• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حال ہی میں پاکستان نے بڑھتے ہوئے بجٹ خسارے کے پیش نظرآئی ایم ایف کی ٹیم جس کی قیادت آئی ایم ایف مڈل ایسٹ اور ایشیاء مشن کے چیف جیفری فرینک کررہے تھے کے ساتھ اسلام آباد میں اہم مذاکرات کئے۔ یہ مذاکرات آئی ایم ایف سے نئے قرضوں کے حصول یا موجودہ قرضوں کی ری شیڈولنگ کیلئے نہیں بلکہ آنے والے بجٹ میں متوقع 7.5% بجٹ خسارے، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور مستقبل میں قرضوں کی ادائیگی مدنظر رکھتے ہوئے4 سے 5 بلین ڈالر کے نئے قرضوں جس سے پاکستان پر قرضوں کے بوجھ میں مزید 5.7% اضافہ ہوجائے گا کیلئے کئے گئے تھے۔ میرے خیال میں نگراں حکومت کو مارچ میں آئی ایم ایف سے مذاکرات سیاسی جماعتوں اور صوبوں کے اتفاق رائے سے کرنے ہوں گے۔ جیفری فرینک کے مطابق پاکستان موجودہ حالات میں 4.2% کا جی ڈی پی ہدف حاصل نہیں کرپائے گا کیونکہ اس سال جی ڈی پی شرح 3.5% رہنے کی توقع ہے۔ آئی ایم ایف سے حالیہ مذاکرات میں پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا جسے میں اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کے موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 13/ ارب ڈالر ہیں جس میں4 بلین ڈالر بینکوں کے کھاتے داروں اور9 بلین ڈالر اسٹیٹ بینک کے ہیں جو صرف2 ماہ کی امپورٹ کیلئے کافی ہیں۔ جیفری فرینک کے مطابق پاکستان کے پاس کم از کم 3 ماہ کی امپورٹ کیلئے 15 بلین ڈالر کے ذخائر ہونے چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑھتے ہوئے حکومتی قرضے اہم مسئلہ ہے، پاکستان کو اپنے موجودہ 7.5%بجٹ خسارے کو2 سے 3 سال میں3.5% تک لانا ہوگا، اس کے علاوہ موجودہ افراط زر میں بھی کمی کرکے اسے5% سے 7% تک لانا ہوگا جس کیلئے ضروری ہے کہ توانائی کے شعبے میں بہتری لائی جائے، نقصان میں چلنے والے قومی اداروں (SOEs) میں فوری طور پر گڈ گورننس لائی جائے، پاکستان کو بجلی چوری کی وجہ سے واپڈا کو دی جانے والی اربوں روپے کی سبسڈی ختم کرنا ہوگی اور ملکی معیشت کو دستاویزی شکل دینا ہوگی تاکہ 1624/ارب روپے کے بجٹ خسارے کو کم کیا جاسکے۔ جیفری فرینک نے زور دیا کہ ٹیکسوں کی وصولی میں اضافے کیلئے زراعت، سروس سیکٹر، ریٹیل، جی ایس پی پلس کے نفاذ اور مختلف SROs کے ذریعے دی گئی ٹیکس چھوٹ ختم کرکے ہی پاکستان آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کیلئے کوالیفائی کرسکتا ہے۔ انہوں نے پاکستان میں کسی بھی قسم کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی مخالفت کرتے ہوئے ٹیکس وصولی کے دائرہ کار کو بڑھانے پر زور دیا۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف نے معاشی اہداف مکمل حاصل نہ ہونے کے باوجود 2011ء میں اسٹینڈ بائی قرضے (SBA)کی پانچویں قسط اس بنیاد پر دی تھی کہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے وزیر خزانہ کا نیا چارج سنبھالا تھا اور آئی ایم ایف اُن کو معاشی اصلاحات اور ٹیکس ریفارمز کیلئے کچھ ٹائم دینا چاہتی تھی لیکن آر جی ایس ٹی کے نفاذ کو موخر کرنے اور بجٹ خسارے میں کمی نہ لانے کی وجہ سے آئی ایم ایف نے اپنی چھٹی قسط روک لی تھی اور اپنے اس پروگرام پر مزید مذاکرات معطل کردیئے تھے۔ پاکستان کو 2011-12ء سے 2014-15ء تک آئی ایم ایف کو 12 قسطوں میں مجموعی 7.82 بلین ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے جس میں 2012-13ء میں 3.4 بلین ڈالر، 2013-14ء میں 3.43 بلین ڈالر اور 2014-15ء میں 1.35 بلین ڈالر قرضوں کی ادائیگی شامل ہے۔ پاکستان اب تک آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی قرضوں کی باقاعدگی سے ادائیگی کرتا آیا ہے۔ پاکستان نے اس قرضے کی 399 ملین ڈالرکی پہلی قسط فروری 2012ء اور دوسری قسط 394 ملین ڈالر مئی 2012ء میں وقت پر ادا کی لیکن پاکستانی معیشت کو سیاسی غیر استحکامی صورتحال، بجلی اور گیس کے بحران، بڑھتے ہوئے حکومتی قرضے اور ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف مشن کے چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان کے موجودہ قرضے جی ڈی پی کے 60% سے زیادہ ہیں جس میں کمی لانا ضروری ہے۔ انہوں نے پاکستانی روپے کی قدر میں مزید 5% سے 10% کمی ہونے کا امکان ظاہر کیا۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک کی موجودہ مالیاتی پالیسی پر اتفاق کیا کہ اس سے ملک میں گروتھ اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہونا چاہئے۔
گزشتہ دنوں پی ایس او اور پاکستان ٹیکسٹائل سٹی کو شدید مالی بحران سے نکالنے اور ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے میں نے اپنے دونوں اداروں کی ٹیم کے ہمراہ اسلام آباد میں لانگ مارچ دھرنے کے دوران وفاقی وزیر ٹیکسٹائل مخدوم شہاب الدین، وزیر مملکت برائے خزانہ سلیم مانڈوی والا، سیکریٹری ٹیکسٹائل شاہد رشید، ایڈیشنل سیکریٹری فنانس عذرا مجتبیٰ اور وفاقی مشیر فنانس رانا اسد امین سے ملاقات کی۔ سلیم مانڈوی والا ایک بزنس مین ہونے کی وجہ سے بہت مثبت سوچ رکھتے ہیں۔ واپڈا کی جانب سے واجبات کی وقت پر ادائیگی نہ ہونے کے باعث پی ایس او کو بینکوں کو ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایڈیشنل سیکریٹری فنانس عذرا مجتبیٰ نے مجھے بتایا کہ وزارت خزانہ نے واپڈا کو پورے سال کی سبسڈی رواں سال کے7 مہینوں میں ہی ادا کردی ہے لیکن پی ایس او کی ابتر وصولی، بجلی کی چوری اور بدانتظامی کی وجہ سے واپڈا، پی ایس او کو تیل کی ادائیگی نہیں کر پا رہا جس سے پی ایس او جیسا منافع بخش ادارہ بھی مالی بحران کا شکار ہو رہا ہے۔
وزیر مملکت خزانہ اور ان کی ٹیم نے مجھے بتایا کہ رواں مالی سال اب تک وزارت خزانہ واپڈا کو 215/ارب روپے سبسڈی کی مد میں ادا کرچکی ہے۔ بہرحال ملک کے مفاد اور بینکوں کو فوری ادائیگی کیلئے وزارت خزانہ نے واپڈا کو دی جانے والی سبسڈی میں سے6/ارب روپے پی ایس او کو فوری ادا کئے۔ اسی طرح پاکستان ٹیکسٹائل سٹی کو پروجیکٹ کی تکمیل اور نیشنل بینک کے قرضوں کی ادائیگی کیلئے شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ ٹیکسٹائل سٹی کا چیئرمین بننے کے بعد حال ہی میں کراچی میں صدر پاکستان آصف علی زرداری کے ساتھ ایک ملاقات میں میں نے انہیں اس اہم منصوبے میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں بتایا تو انہوں نے وزیر مملکت برائے خزانہ سلیم مانڈوی والا کو ہدایت کی کہ وہ اس پروجیکٹ میں حائل رکاوٹوں کو فوراً دور کریں جس کیلئے میں نے وفاقی وزیر ٹیکسٹائل مخدوم شہاب الدین کے ساتھ خزانہ کے وزیر مملکت سلیم مانڈوی والا کو وزارت خزانہ اسلام آباد میں ایک پریذنٹیشن دی۔ میں سلیم مانڈوی والا اور ان کی ٹیم کا مشکور ہوں کہ انہوں نے کئی گھنٹے مذاکرات کے بعد ٹیکسٹائل سٹی پروجیکٹ کیلئے مجموعی1.1/ارب روپے کی منظوری دی ہے۔ ملکی معیشت کی بہتری کیلئے معیشت کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے میں حکومت سے سفارش کروں گا کہ وہ نقصان میں چلنے والے اداروں کو کئی دہائیوں سے دی جانے والی اربوں روپے کی سبسڈی ترجیحی بنیادوں پر بتدریج ختم کرے۔ پاکستان کی کمزور معیشت عوام کے ٹیکسوں کے اربوں روپے کی سبسڈی ان نقصان میں چلنے والے اداروں میں طویل عرصے تک جھونکنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پیسوں کو تعلیم، صحت اور دیگر سماجی شعبے میں خرچ کرکے عوام کی معیار زندگی کو بہتر بنایا جائے۔
تازہ ترین