا کہ وہ کمیونٹی کی بنیاد پر انجمنوں (CBOs) کے ساتھ شراکت کے ذریعے ٹیوٹر مہیا کریں جبکہ حکومت شام کے اوقات میں اسکول کی عمارت مہیا کرے ۔ سی بی اوز ( کمیونٹی کی بنیاد پر انجمنوں) کو انتظامی اخراجات ادا کئے جائیں گے۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ محکمہ اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی کے سرکاری نجی شراکت کے نوڈ (NODE) کو مہمیز دینے کے لئے ایجوکیشن مینجمنٹ آرگنائزیشن (EMOs) کے ساتھل کر طالب علموں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ ہماری توجہ کا ایک اور میدان تعلیم

بچپن کی ابتدائی تعلیم (Early Childhood Education) ہے۔ سندھ نے دیگر صوبوں پر سبقت لیتے ہوئے اس شعبہ Childhood care and Education)) کی پالیسی منظور کی ہے۔ ہم نے پہلے ہی اپنے سرکاری اسکولوں میں 1500 ای سی ای (ECE) کلاسز قائم کر دی ہیں، جبکہ اگلے مالی سال20-2019 میں مزید 1500 ای سی ای (ECE) کلاسز قائم کرنے کا منصوبہ تشکیل دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ موثر نگرانی اور شواہد کی بنیاد پر منصوبہ بندی کے لئے اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹر کی ڈپارٹمنٹ نے جنوری فروری 2019 میں تمام سرکاری اسکولوں کی ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعہ تعداد شماری کی ہے۔ اب ہمارے پاس وہ ڈیٹا موجود ہے جس کی بنیاد پر میں نہ صرف بہتر فیصلے کرنے میں مدد ملے گی بلکہ اس کے ذریعے ہم اپنے وسائل بہتر طریقہ سے استعمال بھی کر سکیں گے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اسکول ایجوکیشن کے تحت 19-2018 میں بلند تر جیحی کے حامل 4560 اسکولوں کی تزئین و آرائش پر زور دیا گیا ہے۔ ایسے اسکول جن میں زیادہ انرولمنٹ ہے وہاں کلاس رومز کی مناسب سہولتیں ، واش رومز، پانی ،بجلی اور ضروری تدریسی اسٹاف کی فراہمی کے ذریع تدریسی ماحول کو بہتر کر کے مزید انرجمنٹ کے مواقع پڑھائے جانے کے اقدامات کر کے کہ اسکول ایجوکیشن جون 2019 تک 1437 یونٹ مکمل کر لے گا۔ مزید 1973 سرکاری اسکولوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور مزید 367 اسکولوں کو پینے کا صاف پانی ایک نئی ترقیاتی اسکیم کے ذریعے فراہم کیا جائے گا۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ اسکول ایجوکیشن پورٹ فولیو کے تحت 279 اسکیموں کے لئے 15.15 ارب روپے (188 جاری اور91نی اسکیموں منتقل کئے گئے ہیں ۔ نئے مالی سال کے لئے مزید بڑے اقدامات یہ ہیں: (1) سائبان سے محروم 20 پرائمری اسکولوں کے لئے 6 کمروں کی عمارت کی تعمیر۔ (2) زیادہ ا نرولمنٹ رکھنے والے 113 مخدوش پرائمری اسکولوں کی ز مین، مرمت (بمع اضافی کمرہ ہائے جماعت اور غیر موجود سہولتوں کی فراہمی) (3) موجودہ ہائی اسکولوں میں تبدیلی کر کے 35 ماڈل اسکول کمپلیکس کا قیام مع ان سکولوں کے فیڈر پرائمری اسکولوں کو سیکھنے کے بہتر مراکز میں تبدیلی کی اسکیم۔ (4) ’’بلندترجیح‘‘ کے حامل 4560 اسکولوں میں پرائمری اور سیکنڈری اسکول کی 42 اسلیم ہیں جن میں 1772 اسکول شامل ہیں سال 20-2019 میں مکمل ہوں گی۔

سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن (SEF) نے رسائی کے ضمن میں ایک بڑا کارنامہ((Break throughاس وقت انجام دیا جب اس ادارے نے تین سال کی ریکارڈ مدت میں انرولمنٹ کو 256000 سے بڑھا کر 550000 (100 فیصد) کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ اگلے مالی سال 20-2019 کے لئے سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے بجٹ کے لئے ہم 9.597ارب روپے ختم کرنے کی تجویز دے رہے ہیں ۔

کا لج ایجوکیشن

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اگلے مالی سال 20-2019 میں کا لج ایجوکیشن کے لئے غیر ترقیاتی بجٹ سال 19-2018 کے15.777 ارب روپے سے بڑھا کر 18.094 ارب روپے کیا جارہا ہے جبکہ ترقیاتی مد میں اے ڈی پی2019-20 میں 4ارب رد پیش کئے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 2019-20 کے اے ڈی پی میں محکمہ کا ایجوکیشن کے لئے بڑے ترقیاتی اقدامات یہ ہیں: (1) 17 نئے کالجوں کے قیام کا منصوبہ جن میں کراچی (ضلع کورنگی ضلع ملیر ضلع غربی ) جبکہ حیدر آباد ،عمرکوٹ سکھر، جامشورو، شکار پور، جیکب آباد اور سانگھڑ کے اضلاع بھی شامل ہیں۔(2) مختلف اضلاع میں موجود کالجوں میں تعمیر و مرمت و بحالی اور فرنیچر کی فراہمی کی متعدد اسکیمیں۔ (3) 20-2019 میں گڈاپ اور پنوں عاقل کے کیڈٹ کالجز میں غیر موجود سہولتوں کی فراہمی کے لئے اسکیمیں۔

یونیورسٹیز اور بورڈ:

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 2019-20 میں محکمہ یو نیورسٹیز اور بورڈ کے غیر ترقیاتی بجٹ کی رقم (Allocation) مالی سال2018-19 کے 9.529ارب روپے سے بڑھا کر 10.585 ارب روپے کر دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت سندھ نے یونیورسٹیوں اور بورڈز کے لئے مالی

سال 20-2019 کے لئے 3 ارب روپےمختص کئے ہیں ۔ جن سے ہائر ایجوکیشن سے متعلق متعدد اقدامات کے لئے رقم فراہم کی جائے گی ۔ جیسا کہ(1) سکھر آئی بی اے یونیورسٹی میں سینئر آف رو بینکس، مصنوعی ذہانت Artificial Intelligence))اور بلاک چین ۔ مرکز کا قیام (2) NED کیمیں تھرپارکر میں تھر انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کا قیام ۔ (3) بدین اور میر پور خاص میں سندھ یونیورسٹی کیمپس کا قیام۔

صحت:

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ صحت کا شعبہ سندھ حکومت کی اعلیٰ ترجیحات میں شامل ہے ۔ اس ضمن میں سال بہ سال مدافعتی پروگراموں کے لئے قابل لحاظ رقم خرچ کی گئی ہے۔ بنیادی صحت کے پروگرام کو PPH1 کے تحت کیا گیا ہے۔ متعدد بڑے صحت کے اداروں / اسپتالوں کو گرانی اور ترقیاتی رقوم کے ذریے فنڈ فراہم کئے گئے ہیں جن میں ایس آئی یوئی (SIUT)، انڈس ہاسپٹل، جے آئی ایم ایس (JIMS)، جے پی ایم سی (JPMC)، این آئی سی ایچ (NICH)، این آئی سی وی ڈی (NICVD) معہ کراچی میں اس کے 8 سپلانٹ اور 9 موبائل چیسٹ پین یونٹس شامل ہیں۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ محکمہ صحت کے موجود محصولاتی اخراجات (Revenue Expenditure) ،رواں مالی سال 19-2018 کی رقم 96.8 ارب روپے سے بڑھا کر 19 فیصداضا نے کے ساتھ مالی سال 2019-20 کے لئے 114.4 ارب روپے کر دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مالی سال 19-2018 کے لئے 13.5 ارب روپے 170 اسکیموں کے لئے مختص کئے گئے تھے اور 3جون 2019 تک جاری کئے گئے 8.01 ارب روپے میں سے 4.61 ارب روپے خرچ کئے جا چکے ہیں۔ 12 اسکیمیں 2019 تک مکمل کئے جانے کی توقع ہے جو معیاری صحت، خدمات تک رسائی کو بہتر بنائیں ۔

چند بڑی کامیابیاں درج ذیل ہیں:

* لیاقت یونیورسٹی میڈیکل کالج اور غلام محمد میڈیکل کا لج ہسپتال سکھر میں 50 بستروں کے میڈیکل اور سرجیکل آئی سی یو، شعبہ حادثات اور او پی ڈی(OPD) کے شعبوں کا قیام۔

* ”نظام صحت کو بہتر کرنے اور نگرانی اور نگہداشت کے نظام کا یو ایس ایڈ (USAID) کے تعاون سے آغاز اور بہتر گورنس کے لئےمنججمنٹ انفارمیشن سسٹم (HMIS) وضع کیا گیا ہے۔

* ایس آئی یوٹی میں متعدد دیگر شعبوں جیسے پیڈیاٹرکس، کارڈیالوجی میں خدمات کی فراہمی کا اضافہ۔

* سینیٹرز کی تعداد کو بڑھا کر 2768 کردیا گیا ہے جبکہ 1733 دی سینیٹرز کی ریکروٹمنٹ کا عمل جاری ہے۔

* ٹی بی کنٹرول پروگرام کے تحت 350 ٹی بی DOTS کلینکس قائم کئے گئے ہیں جبکہ ٹی بی اور ادویات کی دو گھنٹوں میں تشخیص کے لئے پیک سیکر فیسیلیٹیز میں 110 مشینوں کی تنصیب۔

