• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور امریکہ کے دیرینہ مراسم ہمیشہ اتار چڑھائو کا شکار رہےہیں، امریکہ کو جب پاکستان کی ضرورت پڑی اس نے مطلب براری کے لئے اسے اپنا قریبی حلیف بنا لیا بصورت دیگر پاکستان کو دبا کر رکھنے کی کوشش کی۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف وہ جنگ لڑنا پڑی جس نے اسے ناقابل تلافی جانی و مالی نقصان پہنچایا، اس کے باوجود امریکہ نے پاکستان پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے نئی افغان پالیسی کا اعلان کیا تو ہماری قوم کا یہ بیانیہ سامنے آیا کہ ’’اب کسی دوسرے کی جنگ نہیں لڑیں گے اور صرف اس کے ساتھ چلیں گے جو ہماری قربانیوں کو تسلیم کرے گا‘‘ کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی معیشت کی لاغری میں ایک بنیادی عنصر یہ جنگ بھی رہی۔ اب جبکہ پاکستان کو اپنے معاشی امور کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس جاری ہے، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا بیان بعید از قیاس نہیں تھا کہ ’’بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات چاہتے ہیں، بش نے نیوکلیئر معاہدہ کیا، اوباما نے مرکزی دفاعی پارٹنر کا درجہ دیا اور ٹرمپ تعلقات کو نئی بلندیوں پر پہنچا رہے ہیں‘‘ اور دوسری جانب ایلس ویلز نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان میں بنیادی ڈھانچہ جاتی تبدیلیاں کرائے بغیر قرضہ نہ دے۔ یہ ’’بنیادی تبدیلیاں‘‘ افغانستان میں ناکامی سے دوچار امریکی فوج کو بچانے اور سی پیک سے پس قدمی کے سوا کیا ہو سکتی ہیں؟ تاہم یہ بھی عیاں ہے کہ پاکستان نہ افغان معاملات میں دخل دے گا اور نہ سی پیک سے پیچھے ہٹے گا البتہ ایسے بیانات سے امریکہ اپنے لئے مشکلات ضرور بڑھا لے گا۔ وہ اپنے معاملات درست کرنے کا خواہاں ہے تو اسے دوستانہ روش اختیار کرنا پڑے گی۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو چاہئے کہ امریکہ کو بے لگام ہونے سے روکے کہ اب اس کی کوئی بھی منہ زوری پوری دنیا کے امن کو دائو پر لگا دے گی۔ پاکستان کو البتہ اپنا حلقہ احباب وسیع تر کرنے کی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں تاکہ ملکی معیشت بھی مستحکم ہو اور پاکستان کے ہمنوائوں میں بھی اضافہ ہو۔

تازہ ترین