وزیراعلیٰ سندھ نے اے ڈی پی 20-2019 کے لئے اس شعبے کے لئے رواں مالی سال کے مطابق 13.50 ارب روپے فراہم کئے جارہے ہیں ۔ رکھے گئے بڑے اہداف میں سے چند یہ ہیں: (1) سی ایم سی ہاسپٹل لاڑکانہ کے مختلف شعبوں کے لئے 600 ملین روپے کی لاگت سے مشینوں اورآلات کی فراہمی۔ (2) دماغی صحت کی خدمات میں بہتری کے لئے 275.000 ملین روپے کی لاگت سے کمیونی مینٹل ہیلتھ پروگرام۔ (3) جامشورو میں جائیکا(JICA) کے تعاون سے زچہ و بچہ کی صحت کے نگہداشت کا مرکز۔ (4) پی پی پی (PPP) فریم ورک کے ذریعے یا ترقیاتی رقوم کی فراہمی کے ذریے گھر میں 200 بستروں کے اسپتال کا منصو بہ۔

توقع ہے کہ 20-2019 کے دوران 43 اسکیموں کے مکمل ہونے پر تمام شعبوں کی خدمات میں یقینی بہتری آئے گی ۔ جن میں امیونائز یشن،AIDS با مانشس ہلیریا، ٹی بی کنٹرول، بلائنڈ ئس کنٹرول، و غیرہ شامل ہیں اس مقصد کے لئے 4.08ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بجٹ تقریر میں کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت سے مشاورت اور ہسپتالوں کے تبادلے کے میکنزم کو وضع کئے بغیر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکوارڈزیزز NICVD، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (JPMC) اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (NICH) کا کنٹرول لینے کا نو ٹی فیکشن جاری کر دیا، اس فیصلے نے غیریقینی اور ابہام کی صورتحال پیدا کر دی جس سے خدمات کی فراہمی کا نظام متاثر ہوا۔ وزارت خدمات قومی صحت کو صوبائی حکومت کے ساتھ لے کر ابتدا میں ہی مکینزم بنانے کے لئے اجلاس کرنے ان میں

صوبائی حکومت سپریم کورٹ میں پہلے ہی ایک نظر ثانی کی پٹیشن دائر کر چکی ہے اور توقع ہے کہ ہمارے کنٹری بیوشن کوتسلیم کیا جائے گا اور ایک موافق نتیجہ آئے گا ۔ صوبائی حکومت نے ان تین صحت کی سہولتوں (Health Facilities) کے لئے تقابل کے لحاظ سے رقوم خرچ کی ہیں اور ہمارے کچھ منصوبے پائپ لائن میں ہیں صوبائی حکومت نے سخت محنت کرتے ہوئے اور بڑے عزم کے ساتھ پی ای سی ، این آئی سی وی ڈی اور این آئی سی ایچ کو شاندار اداروں میں تبد میں کیا اور اس مقصد کے لئے بجٹ میں گرانقد رقوم ان کی بہتری اور توسیع کے لئے صرف کیں ۔ یہاں میں نشاندہی کرنا چاہوں گا کہ ہم نے کسی حد تک ان اداروں کے وسائل میں اضافہ کیا۔ میں آپ کو صرف NICVD کی مثال پیش کرنا چاہوں گا کہ جب وفاقی حکومت نے اسے ہمارے حوالے کیا اس وقت 12-2011 میں اس کےمختص رقن Allocation )355 ملین روپے تھی ) جبکہ ہم نے اس ادارے کے فنڈز میں اضافہ کیا اور 19-2018 میں یہ رقم بڑھتے ہوئے 8.876 ارب روپے تک پہنچ گئی۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہماری حکومت دل کی بیماریوں کے علاج پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور اس سلسلے میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر ڈزیززنے قابل تحسین خدمات انجام دی ہیں اور یہ ہارٹ اٹیک کے علاج اور پرائمری کیئر کا دنیا کا سب سے بڑا مرکز ہے کہ سندھ کے عوام کو ان کی دہلیز پر بروقت اور عارضہ قلب سے بچاؤ کے لئے بالکل مفت خدمات مہیا کر رہا ہے اس کی خدمات میں سے چند کی نشاندہی میں کرنا چاہوں گا۔ پہلے کراچی میں سینے کے درد کے 6 فعال مراکز تھے۔ اس سال ہم نے کراچی میں تین مراکز کا اضافہ کیا ہے جو کہ اپنی نوعیت کی منفردسروس ہے جو کہ پورے سال اور 24/7 گھنٹے مہیا کی جارہی ہیں۔ سینے کے درد کے مراکز کا قیام تیز تر رسائی کے ساتھ ساتھ ابتدائی اور فوری علاج کی فراہمی کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔

* اس کے ساتھ ہی میں واضح کرنا چاہوں گا کہ ہم نے ٹنڈو محمد خان ، لاڑکانہ ، حیدر آباد اور سہون میں NICVD کے سیٹلائٹ سینٹرز سندھ حکومت کے اشتراک سے پہلے ہی قائم کر دئے ہیں۔

* اس سال ہم نے خیرپور، بکھر مٹی اور نواب شاہ میں NICVD کے سیٹلائٹ سینٹرز قائم کئے ہیں۔ یہ جدیدترین آلات سے مرصع کارڈیک سینٹرز 24/7 اور 100 فیصد مفت فوری نگہداشت کی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں جہاں بین الاقوامی اور مقامی تربیت یافتہ ماہرین امراض قلب ، پیرامیڈیکل عملہ اور سیشن موجود ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہم نے جے پی ایم سی میں انفراسٹراسکچر اور خدمات کی فراہمی کو بھی بہتر بنایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جے پی ایم سی کا ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ اور اس کا سائبر نائف پراجیکٹ پہلے ہی فعال ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہمیں احساس ہے کہ صوبائی حکومت ان اداروں کو بہت بہتر انداز میں چلا رہی ہے کیونکہ ہم ان سے بہت قریب ہیں۔ اس لئے سندھ حکومت کو اجازت دی جائے کہ وہ ان اداروں کو اپنے انتظامی کنٹرول میں رکھ کر مزید ترقی دے سکے۔

پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت اہم اقدامات:

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ تجربہ کار اور پیشہ ور انتظامیہ کے ساتھ بہتر سہولیات کی فراہمی کے لئے پی پی پی سے نکلنے والی معروف شراکت دار ہیں جیسے کہ ہینڈز (HANDS)، انٹیگریٹڈ سروسز، میڈیکل ایرانی ریلیز فاؤنڈیشن اورانڈس اسپتال کو ہماری حکومت نے پسماندہ علاقوں کے لئے صحت کی سہولیات حوالے کی ہیں تا کہ سندھ کےلوگوں کو علاج معالجہ کی بہتر سہولیات فراہم کی جاسکیں۔

سندھ کے پبلک سیکٹر کے خودمختار ر اداروں کی گرانٹس:

*ا نسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن

* پیر عبدالقادر شاہ جیلانی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، گمبٹ ضلع خیرپور میرس میں فراہم کردہ جگر کی پیوند کاری کی خدمات کے معیار کو دیکھتے ہوئے عوامی حکومت نے مالی سال 20-2019 میں اسکی گرانٹ میں 60 فیصد کا اضافہ کرتے ہوئے 2 ارب روپے سے بڑھا کر 3.6 ارب روپے کر دی ہے۔

* صوبے کے لوگوں کیلئے امراض خون کے علاج کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے عوامی حکومت نے مالی سال 20-2019 میں اس کے لئے 500ملین رو پے مختص کئے ہیں۔

*HIV/AIDS سے متاثرہ افراد کی فلاح و بہبود کے لئے ایک ارب روپے کی مالیت سے انڈومنٹ فنڈنے مالی سال 20-2019 کے لئے مختص کیا ہے۔

* حکومت سندھ SIUT کو5.6 ارب روپے بطور گرانٹ اگلے مالی سال (20-2019) میں فراہم کرے گی تا کہ یہ ا پنی خدمات کراچی میں جاری رکھ سکے اور دوسرے شہروں میں نئے اقدامات لے سکے۔

امن و امان:

وزیراعلیٰ سندھ نے بجٹ تقریر میں کہا کہ امن و امان کی صورتحال کا براہ راست تعلق لوگوں کی سماجی اور اقتصادی ترقی سے ہے۔ امن و امان اچھی طرز حکومت کا ایک اہم جزو ہے۔ امن وامان کو ہمیشہ ترجیح دی گئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے چند سالوں میں امن وامان کی صورتحال میں بہت بہتری آ گئی ہے ۔ حکومت سند ھ محکمہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خاطر خواہ وسائل فراہم کرتی رہتی ہے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پر امن و امان اور دہشت گردی جیسے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی استعداد کار میں اضافہ کریں ۔ امن وامان کی صورتحال قابو میں رکھنے کے لئے ہم نے تین مختلف حکمت عملی اپنائی ۔جس میں تربیت کے ذریعہ افرادی قوت کی استعداد کار بڑھانا ، جدید ٹیکنالو جی کا استعمال بالخصوص IT کا استعمال کرتا اور فرائض کی ادائیگی کے دوران شہادت پانے والے یا زخمی ہونے والوں کی خدمات کا اعتر اف کرتا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ غیر ترقیاتی بجٹ میں امن وامان کے شعبہ کے لئے 100.483 ارب روپے سے بڑھا کر مالی سال2019-20 میں 109.788 ارب روپ مختص کئے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ مالی سال میں اہم سنگ میل عبور کئے گئے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:

* سندھ بھر میں دفاتر اور پولیس تھانوں میں IT Labs کا قیام عمل میں لایا گیا۔

* مختص کردہ رقوم سے سیکیورٹی فورسز کے شہداء اور زخمی ہونے والوں کو معاوضہ کی ادائیگی کی گئی۔

* 661ملین روپے کی لاگت سے پاک آرمی ٹریننگ سینٹرز میں نے بھرتی ہونے والے پولیس کانسٹیبلز کو تربیت فراہم کی گئی۔

* غیرمعمولی خدمات انجام دینے والے پولیس افسران کو نقد انعامات دیے گئے ہیں۔

* ڈونرز ملنے پر باقی سہولت مراکز قائم کئے جائیں گے جہاں عام آدمی کے چال چلن کی تصدیق کی جائے گی۔ علاوہ ازیں قیمتی اشیاء کی گمشدگی کی رپورٹ ، موقع پر جرم ہونے کی شکایت ، گمشدہ بچوں، گھریلو تشدد، گاڑی کی چوری وغیرہ جیسے معاملات کے حل کے لئے آئیں گے۔ یہ منصوبہ سندھ پولیس کا اہم کارنامہ ہو گا۔

* 3690 پولیس اہلکاروں کو NTS کے ذریعے بھرتی کیا گیا ہے۔ جبکہ 4507 پولیس اہلکاروں کو بھرتی کرنے کا مل جاری ہے۔

* بم ڈسپوزل اسکواڈ کے آلات کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کیا گیا ہے۔

* مالی سال 20-2019 کے لئے کی بڑی تعداد میں درج ذیل اسکیمیں تجویز کی گئی ہیں:

* کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (CTD) کو از سر نوتشکیل دینے کے لئے اور ایک پیشہ ورانہ صلاحیت سےمعمور ہو اور عین مطابق ہو۔

* عوام الناس کی با آسانی رسائی کے لئے سندھ پولیس آئندہ مالی سال 20-2019 میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت 259 اضافی رپورٹنگ رومز قائم کرے گی ۔

* بجٹ 20-2019 میں مختلف گریڈز کی 3 ہزار نئی اسامیاں پیدا کر نے کا منصوبہ بنایا گیا ہے تا کہ سندھ پولیس فورس کے بجٹ میں حقیقی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔

سماجی تحفظ اور غربت میں کمی کا پروگرام:

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ حکومت سندھ نے ترقیاتی بجٹ 20-2019 میں سماجی تحفظ اور تخفیف غربت پروگرام کے لئے 12.3 ارب روپے مختص کئے ہیں جس کے تحت 3 اہم پروگرام زیرغور لائے جائیں گے۔ (1) پیپلز پا رٹی ریگیشن پروگرام PPRP ( 2) پاورٹی ریڈیکشن اسٹرابی (PRS) اور سوشل پر و ٹیکشن ایکسیلیر بیٹڈ ایکشن پلان کے جاری پروگرام میں غذائیت کے معیار کو بہتر بنانے اور نشوونما میں رکاوٹ بننے والے عوامل کے تدارک کے لئے اقدامات شامل ہیں ۔ جیسا کہ ایوان کو بھی معلوم ہے کہ PPRP جو کہ پہلے Cں کا پاور ڈی ریڈکشن پروگرام (UCBPRP) تھاابتدا میں پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر شکار پور اور شعور، کندھ کوٹ میں شروع کیا گیا تھا جسے بعد میں تھر پارکر اور جیکب آبادتک وسعت دی گئی ہے۔ گذشتہ سال سے اسے 6 مزید اضلاع خیر پور، سانگھڑ ، بد ین بھٹھہ عمرکوٹ اور میر پور خاص تک اضافہ کیا گیا ہے۔ EUنڈزSUCCESS پروگرام کی 62.0 ملین یورو کی مالی معاونت کے ذریعے 8 مزید اضلاع کو اس میں شامل کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت اب تک 4لاکھ مکینوں کو بلا سود قرضے دئے گئے ہیں یا انہیں ترقی کے مواقع فراہم کئے گئے ہیں ۔ ہم نے ان پروگرامز میں گھر تعمیر کرنے اور چھوٹے کاروبارکومد نظر رکھا گیا ہے اور اس کو وسعت دی گئی ہے۔ مالی سال 20-2019 کے بجٹ کے تحت PPRP کو مزید 6 اضلاع نوشہرو فیروز شہیدبینظیر آباد اور حیدر آباد اور کراچی کی دیہی یونین کونسل تک بڑھا دیا جائے گا۔

حکمت عملی برائے تخفیف غربت

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہاکہ حکمت عملی برائے تخفیف غربت کے لئے حکومت سندھ نے یورپی یونین (EU) کی فنی معاونت سے پاورٹی ریگیشن اسٹرا کی تیارکر لیا ہے جس کی سندھ کابینہ نے اکتوبر 2018 میں منظوری دی تھی، یہ حکمت عملی صوبے کے شہری اور دیہی علاقوں میں غربت کی کمی کے لئے اختیار کی جائے گی PPRP کے ذریعے پیدا ہونے والے سابی سرمائے پرانحصار ( ڈیولپمنٹ آف رورل گروتھ سینٹر) کے ذریعے معاشی آمدنی بڑھاتے ہوئے غربت کی کمی کے لئے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے (ڈولپمنٹ آف رورل گروتھ سینٹر کے ذریعے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ کیا جائے گا جبکہ شہری علاقوں میں غربت کی کمی کے لئے آمدنی بڑھانے کی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے گا۔

ایکسیلیر ینڈ ایکشن پلان (AAP) فار ٹیکشن آف اسٹنڈنگ اینڈ مال نیوٹریشن:

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ حکومت سندھ غذائی قلت سے اچھی طرح واقف ہے یہ ایک پیچیدہ اور طویل اور مسلسل جدوجہد کی نوعیت کا مسئلہ ہے جس کے لئے ایک طویل المدتی اور مسلسل کاوشوں کی ضرورت ہے حکومت سندھ کو اس معاملہ پر حساسیت کا احساس ہے اور وہ اس کے تدارک کے لئے سرگرمل ہے۔ اس من میں ایک دس سال کثیراہتی ایکسلیر پیڈ ایکشن پلان برا خفيف غذائی قلت کی کمی کو پورا کرنے کے اہداف مقرر کئے گئے ہیں جس کے تحت AAP کا مقصد بچوں کی نشوونما کے ملک کی کمی کو 2021 تک 48 فیصد سے 30 فیصد تک لے جانا اور 2026 تک اسے 15 فیصد تک لے جانے کا حدف کیا جائے گا جس کے لئے متعلق کاموں مثلا بہبود آبادی، صحت ، بلدیات، زراعت، لائیواسٹاک اورفشریز کی خدمات حاصل کی جائیں گی ۔ جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا کہ اس کے لئے جہد مسلسل کی ضرورت ہے 19-2018 کے دوران ہم چند مندرجہ ذیل اہداف حاصل کرنےکے قابل ہوئے ہیں:

* 167 آوٹ پیشنٹ تھراپونک پروگرام (OPT) سائنس قائم کی گئی ہیں جبکہ OPT سائنس کے ذریعے 5سے 59 ماہ کے دوران 1401133 بچوں کے نشوونما کے عمل کی کمی کا شکار 77648 بچوں کی رجسٹریشن کی گئی۔

* 467876 دودھ پلانے والی خواتین کو پی ٹی 2 سینیشن کی گئی ہے۔

* لیڈی ہیلتھ ورکرز اور کمیونٹی مڈ وانفس نے کمیونی سطح پر دورے کر کے 338432 حاملہ خواتین کو مشورہ دیا157649 حاملہ خواتین کو سہولیات فراہم کیں ۔

* استعمال کے لئے تیار شدہ تھیراپھینک فوڈ آئرن فولک ایسڈی ڈی دار منگل بیلٹس اور سیف ڈلیوری کٹ بھی آؤٹ پیشنٹ تھیراپیوٹک سائٹ پر فراہم

کی گئی ہیں۔

* 7995 گھروں کو 5 بکریاں اور 10 مرغیاں دی گئی ہیں۔ 55 مچھلی کے تالاب تعمیر کئے گئے ہیں۔ زراعت سے منسلک نوکری کے دوران تربیت کے لئے 200 فارمز فیلڈ اسکولز قائم کئے گئے ۔ 555 بین گارڈن آزمائشی طور پر دکھائے گئے ہیں۔

* 2019-20 کے لئے ہم پرعزم ہیں کہ غذائی قلت پر قابو پانے کے لئے غذا کے معیار کی بہتری اور صحت کی دیکھ بھال کے حوالے سے کئی اہداف حاصل کریں گے۔

واٹرسپلائی، سیوریج اور سالڈ ویسٹ منجمنٹ:

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ صوبہ سندھ ملک کی سب سے زیادہ شہری آبادی والا صوبہ ہے۔ جس میں ملک کی 34 فیصد آبادی قیام پذیر ہے اس لئے واٹر سپلائی ،سیوریج اور سالڈ ویسٹ منیجمنٹ سروسز پر دباو بھی بہت زیادہ ہے ۔ صوبہ سندھ کی آبادی 47.886 ملین ہے اس لئے اس کی ضرورت 1538MGD صاف پانی کی ضرورت ہے۔ اس وقت 1076.6MGD پانی فراہم کیا جارہا ہے جبکہ 30 سے 40 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ اور اس کی وجہ انفراسٹرکچرکی کمی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ مالیاتی سال 19-2018 میں سندھ حکومت نے 37.73 ارب روپے کی لاگت سے فراہمی آب اور سینیٹیشن کی 267اسکیمیں شروع کی گئیں جس میں سے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اور بلدیات کی 27اسکیمیں مکمل کی گئی ہیں۔ رواں مالیاتی سال کمی کے سبب ان منصوبوں پر اخراجات کم کئے گئے اور 15.90 ارب روپے جاری کئے گئے جن میں سے جون 2019 تک 7.87 ارب روپے خرچ کئے جا سکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مالی سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام 20-2019 (ADP) میں حکومت نے 35.90 ارب روپے رکھے ہیں ۔ یہ رقم گذشتہ مالی سال کے مقابلہ میں کچھ کم ضرور ہے لیکن اے ڈی پی کے حصہ میں کافی بہتر ہے۔لیکن منصوبہ ہے کہ 372 اسکیموں میں سے کم از کم 218 منصوبے مل کئے جائیں گے۔

* پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی جانب سے 20-2019 کے مالیاتی سال کے لئے 22.95 ارب روپے کی لاگت کے 13 منصوبے شروع کرنے کے لئے 6.25 ارب روپے رکھے ہیں ۔ نہروں اور دریاؤں میں سیوریج کے پانی کے اخراج کی روک تھام کے لئے 3.57 ارب روپیش کئے گئے ہیں۔

* غیر فعال واٹر سپلائی اسکیموں کی بحالی کے لئے فیز 2 میں 4.01 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

ترقی نسواں، اقلیتوں کو با اختيار بنانا:

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا ہے کہ وہ قوم اپنی بقاء اور ا یک کر کے کیا کہ جس قوم میں خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل نہ ہوں ۔ کوئی بھی بند و باید تواتین کی شمولیت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ دنیا میں یہ مثال کامیاب ہے، معاشرےمیں خواتین کے سماجی کردار کو اجاگر کیا ہے۔ ہم نے بھی اپنے رہنما کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خوااتین کی فلاح و بہبود کے لئے اہم اقدامات اٹھائے ہیں ۔ جو کہ خواتین کو سماجی اور اقتصادی طور پرمضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوں گے اس سلسلہ میں اہم قانون سازی بھی کی گئی ہے جن میں ہراساں کرنا،کم عمری کی شادیاں اور عورتوں پر گھریلو تشدد کی روک تمام شامل ہیں۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ اسی طرح اقلیتی برادری کے متعلق قائداعظم محمد علی جناح، شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بینظیر بھٹو کی پالیسی کے مطابق اقدامات کئے گئے ہیں ۔ ہم نے اپنے دور حکومت میں اقلیتوں کی بھلائی اور نچلے طبقے کے لئے گرانٹ بھی دی ہے اس کے ما دور اقلیتوں کے لئے اسکالر شپ اور علاج معالجہ کے لئے مالی امداد بھی فراہم کی جاتی ہے۔ اسپیشل افراد بھی اس معاشرہ کا اہم حصہ ہیں جن پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے اس ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایسے افراد کےمسائل کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے ہیں اس سلسلہ میں گذشتہ سالوں میںمتعدد منصوبوں عمل کئے گئے ، اور دو سالوں میں ان اداروں کو مزید بہتر بنایا جائے گا ۔ ہماری ذمہ داری کا اندازہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے معذوروں کی بھلائی کے لئے ایک الگ محکمہ قائم کیا ہے تا کہ حکومت ایسے افراد پر خصوصی توجہ دے سکے۔

روڈ سیکٹر:

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ عالمی معیار کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں سڑکوں کی موجودگی کا مطلوبہ معیار 4 کلومیٹر فی ایک اسکو ائر کلومیٹر ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ معیار 0.5 کلومیٹر فی اسکوائر کلومیٹر ہے۔ انھوں نے کہا کہ سندھ میں 18-2017 تک سڑکوں کی لمبائی 41 فی اسکوائر کلو میڑ تھی جو کہ مطلوبہ عالمی معیار سے کم ہے۔ اس لئے سندھ میںروڈز کا مطلو بہ معیار حاصل کرنے کیلئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام 19-2018 میں 559 تر قیا تی منصوبے شامل تھے۔ جس میں لوکل گورنمنٹ کے تحت روڈ سکھر کے 210 منصوبے شامل تھے۔ ان ترقیاتی اسکیموں پر لوکل گورنمنٹ اور ورکس اینڈ سروسز نے کل 28 ارب روپے مختصکیے ہیں اور 182 جون 2019 تک مکمل ہونے کی امید ہے ۔ اس سلسلے میں درج ذیل نمایاں سنگ میل عبور کئے ہیں:

* 40.62 کلومیٹر روڈ کی کشادگی اور مرمت۔

* شکار پور ، لاڑکانہ، خیر پور حصری شہید ہ کی آ باد، جامشورو اوردادو میں پلوں کی تعمیر

*جیکب آباد میں جیل چا نک ( ریلوے کراسنگ پر بلاول بھٹو زرداری فلائی اوور کی تعمیر

*23.33 کلو میٹر گڑھی یاسمین ضلع شکار پور تا گڑھی خیرضلع جیکب آباد تک لکیر تھر کینال سے متصل سڑک کی تعمیر۔

*ضلع ٹنڈ ومحمد خان میں 22 کلومیٹر سڑکوں کی تعمیر اور بہتری

*جام شورو میں ریلوے کراسنگ پرفلائی اور کی تعمیر

مالی سال 20-2019 میں محکمہ ورکس اینڈ سروسز اور لوکل گورنمنٹ کیلئے کل 431 ترقیاتی منصوبوں کیلئے 26.86 ارب روپےمختص کئے گئے ہیں۔ یہ دونوں کے 192 منصوبہ پرعمل کریں گے ، جس میں اہم منصوبے درج ذیل ہیں:

ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے سندھ پراشل روڈ سیکٹر پر دو منٹ پروجیکٹ کے تحت 328 کلومیٹر سڑکوں کی تعمیر کی جائے گی ۔ جس پر 22.75 ارب روپے لاگت آئے گی ۔ اس پروجیکٹ میں مندرجہ ذیل سڑکیں شامل ہیں۔

*449 کلومیٹر غل تا کندھ کوٹ روڈ کی تمیر

*361 کلومیٹر شیراں پور تارتو ڈیر ور وڈ

*63 کلومیٹر براستہ سندھڑی سانگھڑ تامیر پور خاص روڈ

*66 کلو میٹر ٹنڈو محمد خان تا در این روڈ

*554 کلومیٹر ڈگری تا نوکوٹ روڈ

*647 کلو میٹر براستہ ٹنڈو آدم خیبرتا سانگھڑ

*134 کلومیٹر سٹیل ملا کر پھاٹک دوطرفہ کیرج وے کی بحالی

توانائی:

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ میرے لئے باعث مسرت ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے انفرا اسٹرکچر اور خدمات کی فراہمی کے شعبوں میں پچھلے سالوں میں کی گئی طویل مدتی سرمایہ کاری کے خاطر خواہ نتائج موصول ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جس میں تعلیم ، صحت ، توانائی ، روڈسیکٹر سمیت تمام شعبہ جات شامل ہیں ۔ میں بالخصوص تھر کول مائننگ اور بجلی کے منصوبوں کی افادیت کا ذکر کروں گا ۔ جن سے رواں سال نیشنل گرڈ میں 660 میگا واٹ اسمبلی شامل کی گئی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے منصو بہ کا افتتاح کرتے ہوئے تھر پاور پلانٹس کو ملک کا کامیاب ترین منصوبہ قرار دیا جس کا تصورشہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے دیا تھا۔ جن کا یقین تھا کہ تھر کا کوئلہ پورے پاکستان کی بجلی کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ تھر کول منصوبہ نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان میں سابی ترقی کے نئے دور کا آغاز ثابت ہوگا بلکہ اس سے ملک کے دیرینہ مسئلے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا بھی خاتمہ ہو گا۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ شعبہ توانائی کے لئے آئندہ مالی سال 20-2019 میں غیر ترقیاتی بجٹ 23.883 ارب

سےبڑھا کر 24.920 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ حقیقت ہے کہ پاکستان کے توانائی کے اہم ماخذ سندھ کے پاس ہے۔ تھرکول سے روایتی توانائی اور بجلی، جبکہ قابل تجدید ( ری نیوئیل ) توانائی ملک کے مخلو ط توانائی کی صلاحیت میں اضافہ کرنے اور ملک کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ محکمہ توانائی نے متعدد گاؤں کوبجلی اور گیس کی فراہمی میں معاونت کی ہے ۔ مالی سال 19-2018میں گاؤں اور اسکولوں کو قابل تجدید توانائی کی فراہمی کے منصوبے مکمل کئے گئے ہیں ۔ اس مالی سال سند ھ حکومت نے حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (حسیکو ) سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (سیپکو ) اور کے الیکٹرک کے ساتھ بجلی کے کنکشن کے معاملے پر مشاورتی عمل سے اربوں روپے کی بچت کی ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں 590 ملین روپے بجلی کی فراہمی کی اسکیموں کیلیے ختم کئے گئے ہیں اور مندرجہ ذیل نمایاں سنگ میل حاصل کرنے کی حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے:

* جون 2020 تک 570 گاؤں کو بجلی فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

*248 بنیادی صحت کے مراکز کو سولر پی وی ٹیکنالوجی کے ذریعے بجلی فراہم کی جائے گی۔

*عالمی بینک کے تعاون سے آن گرڈ سی پلیٹوں کے ذریعے 420 میگا واٹ بجلی کی فراہمی کی جائے گی ۔ اور اس پروجیکٹ کے تحت دیہی علاقوں میں 2 لاکھ گھروں کو سولر ہوم سسٹم فراہم کیا جائے گا۔

آبپاشی:

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ملک کو پانی کی قلت کا سامنا ہے جبکہ سندھ ٹیل اینڈ پر واقع ہونے کی وجہ سے پانی کے شدید بحران کا سامنا کر رہا ہے جبکہ سندھ میں 73 فیصد زیر زمین پانی کھارا ہے ۔ جبکہ یہ ایک لاکھ چونتیس ہزار کیوسک پانی مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آبپاشی نظام کے ڈھانچے کا بڑا حصہ 5 عشروں سے بھی ز یادوقدیم ہے جس کی دیکھ بھال اور فعال رکھنے کیلئے مستقل اخراجات کی ضرورت ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال 20-2019 میں پائی کے شعبہ کے غیر ترقیاتی بجٹ 22.744 ارب روپے سے بڑھاکر 23.070 ارب روپے کر دی گئی ہے۔ پانی کی کھپت کے تناظر میں حکومت سندھ نے پانی کی فراہمی کی منصوبہ بندی کی ہے جس کے تخت از مبانی کے شائر کی بحالی ، چھوٹے ڈ یموں کی تعمیر اور پانی کی زیاد ہ دستیابی کو یقینی بنانے کیلئےاقدامات شامل ہیں ۔ اس سے پانی کی ترسیل کے نقصا ن کو کم کیا جا سکے گا اور تقر یا 950 کیوسک پانی کی بچت ہو سکے گی جس سے 2 لاکھ 85 ہزار 3 و71 ایکڑ نئ بارانی زمین سیراب ہو سکے گی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اختتام پذیر ہونے والے مالی سال 19-2018میں پانی کے شعبہ کیلئے 33 ارب رو پے مختص کئے گئے تھے تاہم 221 ارب روپے جاری کئے جا سکے۔ محکمہ آبپاشی 03 جون 2019 تک 18.6 ارب روپے خرچ کر سکا ۔ جس کے تحت 56 کیس میں مکمل کی گئیں۔ ان اسکیموں میں درج ذیل بڑی بستی میں شامل ہیں:

*911.924 ملین روپے کی لاگت سے ضلع بدین میں نکاسی آب کی اسکیمیں

*کشمور میں 1.37 ارب روپے کی لاگت سے بی ایس فیڈر پر ریگولیٹ کی بحالی

*1.2 ارب روپے کی لاگت سے ضلع میر پور خاص میں پران ڈسٹری کی لائینگ۔

*2.28 ارب روپے کی لاگت سے ضلع حیدرآباد میں فرنٹ پر یشن بند کی مرمت

*695.4 ملین روپے کی لاگت سے میر پور خاص میں نجی سر برانچ کی لائٹنگ

*926.8 ملین روپے کی لاگت سے کشمور میں سیلاب سے تحفظ کے منصوبے

*519.6 ملین روپے کی لاگت سے ضلع سجاول میں ستارح برانچ کی لائننگ

*1.03 ارب روپے کی لاگت سے ضلع دادو میں شاخوں کی لائنگ

*877 ملین روپے کی لاگت سے وسطی کوہستان میں ریچارج ڈیموں کی تعمیر

*294.2 ملین روپے کی لاگت سے کراچی میں دو ڈیموں کی تیر

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آبپاشی شعبہ کیلئے سالانہ ترقیاتی پروگرام 20-2019 کی جاری 200 اسکیموں اور 65 نی اسکیموں کیلئے 22 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں محکمہ آبپاشی نے درج ذیل اہم اقدامات اٹھانے کی منصوبہ بندی کی ہے:

*11.5 ارب روپے کی لاگت سے 163 اسکیمیں مکمل کی جائیں گی۔

*گڈو بیراج کی بحالی کا کام جاری ہے۔

* عالمی بینک کے تعاون سے سکھر بیراج کی بحالی اور تبادل کیلئے کام کا آغاز کیا جارہا ہے۔

*1.537 ارب روپے کی لاگت سے میر پور خاص میں نوکوٹ برانچ سٹم کی لائنگ

*1 ارب روپے کی لاگت سے ضلع خیر پور میں سولر ٹیوب ویلز کی تنصیب

*800 ملین روپے کی لاگت سے تھر کے علاقہ عمر کوٹ میں پینے کے پانی کی اسکیم

*834.2133 ملین روپے کی لاگت سے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کی اسکیمیں

سرمایہ کاری:

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت صوبے میں سرمایہ کاری کے فروغ اور سرمایہ کار دوست ماحول کے قیام کیلئے بھر پور اقدامات کررہی ہے تا کہ معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے اور معیشت کے تمام شعبوں میں ویلیو ایڈیشن کو فروغ دیا جا سکے۔ اس سلسلے میں پیک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی حوصلہ افزائی کیلئے اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔ سندھ حکومت نے ایز آف ڈوئنگ بزنس( Ease of Doing Bussines ) کے تحت تجارت کرنے کے نظام کو آسان سازگار ماحول کے قیام اور اس سلسلے میں قواعد کو بنایا گیا ہے ۔ ڈوئنگ بزنس رپورٹ 2019 میں 190 ممالک میں پاکستان کو 136 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے جبکہ سال 2018 کی رپورٹ میں پاکستان 147 نمبر پر تھا ۔ جس میں 11 در جوں کی بہتری آئی ہے ۔ مالی سال 2019-20 میں محکمہ سرمایہ کاری کی جانب سے درج ذیل اقدامات کیے جائیں گے۔

ایجوکیشن سٹی:

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 8900 ایکڑ پر محیط سندھ ایجو کیشن سٹی منصوبہ سندھ حکومت کے ترجیحی منصوبوں میں شامل ہے۔ ایجوکیشن سٹی میں 20 مقامی اور عالمی اداروں کے لئے کیمپس کے قیام کیلئے ار اضی مختص کی گئی ہے۔ کچھ اداروں نے کیمپس کے قیام کیلئے تفصیلی ڈیزائن کا کام مکمل کر لیا ہے۔ سندھ حکومت ایجوکیشن سٹی کے ماسٹر پلان کو مکمل کر لیا ہے جبکہ پہلے مرحلے میں انفراسٹرکچر کی بہتری کے کام کا آغاز آئندہ سال کیا جائے گا یہ منصوبہ پانچ سال میں مکمل کیا جائے گا اس پر لاگت کا تخمینہ 13.9 ارب روپے لگایا گیا ہے۔

ماربل سٹی

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ماربل سٹی کراچی میں سرمایہ کاروں کیلئے سر مایہ کاری کے بہترین مواقع موجود ہیں ماربل سٹی کی منصوبہ بندی نادرن بائی پاس سے ملحقہ 1300 ایکڑ اراضی پر کی گئی ہے۔ اس پروجیکٹ کے پہلے مرحلے کا آغاز آئندہ سال کیا جائے گا جس پر 2400 ملین روپے لاگت آئے گی اور یہ مرحلہ 5 سال میں مکمل کیا جائے گا۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ دنیا بھر میں اسپیشل اکنامک زونز کی شاندار کامیابی کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے اپیل اکنامک زون ایکٹ 2012 کی منظوری دی ۔محکمہ سر مایہ کاری سندھ میں اسپیشل اکنامک زونز کی نگران اتھارٹی ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت پاکستان نے تین زونز کو اسپیشل اکنامک زون کا درجہ دینے کی منظوری دی ہے جو کہ تمام سندھ میں واقع ہیں جن میں خیر پور اسپیشل اکنامک زون ، بن قاسم انڈسٹریل پارک اور کورنگی کر یک انڈسٹر ی پارک شامل ہیں۔ انھوں نے کہاکہ اس کے علاوہ مزید ایک اور اسپیشل اکنامک زون کے قیام کی منظوری دی گئی ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہے۔

دھابیجی اسپیشل اکنامک زون:

سندھ حکومت نے ضلع ٹھٹھہ میں دھانی اسپیشل اکنامک زون کے قیام کیلئے 1530ایکڑ اراضی مختص کی ہے۔یہ منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری

(CPEC) کے تحت ترمیمی منصوبوں میں شامل ہے۔ بی زون چین اور دیگر ممالک کے ملکی سرمایہ کاروں کو انٹر پرائز کے قیام یا اپنے کاروبار پاکستان منتقل کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔

سندھ انٹر پرائز ڈیولپمنٹ فنڈ (SEDF)

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت نے زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے سندھ انٹر پرائز ڈیولپمنٹ فنڈ قائم کیا ہے جس کے ذریعہ انٹر پر نیوریل کی اہلیت اور زرعی معیشت کو زیادہ سے زیادہ فروغ حاصل ہوا ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ ایس ای ڈی ایف ای نے بھی شعبے میں زرئی کاروبار کو بڑھانے کیلئے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے اور اس شعبے میں 9 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جس میں سے 4 ارب روپے کے منصوبوں پرعمل درآمد کمل ہو چکا ہے جبکہ 5 ارب روپے کے منصوبے جاری ہیں اس سال سندھ حکومت نے چاول کی برآمدات کو بڑھانے کیلئے مالی تعاون کی مد میں 442 ملین روپے رکھے ہیں اس کے علا وہ خواتین کی انٹر پرونیو ئل شپ ، ہنر مند اور کاشتکاروں کی مالی امداد کیلئے 55 ملین روپے اور کپاس کے شعبے میں پیداوار بڑھانے اور بھی شعبے کے ذریعے سرمای کاری میں اضانے کیلئے 240 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ محکمہ سر مایہ کاری سندھ بیرونی امدادی اداروں کا تعاون حاصل کرنے کے لئے پرعزم ہے اور اسکے لئے وہ دن رات کوشاں ہے ۔ اس وقت کراچی میں ٹیکنالوجی پارک قائم کر نے پر غور کیا جارہا ہے جو کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا پہلا منصوبہ ہوگا جس کے ذریعہ بیرونی سرمایہ کاروں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لئے ترغیب دی جا سکے گی ۔ سالانہ ترقیاتی منصوبے اور ایل اکنامک زون صوبے میں اقتصادی ترقی کیلئے اہم کردار ادا کریں گے اس کے ساتھ ساتھ اس سال کے بجٹ میں سرمایہ کاری کے مکے کیلئے بڑا حصہ رکھنے سے صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا جس کے ذرلیے ہم صوبے میں مزید سرمایہ کاری کے منصوبوں کو تجویز کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔

شہری ترقی:

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ حکومت اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہے کہ صوبہ کی متوازن ترقی کیلئے نا صرف شہری ترقی کے ذریعے کراچی شہر میں انفرا اسٹرکچر کی خامیوں پر توجہ دینی پڑے گی، بلکہ اس کے ساتھ صوبے کے دیگر شہروں کے بنیادی ڈھانچوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا پڑیگا۔ اسی سوچ کے تحت سندھ حکومت نے کراچی ڈائیگنو سنیک اسٹڈی مکمل کرائی ہے جس کے ذریے مستقبل میں کراچی کے بنیادی ڈھانچے اور قومی اور صوبائی ترقی میں اسکے کردار میں اضا نے کیلئے کراچی ٹرانسفارمیشن اسٹراٹیجی طے کی جائے گی اس حکمت عملی کے نتیجے میں میونسپل سروسز ڈیلیوری ، اربن ٹرانسپورٹ ، امیر و وڈ اربن اسپیس اینڈ کنڈ یو سو بزنس انوائرمنٹ جیسے منصوبے شروع کئے گئے دوسری جانب لاڑکانہ سکھر، حیدر آباد کی ترقی کے لئے حکمت عملی بنائی گئی ہے۔ اس تناظر میں انفراسٹرکچر اور اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ ان شہری اور مضافاتی علاقوں میں ماحولیاتی بہتری پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 14 ضلعی ہیڈ کوارٹرز کے ماسٹر پلان تیار کر نے کا ہدف طے کیا گیا ہے، جسکے ذریعے ہی آئی ایس ڈیٹا میں نقشہ سازی، زمین کے بہتر استعمال کیلئے طویل مدتی ترقیاتی حکمت عملی ، زون کا قیام، اقتصادی ترقی کم مدتی کے تر جیاتی انفرا اسٹرکچر کی تر قی سمیت تجویز کردہ منصوبوں پر خاص توجہ دی جائے گی۔ سندھ حکومت نے تھر فاؤنڈیشن کے ساتھ اسلام کوٹ ٹاؤن کے ماسٹر پلان کی تیاری کے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے ہیں جس سے اسلام کوٹ تعلقہ ملک میں پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) کا درجہ حاصل کرنے میں مدد ملے گی ۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی کی ترقی کیلئے سندھ حکومت بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہے جس میں ہر سال تیزی سے اضافہ کیا جارہا ہے، آئندہ مالی سال کیلئے حکومت درج ذیل منصوبوں پر ترجیحی بنیادوں پر کام کر یگی۔

*اہم نکاسی آب کیلئے 36.11 ارب کی لاگت سے شروع کئے گئے ایس تھری منصو بہ جس پر گزشتہ ایک دہائی سے عملدرآمد ہورہا ہے جو کہ بنیادی طور پر وفاقی حکومت کے 50 فیصد تعاون سے مل کیا جانا تھا لیکن بد مستی سے سال 20-2019 کے پی ایس ڈی پی سے وفاقی حکومت نے اس منصوبے کو خارج کر دیا ہے اور اس کا سبب بتایا گیا ہے کہ ا کینک (ECNEC)میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ وفاقی حکومت صرف اصل لاگت 7900 ملین روپے کا 50 فیصد ادا کریگی اور اس طرح وفاقی حکومت نے کل 36.11 ارب روپے میں سے صرف3.9 ارب روپے کی زمہ داری لی ہے۔

*سندھ حکو مت اس منصوبے کو پورا کرنے کیلئے پرعزم ہے اور اسی لئے لیاری ندی کے علاقے میں کام تیزی سے جاری ہے شہر کے 77ایم بی ڈی سیور کے پانی کو صاف کرنے کے لئے ماڑی پور میں ٹریٹمنٹ پلانٹ کی ٹی پی تھری ( TP-III ) کو بحال کیا گیا ہے اور وہ اب بھی مکمل فعال ہے ہارون آباد کے نزدیک ٹریٹمنٹ پلانٹ پر رواں سال دسمبر میں کام شروع کیا جائے گا جس کے بعد اس کی صلاحیت 100 ایم بی ڈی سے بڑھ کر 177 ایم بی ڈی ہو جا ئیگی اس کے ساتھ ساتھ لیاری کے علاقے میں 33.32 کلومیٹر پر محیط گندے نالے میں سے 28 کلومیٹر پر جولائی 2019 تک کا مکمل ہو جائے گا۔ ملیر کے گندے نالے اور 180ایم بی ڈی کی صلاحیت رکھنے والے کورنگی ٹریٹمنٹ پلانٹ ٹی پی فور پر بھی 20-2019 کے دوران کام شروع ہو جائیگا اس سلسلے میں سندھ حکومت نے سالانہ ترقیاتی پروگرام 20-2019 میں 5 ارب روپے رکھے ہیں۔

*وفاقی حکومت کی جانب سے 33 فیصد مالی تعاون کے 25.55 ارب روپے کے 4-Kکے میگا پروجیکٹ پرعملدرآمد کیا جارہا ہے وفاقی حکومت نے 50 فیصد مالی تعاون کی مد میں 6.99 ارب روپے فراہم کئے ۔ سندھ حکومت نے 7.96 ارب روپے جاری کئے اور وہ خرچ کئے جا چکے ہیں اس وقت یہ منصوبہ نیسپاک(NESPAK) کے پاس ڈیزائن اور لاگت و جائزہ کیلئے موجود ہے۔

* حکومت کی جانب سے 11.8 ارب روپے کی لاگت سے شروع کئے گئے کمبائنڈ ایفلو ٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ پر جون 2019 تک 582.4 ملین روپے خرچ ہو چکے ہیں وفاقی حکومت نے اس منصوبے کے لئے500 ملین روپے جبکہ سندھ حکومت نے آئندہ مالی سال 20-2019 میں 2 ارب روپیش کئے ہیں۔

سندھ حکومت گزشتہ تین سال میں (17-2016 سے 19-2018 تک ) کراچی شہر کے میگا پروجیکٹ پر 29ارب روپے خرچ کئے ہیں اس سے کراچی شہر کے 19 بڑے منصوبے مکمل کرنے میں مدد لی ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام 20-2019 کیلئے سندھ حکومت نے 36ارب روپے رکھے ہیں اس کےساتھ ساتھ حکومت نے بین الاقوامی ترقیاتی پارٹنرز سے پانچ سالوں کے کرنے کیلئے انتہائی تری کے شعبہ جات میں 1.5 ارب ڈالرز (226ارب روپے کی سرمایہ کاری کے معاہدے کئے ہیں۔

کرا چی نیبر ہڈ امپروومنٹ پروجیکٹ KARACHI NEIBHOURHOOD IMPROVEMENT PROJECET، 98 ملین ڈالرز کی لاگت سے شروع کئے گئے منصوبے کا مقصد عوامی مقامات کی تزئین آرائش شہر کی سڑکوں کی بہتری اور کاروبار میں آسانی پیدا کرنا شامل ہے ۔ اس پروجیکٹ پر پہلے ہی کام جاری ہے۔

کراچی شہر کی لوکل کونسلز میں ادارہ جاتی استعداد کار میں اضافہ اور انفراسٹرکچر کی بہتری کیلئے 240 ملین امریکی ڈالر کی لاگت سے کومپٹیٹو اینڈ لائیو ا یبل سٹی آف کرا چی ( COMPETATIVE AND LIVEABLE CITY OF KARACHI) منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس کے ذریعے جائیداد ٹیکس کے نظام میں اصلاحات اور کاروباری مواقعوں میں اضافہ ہوگا۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو مستحکم بنانے کیلئے عالمی بینک کے تعاون سے کثیر الجہتی اصلاحاتی پروجیکٹ شروع کیا گیا ہے جس کی لاگت 105 ملین ڈالر ہے۔

پی آرٹی بلو لائن

438 ملین ڈالر کی لاگت سے شہر کے لئے ایک اور ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں میگا پراجیکٹ ہے۔

بی آرٹی ریڈلائن

کراچی شہر میں اہم ٹرانسپورٹ کوریڈور قائم کرنے کیلئے ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے 561 ملین ڈالر کی لاگت سے یہ منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس پرعملدرآمد کیا جائیگا۔

زراعت:

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ زراعت ملکی اقتصادیات میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے اور ملک کی 42.3 فیصد افرادی قوت کو روزگار کے مواقع پیدا

کرتی ہے اس کے علاوہ ملک کےجی ڈی پی میں 18.9 فیصد حصہ فراہم کرتی ہے ملک کے کل چاول کی پیداوار میں سندھ کا حصہ 36 فیصد، گنے کی پیداوار میں 29 فیصد، کپاس کی پیداوار میں 34 فیصدجبکہ گندم کی پیداوار میں 15 فیصد حصہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ جون 2019 تک مالی سال 19-2018 میں محکمہ نے جاری کئے گئے 1.74 ارب روپے میں سے 893.4 ملین روپے خرچ کئے گئے سالانہ ترقیاتی پروگرام 20-2019 میں اس کے کے لئے 8.4 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جس میں بیرونی تعاون کے 4.7 ارب روپے بھی شامل ہیں ۔ آئندہ مالی سال میں یہ امید کی جارہی ہے کہ درج ذیل اہداف حاصل کئے جائیں گے۔

* سندھ ایریگیڈ ایگری کلچر ر پرو ڈکٹیوئی انہانسمنٹ پروجیکٹ ( SINDH IRRIGATED AGRICULTURE PRODUCTIVITY ENHANCEMENT PROJECT( (SIAPEP) کے ذریعے 1850 واٹر کورسز کی لاٹنگ کرنا۔

*کاشتکاروں کو 400 تھریشر ،400 روٹا ویٹرز ،400ز پروٹان ،500 آٹو لوڈرز،20000 یا ور اسیرئرز اور 500ڑ یکٹر ٹرالیاں فراہم کر نے کیلئے سبسڈی دینا۔

*دو و لاکھ میٹر آن فارم ڈراسٹرکچر فراہم کئے جائینگے ، ایک لاکھ پچیس ہزار میٹر ز اراضی کو ہموار کرنے کے لئے مشینری اور 150ایکٹرز مین کیلئے ہائی ٹنل فارمنگ اور 850 کاشتکاروں کو ڈرپ اریگیشن کی فراہمی شامل ہیں۔

لائیواسٹاک اینڈ فشریز:

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ دیہی علاقوں کی سماجی و معاشی ترقی میں لا ئیواسٹاک کا شعبہ اہم کردار کا حامل ہے ۔ پاکستان میں -18 2017 میں نیشنل جی ڈی پی میں 11.1 فیصد اور ویلیوایڈیشن میں 58.9 فیصد کی شراکت داری اس شعبہ نے کی دیہی آبادی کو بڑے پیا نے پرمتحرک کرنے کیلئے یہ ایک محنت طلب کام ہےاور آمدنی حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہے اس کے علاوہ غربت میں کمی کرنے اور دیہی علاقوں میں گھر میں رہتے ہوئے ذرائع آمدنی بڑھانے کیلئے اس شعبہ کا کردار بہت اہم ہے۔ انھوں نے کہا کہ 2018-19 ADP کے تحت 46 اسکیموں کے ساتھ اقدامات اٹھائے گئے تھے ۔ اس نئے منصوبہ کا آغاز کرنے کیلئے 652.5 ملین روپے جاری کئے گئے تھے جس میں سے 310.8 ملین روپے خرچ کئے گئے جو بڑی کامیابیاں سال 19-2018 میں محکمہ کی جانب سے بڑی کامیابیوں کا ذکر درج ذیل ہے۔

*کسانوں کو بنیادی ویٹرنری کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے 23 ویٹرنری مراکز قائم کئے گئے ۔

*تین مصنوعی تخم ریزی کی موبائل نیس قائم کئے گئے۔

*ویکسین پراڈکشن یونٹ ٹنڈو جام کے قیام کی تیاری جس میں جانوروں میں نمونیا اور دوسری متعدی بیماریوں سے بچاؤ اور تدارک کیلئے ویکسین کی تیاری

*شکار پور اور نوشہرو فیروز میں 2 نت بچر کی کا قیام

*مچھلیوں کے ذخائر کو معدوم ہونے سے بچانے کیلئے بلیک واٹر میں 8 ملین سیڈ ڈالا گیا۔

سالا تر قیاتی پروگرام 20-2019 میں لائیو اسٹاک اور فشریز کیلئے 2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور توقع کی جاتی ہے کہ محکمہ لائیواسٹاک اینڈ فشریزاپنی 20 اسکیموں کو اس تم سے مکمل کرے گا۔

موسمیاتی تبدیلیاں اور جنگلات:

مراد علی شاہ نے کہا کہ اس صدی میں ہمارے کرہ ارض کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے جس کا ایک بڑا سبب جنگلات کی کٹائی ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار دنیا کے ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تغیرات کا سامنا کررہے ہیں کئی سالوں سے درختوں کی کٹائی نے ہمارے جنگلات کے دو فیصد رقبے کوبنجر علاقے میں تبدیل کردیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ محکمہ جنگلات وجنگلی حیات کو مالی سال 19-2018میں 750.0 ملین روپے دیئے گئے جس میں سے 381.2 ملین روپے جاری کئے گئے ۔ جون 2019 تک 316.4 ملین روپے خرچ کئے گئے ۔ سندھ کی ساحلی پٹی میں

جنگلات کی شجر کاری کی گئی جو کہ تقریب 50.000 ایکڑ کے رقبہ پر محیط ہے محکمہ اب اس قابل ہے کہ اتنی بڑی کامیابی کا سنگ میل عبور کیا۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ مالی سال 20-2019 کیلئے ایک ارب روپے محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کیلئے مختص کئے گئے ہیں محکمہ کا اگلا نقطہ نظر شجر کاری ہوگا اور 20000ایکڑ کے رقبہ پر شجرکاری کی جائے گی ۔ 180000 ایکڑ رقبہ کے کچھ علاقے میں جنگلات کی دوبارہ بحالی اورشجر کاری کے علا وہ 600 کلو میٹر سڑکوں اور نہروں کے کناروں پر 40 ملین پودے لگائے جائیں گے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ اگلے مالی سال میں جنگلات کے شعبہ میں دو بڑے منصوبے شامل کئے گئے ہیں ۔

* پر سرسبز پروگرام پاکستان کے تحت ایک ارب درخت لگائے جائیں گے جس کا 50 فیصد حکومت پاکستان اور بقیہ 50 فیصد حکومت سندھ کے تعاون سے ہوگا جو کہ پانچ سال کے عرصہ پر محیط ہے۔

* سندھ کو سر سبنر اور ماحول دوست بنانے کیلئے سر سبز سندھ پروجیکٹ کے تحت اگلے پانچ سالوں میں 100 ملین درختوں کیلئے شجر کاری کی جائے گی محکمہ جنگلات 200,000 درختوں کی شجر کاری کا ہدف مال سال 20-2019 میں حاصل کرے گا۔

فلاحی اقدامات:

براہ راست کریڈٹ سسٹم (Dcs) کے تحت 100 فیصد پنشنروں کو پنشن کی ادائیگی

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ محکمہ خزانہ نے پنشن کی ادائیگی کے پرانے طریقہ کار کو تبد یل کرتے ہوئے ڈائریکٹ کریڈٹ سسٹم DCs منتقل کر دیا اس اہم سنگ میل کو سندھ حکومت نے عبور کرتے ہوئے حکومت پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اب حکومت سندھ تمام 200,667 پنشنرز کو ان کے بنک اکا ئنٹ میں براہ راست ماہانہ پنشن کی ادائیگی کرے گی۔ اب تمام پینشنر ز کو بغیر کسی پریشانی کے عزت و احترام کے ساتھ ان کی دہلیزپر پینشن فراہم کی جائے گی۔ پرانے پنشنروں کی بذریہ چیک ادائیگی کو تبد یل کرتے ہوئے SAP سسٹم کے تحت تمام اقسام کی پنشنز کی ادائیگی اب آن لائن پیمنٹ کے ذریعے براہ راست ان کے بنک اکاؤنٹ میں کی جائے گی۔

عوام کو نقد رقم کی ادائیگی:

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ بینظیرانکم سپورٹ پروگرام ہماری قیادت کا وژن تھا۔ حکومت سندھ نے ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور معاشی دبائو کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے نقد ادائیگیوں کی اسکیم کا آغاز کیا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران 4.2 ارب روپے غریب طبقہ جس کی نشاندہی بے نظیر انکم سپورٹ میں کی گئی ہے کونقد ادائیگیاں کی جارہی ہیں ۔ آئندہ مالی سال میں بھی 4.2ارب روپے ادا کئے جائیں گے۔ اب اس مقصد کے تحت صاف شفاف اور موثر طریقے سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے رجسٹرڈ انتہائی ضرورت مند افراد میں رمضان عید، متفرق ریلیز کی مد میں 2 ہزار روپے نقد ادا کئے جا رہے ہیں اس سلسلے میں مالی سال 19-2018میں4.2 ارب رو مختص کئے گئے تھے۔

یونیورسل ایکریٹل انشورنس اسکیم:

زندگی قیمتی ہے اور ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ یہ ہماری ذمہ داری میں شامل ہے کہ زندگی کو محفوظ بنایا جائے۔ ہمیں بھی نقصان کا بے حد افسوس ہوتا ہے۔ بالخصوص حادثاتی اموات ہم سب کے لئے باعث تشویش ہیں ۔ ہم اپنے تصور کو مزید محفوظ بنانے کے لئے اور حادثات سے محفوظ بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ حادثات میں قیمتی جانوں کے ضیاع کی صورت میں معاوضہ کی ادائیگی کے لئے ہم نے یونیورسل ایکسیڈنٹ اسکیم کا آغاز کیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت حادثاتی موت کی صورت میں متاثرہ فرد کے لواتین کو ایک لاکھ روپے ادائیگی کی جارہی ہے ۔ اس اسکیم کے لئے ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

اے ون گریڈ حاصل کرنے والے طلباء کے لئے اسکالرشپ:

میٹرک اور انٹر میڈیٹ میں 1-A گریڈ حاصل کرنے والے تمام طلبا کو اس کا اسکالر شپ فراہم کی جارہی ہیں بی اسکالر شپ طلباء کی جانب سے اعلی گریڈ کے حصول کے لئے جد و جہد کی حوصلہ افزائی کے طور پر دی جارہی ہیں اور بی اسکالرشپ طلباء کے خاندان کی مالی حالت کو مدنظر رکھ کر دی جائے گی ۔ سندھ کے تمام تعلیمی بورڈز کے اے ون گریڈ حاصل کرنے والے طلبا کو فی کس مقررہ ایک لاکھ روپے کی رقم ادا کی جائے گی ۔ مستحق طلبا کی بڑی تعداد اس اسکیم سے فائدہ اٹھا سکے گی۔

رجسٹریشن اور امتحانی فیس کا خاتمہ:

سندھ میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ بورڈ ز میں رجسٹریشن اور امتحانی فیس کا خاتمہ اس اسکیم کے تحت میٹرک اور انٹر میڈیٹ بورڈ ز کی دونوں فیسوں کو ختم کر کے طالب علموں کو فائدہ دیا گیا ہے۔ یہ اسکیم مالی سال 2019-20 میں جاری رہے گی۔

ریلیف اقدامات:

اب میں آپ کو حکومت سندھ کی جانب سے مالی سال20-2019 کے دوران ووقتاً فوقتاً معاشرے کے مختلف طبقات بشمول حکومت سندھ کے ملازمین اور پنشنرزکور یلیف فراہم کرنے سے متعلق اقدامات کے بارے میں بتانا چاہوں گا۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ:

حکومتی کارکردگی کا تعلق براہ راست ہر ملازم کی کارکردگی سے ہے۔ میں تمام سرکاری ملازمین کا مشکور ہوں ۔ آئندہ مالی سال 20-2019 کے لئے تنخواہوں اور پنشن میں پندرہ فیصد ایڈ ہاک ریلیف کی صورت میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔

*حکومت سندھ نے گر یڈ 17 سے گر یڈ20 تک کے ڈاکٹرز کے لئے انہاس ہیلتھ پروفیشنل الائونس Enhanced Health Professional Allowance متعارف کرایا ہے۔

* محکمہ پولیس کے شہید ہونے والے اہلکاروں کے لواحقین کے لئے معاوضہ کو دوگنا کر کے اسے پانچ ملین روپے سے بڑھا کر دس ملین روپے کر دیا گیا ہے۔ اس طرح بجٹ 20-2019 میں اس مد میں 2 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں ۔

پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ یونٹ:

اس مقدس ایوان کے سامنے مجھے یہ بیان کرنے میں از حد مسرت و انبساط ہورہا ہے کہ بین الاقوامی جریدہ اکنامسٹ " کے اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ (EIU) نے اپنی رپورٹ انفرا اسکوپ 2018(Infrascop2018) میں ایشیائی ممالک کے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ PPP پروگرامز حکومت سندھ کو بھی بہتر ین (PPP) پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ یونٹ کے اعزاز سے نوازا ہے۔ اس تجزیاتی رپورٹ کے مطابق سترہ ممالک کے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پروگرام میں صرف دوعلاقے ہیں جن میں گجرات ( بھارت) اور سندھ (پاکستان ) کوخصوصی امتیاز حاصل ہے جو کہ ان کی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں بہترین کارکردگی کو بھی شمار کیا گیا ہے جس نے وفاقی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کونو میں سے تین درجہ سے مات دی ہے۔ یہ ان لوگو اس کیلئے ایک جواب ہے جو حکومت سندھ کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہیں۔ بین الاقوامی پر اعتراف کے بعد حکومت سندھ کی کارکردگی کو گواہ بنایا جا سکتا ہے جس نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ موڑ PPP Mode میں سو سے زیادہ صحت کی سہولیات کو فعال کیا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ تعلیم کے شعبہ میں سندھ میں 60,000 سے زائد طلباء پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ PPP کے پراجیکٹس میں اعلی معیار کی تعلیم

حاصل کر رہے ہیں جو کہ معروف آرگنائزیشن نے اسکولوں کو گود لیا ہے جس کی بنیاد سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن SEF ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ نجی شعبہ کی شراکت داری سندھ کے تعلیمی شعبہ کیلئے بہترین ماحول اور استعداد لاتی ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے بھی بے حد خوشی ہے کہ گھوٹگی ، کندھ کوٹ کے عوام کو ایک پل کی تعمیر کا تحفہ ملے گا۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ موڈ کے تحت 14 ارب روپے کی لاگت سے بہت جلد گھوٹگی ۔ کندھ کوٹ برج" کی تعمیر کا کام شروع ہوگا۔ اس کام کے آغاز میں تاخیر کی بنیادی وجہ اس مقام کا انتخاب تھا جو کہ ایک مشکل امر تھا۔ کئی ماہ کی تاخیر کی بنیادی وجہ اس مقام کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔ یہ اہم منصو بہ بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے مسافروں کیلئے خوشی اور ذرائع نقل وحمل کو سہل بنائے گا۔ جس کی تعمیر کے بعد وقت ، ایندھن اور فاصلہ کی بچت نمایاں طور پر سامنے آئے گی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ مزید برآں میں اہل کراچی کو یہ خوشی کی خبر ی سناتا چلوں کہ ہم "لیر ایکسپریس وے" کے نام سے ایک پیڑ اروڈ پراجیکٹ شروع کرنے جارہے ہیں اس پراجیکٹ کی مطالعاتی فزیبلٹی مکمل ہو چکی ہے اور بہت جلد ہم اسے پلک پرائیویٹ پارٹنر شپ موڑ کے تحت شروع کرنے جارہے ہیں اس کے علا وہ ایک " لنک روڈ" پراجیکٹ بھی M9 سے N5 تک ہیوی ٹریفک کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت اگلے سال شروع کیا جائے گا۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ہی فنڈز کی قلت پر قابو پانے کیلئے واعدل بچا ہے جو کہ شفافیت ، کارکردگی بھی سرمایہ کی ترسیل اور عدم ادائیگی کے خلاف ایک منظم شکل کی تخلیق ہے اور آگے جاتے ہوئے ہمارا ارادہ ہے کہ ہم ایک ایسا اسٹرکچرڈ مکینزم بنائیں جو بڑے انفراسٹر کچھ اور سوشل پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو ترقی دینے کے ساتھ اس کو مانیٹر بھی کریں تا کہ تم کی درست قد رحاصل کی جا سکے۔

حکومتی اصلاحات:

پبلک فنانشل مینجمنٹ (PFM) اصلاحات

پیک فنانشل مینجمنٹ ایک متوازی موضوع ہے جو کہ پبلک سروس ڈیلیوری اور معاشی ترقی پراثر پذیر ہو سکتا ہے ۔ اس کی شراکت داری بھی بطور فیشن کی جاسکتی ہے۔ حالیہ طور پر اہم کاوش جن کو فوکس کیا جا تا ہے۔ اداروں کی ترقی، قانون اور یو ای جانچ کی بہتری پیسٹی بلڈنگ، کینٹ کی فارمونیشن اور عملدرآمد میں شفافیت اور اس دو لائنز میں شامل ہے۔

بجٹ فارمیشن اور عملدرآمد میں شفافیت:

بجٹ اسٹریٹیجی پیپر (BSP) اب ایک مستقل طریقہ کار ہے جو اس کو مزید شفاف بنانے کیلئے (ESP) کے ساتھ سہ ماہی بھی عملدرآمد کی رپورٹ (OBERs) شائع کی جاتی ہیں جو کہ مہیا کی گئی ختم کردہ رقو م (اصل اور دی گئی رقوم ) کی شفافیت کو یقینی بنائی ہیں جو کہ ہر سہ ماہی کے اصل اخراجات پرمشتمل ہوتی ہے۔

ادارہ جاتی ترقی:

حکومت نے خصوصی طور پر یہ ادارے قائم کئے ہیں ۔

1 - ڈیبیٹ مینجمنٹ یونٹ۔

2 ٹیکس ریفارم یونٹ

اس کا کام لیکس کی وصولی کو منظم طریقہ سے ریسرین اور کیسی پالیسی فارمولیشن کے تحت تجزیہ کرنا ہے جس میں صوبائی معاملات و سوال کرنے والے اداروں کو مزید بہتر بنانا ہے۔

3- انٹرنل آڈٹ یونٹ

محکہ ، داخلہ تعلیم اور خزانہ میں رسک بیڈ آڈٹ پلان مرتب کیا ہے جو ان کے اندرونی آڈٹ مشتمل ہے۔

قانونی اور ریگولیٹری فریم ورک میں بہتری

اس کی نمایاں کا وشوں میں (1) پبلک فنانس ایڈمنسٹریشن ایکٹ 2018.(11) انٹرنل آڈٹ میل (11) انترل آڈٹ چارٹر 2018(iv) یکشنل ڈیبٹ میل (۷) سند دانش روز (vi) پر پوری روز (vii ) کیپی سٹی ڈویلپمنٹ اسٹرٹیجی، vii) بجٹ میل اور ix) پلاننگ میل شامل ہیں۔

سندھ  ٹیکس ریو نیو موبلائزیشن:

ایس پی آر ایم پی (STRMP) کے نفاذ کے بعد تین سال کے عرصہ میں ٹیکس وصولی (بی ای مالی سال 18-2017) میں 91.37 ارب روپے سے بڑھ کر 185.62 ارب روپے ہوتی ہیں ۔ سندھ ریونیو بورڈ (ایس آر پی ) اپنی کارکردگی عوام کے سامنے پیش کر نے کیلئے سہ ماہی اور سالانہ رپورٹ شائع کرتا ہے ۔ گزشتہ پانچ سال میں الیس فی الیس (STS) وصولی مالی سال 18-2017 میں 33.67 ارب روپے سے بڑھ کر 100 ارب روپے تک ہوچکی ہے جو کہ سالانہ جوئی شرح نمو 24.32 فی صد تی ہے۔

پراپرٹی اینڈ پروویژنل ٹیکس سروے:

حکومت سندھ نے ضلع سکھر میں ٹیکس ریونیو میں اضافہ کا تعین کرنے کے لئے تفصیلی آن گراو نڈ ڈیجٹا ئزڈ پراپرٹی اینڈ پروویژنل  سروے کیا ہے۔ جس میں ابھی تک 39 ہزار 5سو90 جن کی پہلے نشاندہی کی جا چکی تھی اس میں 58 ہزار 5سو90 یونٹس کا اضافہ ہوا ہے ۔ جو کہ مجموعی طور پر 98064یٹس بنتے ہیں ۔ اس میں 148 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان پینٹی میں 70 ہزار 7سو12 سکھر میں 15 ہزار 4سو85 روپڑی اور 11 ہزار 6778 پنوعاقل میں واقع ہیں۔

آئی سی ٹی انٹر نیشنس:

اے ڈی پی مانیٹرنگ ڈیش بورڈ ترقیاتی منصوبوں اور تجزیہ کے مینوئل  نظا م کو بتدریج ICTبیسڈ ٹیکنالوجی پر عمل کیا جارہا ہے یہ ایک جاری سرگرمی ہے جس سے مانیٹرنگ اور ایو لیوایشن کے عمل میں آسانی اور بہتری آئی ہے۔ اس کے علاوہ کمنز ان میں شفافیت اور مالی نظم و ضبط لانے کیلئے نانشل اینڈ سکل سٹم کی موثر نگرانی کیلئے 31 ماموں کو انگر یڈ فنانشل مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (IFMIS) کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔

استعدادکار کی ترقی:

سرکاری خریدار کی وسط مدتی بجٹ کی تیاری ، مالی انتظام محصولات ، ایس اے پی (SAP) اور ایڈوانسڈ ایکسل کے شعبوں میں استعداد کار بڑھانے کی تربیت کا بندوبست کیا جائے گا۔

پروکیورمنٹ سرٹیفیکیشن اینڈ پیروکیورمنٹ پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم (پی پی ایم ایس):

حکومت سندھ نے خریداری قوانین اور پر استعداد کار بڑھانے کیلئے ان کلاس تربیت اور آن لائن سرٹیفیکیٹ کورسز کا آغاز کیا ہے اس وقت تک حکومت سندھ کے 555افران / عمل کوخریداری قوانین اورمل سے متعلق تربیت فراہم کی جا چکی ہے ۔ اس کے علا وہ خریداری طریقہ کار کی بجا آوری کیلئے نیاپروکیورمنٹ پر قار منس مینجمنٹ سسٹم (پی پی ایم ایس ) کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس کے تحت 700 سے زائد پروکیورٹنگ ایجنسیز رجسٹرڈ کی گئی ہیں اور 13 ہزار 7 سو اسکیموں کی نیلامی کا تجزیاتی ڈیٹاپ لوڈ کیا گیا ہے ۔ اب تمام این آئی ٹی (NIT) نوٹس برائے طلی ٹینڈر اور ٹھیکے بذریہ پی پی ایم ایں کئے جارہے ہیں ۔

تازہ ترین